پاکستان: الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنیکا بل منظور، اپوزیشن کاعدالت جانیکا فیصلہ

0
176

اسلام آباد میں پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے اعتراضات اور واک آؤٹ کے باوجود انتخابات میں رائے شماری کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال کا ترمیمی بل منظور کر لیا گیا ہے۔

اس بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو کہ ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔

یہ بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 221 ارکانِ اسمبلی نے ووٹ دیا جبکہ اس کی مخالفت میں 203 ووٹ آئے جس کے بعد بل کی شق وار منظوری دی گئی۔

اس بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے ‘پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ دن’ قرار دیا ‘جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے’ جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے قوانین کی منظوری کو سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مشترکہ اجلاس کے دوران ایک قانونی تنازع یہ بھی کھڑا ہوا کہ حکومتی بل پاس کرانے کے لیے ایوان میں اس وقت موجود اراکین کی اکثریت ہی درکار ہے یا پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کی تعداد ملا کر اکثریت درکار ہو گی۔

مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایوان میں جتنے لوگ موجود ہیں، ان کے ووٹوں سے ہی فیصلہ ہو جائے گا جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مشترکہ اجلاس میں ترمیم کی منظوری کے لیے دونوں ایوانوں میں اکثریت درکار ہے اور اگر حکومت کے پاس 222 ووٹ نہ ہوں تو قانون منظور نہیں ہو سکتا۔

اس بات پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ اس معاملے میں آئین کو دیکھا جاتا ہے نہ کہ رولز کو اور انہوں نے قانون سازی کے معاملے پر گنتی جاری رکھنے کا حکم دیا۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق اس اجلاس میں کل 27 بل منظوری کے لیے پیش کیے گئے جن میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے علاوہ کلبھوشن یادیو اور عالمی عدالت انصاف سے متعلق بل، اینٹی ریپ بل 2021 اور سٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپورشن ترمیمی بل بھی شامل ہیں۔

ان مجوزہ بلوں میں سب زیادہ متنازع انتخابی اصلاحات کا معاملہ تھا جس پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک واضح خلیج نظر آئی۔

قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے اس اجلاس سے خطاب میں مشترکہ اجلاس کو موخر کر کے انتخابی اصلاحات پر مکمل مشاورت کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کا قانون منظور کروا لیتی ہے تو وہ آج سے ہی آئندہ الیکشن کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

مشترکہ اجلاس کا آغاز بدھ کو ایک گھنٹے کی تاخیر سے ہوا تو سپیکر قومی اسمبلی نے بابر اعوان کو آئٹم ٹو یعنی الیکشن ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ کا بل منظوری کے لیے پیش کرنے کی دعوت دی تو بابر اعوان نے جواب دیا کہ اپوزیشن اس معاملے پر آپ سے بات کرنا چاہتی ہے اس لیے اسے فی الحال موخر کر دیا جائے۔

اس کے بعد اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمان کی روایات کی دھجیاں اڑا کر قانون بلڈوز کروانا غلط بات ہے۔ ’حکومت کا مشاورت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ گزشتہ اجلاس کو موخر کرنے کا مقصد ووٹ پورے کرنا اور اتحادی پارٹیوں کو منانے کے لیے وقت حاصل کرنا تھا۔‘ شہباز شریف نے کہا کہ وہ اپوزیشن اراکین کو داد دیتے ہیں کہ وہ حکومتی دباؤ میں نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سوچ بہت محدود ہے کہ بلز کو بلڈوز کیا جائے لیکن انھیں عوام سے ووٹ ملنا مشکل ہے اسی لیے مشین کے ذریعے کسی طریقے سے سلیکٹڈ حکومت کو طول دینا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے ای وی ایم کو ’ایول اینڈ وشیئس مشین‘ قرار دے دیا اور کہا کہ ’حکومت کی نیت میں فتور ہے اس لیے کالے قوانین پاس کرانا چاہتے ہیں۔ اس کا کیا مقصد ہے؟ کچھ ایسا ہو جائے کہ عوام کے پاس نا جانا پڑے اور ای وی ایم ان کا مقصد پورا کر دے۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ جو ادارہ شفاف الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہے ان کے اعتراضات کے باوجود حکومت الیکشن قوانین میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔

قائدِ حزبِ اختلاف نے سپیکر اسمبلی سے کہا کہ وہ اس ایوان کے نگران ہیں اور اگر انھوں نے ان بلز کو بلڈوز ہونے دیا تو تاریخ اور عوام انھیں معاف نہیں کرے گی۔ اس پر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ’میں کوئی کام آئین اور قوانین کے خلاف نہیں کروں گا۔‘

شہباز شریف نے اپنی تقریر کے اختتام پر حکومتی بینچوں میں موجود ’باضمیر‘ اراکین سے درخواست کی کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور اس قانون کو دفن کر دیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here