ہوشاپ واقعہ: کوئٹہ و تربت میں احتجاجی مظاہرہ وریلی، شاہراہ بلاک

0
191

ہوشاپ واقعہ کیخلاف کوئٹہ اور تربت میں احتجاجی مظاہرہ اور ریلی نکالی گئی جبکہ اکوئٹہ میں حتجاجاً سریاب روڈ کی بلاک کیا گیا۔

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں اتوار کی صبح بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے دھرنا دے کر ٹریفک کی روانی معطل کر دی۔

سریاب روڈ پر دھرنے کے باعث ٹریفک کی روانی معطل ہونے کی وجہ سے سڑک کے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی۔ سندھ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے ہزاروں مسافر احتجاج کے باعث شہر میں داخل نہیں ہوسکے۔

احتجاج کی کال گذشتہ شب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہوشاب واقعہ میں جاں بحق بچوں کے لواحقین کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو بلوچستان بھر میں احتجاج اور میتوں کے ہمراہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرینگے۔

مختلف بلوچ طلباء تنظیموں کے کارکنوں کی بڑی تعداد اس وقت سریاب روڈ پر احتجاجاً بیٹھے ہیں۔

سریاب روڈ پر موجود مظاہرین نے ہوشاپ واقعے میں ملوث ایف سی اہلکاروں کو گرفتار اور بلوچستان سے ایف سی کو نکالنے کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب شہر کے ریڈ زون گورنر ہاؤس کے سامنے لواحقین کا میتوں کے ہمراہ دھرنا پانچویں روز جاری رہا ہیں۔

دریں اثنابلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں اتوار کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر ہوشاپ میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جانبحق بچوں کی لواحقین کے مطالبات کے حق میں ایک ریلی نکالی گئی۔

ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے خواتین، بچوں اور نوجوانوں نے شہر کے مختلف سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے حکومت اور سیکورٹی فورسز کے رویے کے خلاف نعرہ بازی کی۔

ریلی کے شرکاء نے شہید فدا چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ریجنل کوارڈینیٹر غنی پرواز، آل پارٹیز کیچ کے کنوینئر مشکور انور، شاری بلوچ اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے ہوشاب واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں ریاستی جبر اور مظالم کا سلسلہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت بندوق کی نوک پر لوگوں کو دبایا جارہا ہے۔

مقررین نے کہا کہ حکام لواحقین کے مطالبات کو تسلیم کریں جو لاشوں کے ساتھ گذشتہ سات روز سے دھرنا دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا حکام بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ ایک تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں لاشیں گرائی جا رہی ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے اور ہمیں اجازت نہیں کہ ہم اپنے حق کی بات کرسکیں۔ ہماری ہر احتجاج انصاف کے لیے ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سے نا انصافی کی جا رہی ہے۔ ہوشاپ میں دو بچوں کا قتل کیا گیا اس سے پہلے رامیز بلوچ کی لاش کے ساتھ شہید فدا چوک پر دھرنا دیا گیا لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی پھر ہم لاشوں کے ساتھ کوئٹہ گئے وہاں بھی ہمیں انصاف نہیں ملا۔

انہوں نے کہا ہم وسائل کے مالک ہیں وہ ہمیں نہیں ملتے جبکہ روز ہماری لاشیں گرائی جا رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنی لاشیں خاموشی کے ساتھ دفنائیں، لیکن ہم خاموش نہیں رہیں گے، ہم بھی احساس رکھتے ہیں اور اپنے حق کے مطالبے سے ہرگز دست بردار نہیں ہوں گے۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان پر مظالم کا سلسلہ فوری بند ہونا چاہیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here