آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل باجوہ کے کیچ دورے کی تصدیق کردی

0
462

پاکستانی فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ضلع کیچ کے دورے کی تصدیق کردی۔

سنگر میڈیا کی جانب سے گذشتہ روز تربت شہر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات اور جگہ جگہ چیکنگ، فضائی سرچنگ سمیت ایک باخبر اندرونی ذرائع سییہ انکشافی نیوز بریک کی ہے کہ جنرل باجوہ تربت دورے پر موجود ہیں۔

جنرل باجوہ کے دورے کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی، وہ چھپکے سے آئے اورجب وہ واپس راولپنڈی پہنچ گئے تب آئی ایس آر کی جانب سے اس کے دورے کی تصدیق کی گئی۔

بعض اندرونی ذرائعوں کا جنرل باجوہ کے خفیہ دورے کے حوالے سے کہنا ہے کہ جس طرح ماضی میں کوہلو میں جنرل مشرف کے دورے کے موقع پر راکٹ لانچرفائر ہوئے بالکل اسی خوف کے باعث اس دورے کوبھی خفیہ رکھا گیا اورسیکورٹی کے انتظامات اس طرح سخت کئے گئے کہ کسی طرح کی کوئی لیکیج نہ ہوسکے۔ کیونکہ مکران میں آزادی پسند مسلح تنظیمیں بلوچستان کی دیگر علاقوں سے زیادہ فعال ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تربت کا دورہ کیا۔اور پورا دن فوجی جوانوں کے ساتھ گزارا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دورہ تربت میں آرمی چیف کو ایف سی ہیڈ کوارٹر بلوچستان ساؤتھ میں سکیورٹی صورتحال پربریفنگ دی گئی۔

آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آرمی چیف کو پاک ایران سرحد پرباڑکی تعمیر پر بھی بریفنگ دی گئی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کی کوششوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔

لیکن دوسری طرف بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ فورسز اہلکاروں نے آرمی چیف سے دوران ملاقات چیک پوسٹیں ختم کرنے کی استدعا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے مردو خواتین فوجی جوانوں سے ملاقات کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے سبدان ٹاپ کے شہدا کے عزم اور حوصلے کو خراج تحسین کیا اور کہا کہ شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور دہشت گردوں کوکیفرکردارتک پہنچایا جائے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے دشت میں بلوچ سرمچاروں نے سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پرحملہ کرکے 17اہلکار ہلاک کئے اوران کے تمام اسلحہ و گولہ بارود اپنے قبضے میں لئے تھے۔ جس کی ذمہ داری بی ایل ایف نے قبول کرلی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here