بلوچستان پولیس کی تحویل میں خاتون کی برہنہ رقص کی ویڈیو بنانے کے الزام میں خواتین پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
’خواتین پولیس اہلکاروں کے ہوتے ہوئے نہ صرف مرد پولیس اہلکار مجھ پر تشدد کے لیے آتے تھے بلکہ بعض اوقات مدعی پارٹی کے لوگ بھی تشدد کے وقت موجود ہوتے تھے۔‘
یہ کہنا تھا صائمہ بی بی (فرضی نام) کا جن کی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس کی تحویل کے دوران نہ صرف برہنہ ویڈیو بنوائی گئی تھی بلکہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کی گئی تھی۔
اگرچہ تحقیقات کے بعد ویڈیو کے حوالے سے مجموعی طور پر اب تک چھ خواتین پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی تو کی گئی ہے لیکن خاتون کی برہنہ ویڈیو کیوں بنوائی گئی اس کی وجوہات سامنے نہیں آئیں۔
صائمہ بی بی کو سنہ 2020 میں قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ویڈیو بنانے کی حرکت، سزا پانے والی خواتین کی تھی اور اس حوالے سے کوئی اور محرک کار فرما نہیں تھا۔
تاہم خاتون کے بھائی نے کہا ہے کہ اگر ان کی بہن نے کوئی جرم کیا تھا تو عدالت اسے سزا دیتی لیکن عدالت کا حکم آنے سے پہلے دوران حراست ان کی بہن کو کیوں بے انصافی کا نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان میں خواتین پولیس اہلکاروں کے خلاف یہ اپنی نوعیت کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی بتائی جا رہی ہے۔
قتل کے الزام میں نامزد خاتون کا تعلق بلوچستان کے خانہ بدوش قبائل سے ہے۔ یہ لوگ گرمیوں میں کوئٹہ آتے ہیں جبکہ سردیوں میں واپس بلوچستان کے گرم علاقوں سبی اور نصیرآباد کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں۔
چونکہ غربت کے باعث کوئٹہ میں ان لوگوں کے پاس اپنے گھر نہیں ہوتے جس کی وجہ سے یہ لوگ کوئٹہ میں جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہائش پزیر ہوتے ہیں۔
اس خاتون کا تعلق بھی ایک غریب خانہ بدوش خاندان سے ہے اور جس وقت انھیں قتل کے ایک مقدمے نامزد کیا گیا اس وقت وہ کوئٹہ میں سمنگلی روڈ پر کلی جمعہ خان میں اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ خیموں اور جھونپڑیوں میں رہائش پزیر تھی۔
وہ شادی شدہ ہیں اور تین بچوں کی ماں بھی ہیں۔ کوئٹہ میں اپنے خاندان کا معاشی سہارا بننے کے لیے وہ گردونواح کے علاقے میں لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری کرتی تھیں۔
خاتون سمنگلی روڈ پر جس گھر میں کام کرتی تھیں اس میں ستمبر 2020 کو ایک تین سالہ بچے کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا۔
بچے کے قتل کا مقدمہ اس کے والد کی مدعیت میں صائمہ بی بی کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
جناح ٹاؤن پولیس سٹیشن میں درج ایف آئی آر کے مطابق مدعی نے الزام عائد کیا کہ صائمہ بی بی نے گھر سے قیمتی زیورات ایک شاپر میں ڈالنے کے بعد تین سالہ بچے کا گلا گھونٹا اور اسے پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق خاتون زیورات کے ساتھ فرار ہو رہی تھے کہ ان کے سالے نے اسے دیکھ کر ان کا پیچھا کیا جس پر خاتون شاپر کو چھوڑ کر فرار ہو گئی۔
صائمہ بی بی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس واقعے میں ملوث نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان پر بچے کے قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔
’جب مجھے پتہ چل گیا کہ میرے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے تو میں خود پولیس تھانے گرفتاری پیش کرنے گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ بچے کے قتل کا ناجائز الزام لگانے کے علاوہ مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
’خواتین پولیس اہلکاروں کے ہوتے ہوئے مجھ پر تشدد کرنے کے لیے مرد پولیس اہلکار بھی آتے تھے۔ بجلی کا کرنٹ دینے کے علاوہ مجھے بجلی کے پھنکے سے لٹکایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ برف پر بٹھانے کے علاوہ میرے اوپر پانی بھی ڈالا جاتا تھا۔‘
انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تفتیش کے نام پر تشدد کے دوران مدعی پارٹی کے لوگ بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر یہ دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ میں بچے کے قتل کا اعتراف کروں۔
گرفتاری کے بعد خاتون کو جناح ٹاؤن پولیس سٹیشن منتقل کیا گیا تھا۔ خاتون کی برہنہ رقص کرتی ہوئی ایک ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔
ویڈیو کی منظر عام پر آنے کے بعد اس سلسلے میں تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اور ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ کی جانب سے ایک خاتون پولیس افسر کو انکوائری کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
تحقیقات کے مطابق یہ ویڈیو اس وقت بنائی گئی جب خاتون جناح پولیس سٹیشن میں 15 ستمبر سے 28 ستمبر 2020 کے دوران ریمانڈ پر تھی۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ دوران حراست ملزمہ کو برہنہ ہونے اور ایک سندھی گانے پر ناچنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
تحقیقات کے بعد جن خواتین پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ان میں پانچ کانسٹیبل اور ایک انسپیکٹر شامل ہیں۔
ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ اسد ناصر نے بتایا کہ خواتین کانسٹیبلوں کے خلاف پہلے ہی کارروائی کرتے ہوئے ان کو ملازمت سے برطرفی کی سزا دی گئی تاہم خاتون انسپیکٹر کے خلاف جو انکوائری کی تھی اس میں انھیں فرائض سے غفلت اور لاپرواہی کا مرتکب قرار دیا تھا۔
تحقیقات کی روشنی میں ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس محمد اظہر رانا نے خاتون انسپیکٹر کو جبری ریٹائرمنٹ کی سزا دی۔
ڈی آئی جی کی جانب سے 11 ستمبر 2021 کو جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق خاتون انسپیکٹر کو صفائی کا پورا موقع دیا گیا لیکن وہ اپنی دفاع میں کچھ پیش نہیں کر سکی جس پر ان کو ملازمت سے جبری ریٹائرمنٹ کی سزا دی گئی۔
خاتون کو برہنہ رقص کرانے کے حوالے سے جتنی بڑی تعداد میں خواتین پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی وہ خواتین پولیس اہلکاروں کے حوالے سے بلوچستان میں اب تک کی غالباً سب سے بڑی کارروائی ہے لیکن تاحال پولیس کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ خاتون کو کیوں برہنہ رقص کرنے پرمجبور کیا گیا۔
تحقیقات کرنے والی خاتون پولیس افسر سے جب فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ایک ویڈیو انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان کی مشاہدے میں آئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ ویڈیو ڈی آئی جی کوئٹہ کو بھیجی گئی تھی۔ ڈی آئی جی نے تحقیقات کی ذمہ داری مجھے سونپی اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ڈی آئی جی کے حوالے کی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملزمہ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا جس پر ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ ان خواتین اہلکاروں نے کسی پولیس افسر کے کہنے پر ایسا کیا بلکہ یہ ان خواتین اہلکاروں کی اپنی حرکت تھی جس پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی۔
ملزمہ کے بھائی نے بتایا کہ ان کی بہن کے خلاف مقدمہ اس وقت عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں اور ان کے پاس عدالتوں میں مقدمات کی سکت نہیں لیکن چونکہ ان کی بہن کو ایک مقدمے میں پھنسایا گیا جس کی وجہ سے اپنی صفائی کے لیے انہیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ انھیں یہ توقع ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہو گا لیکن عدالت کے فیصلے سے قبل ان کی بہن کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی بہن کی ویڈیو بنانے اور اسے سوشل میڈیا پر ڈالنے کے پیچھے ضرور کسی کا ہاتھ ہو گا اس لیے اس ویڈیو کے بنانے کی محرکات کو سامنے لانا چاہیے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی بہن اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ویڈیو بنوانے میں جتنے بھی لوگ ملوث ہیں ان سب کے خلاف کارروائی کی جائے۔