افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ افغان امن معاہدے کے تحت 1500 طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی ہے۔صدارتی حکم نامے میں تمام قیدیوں کو ‘میدان جنگ میں واپس نہ آنے کی تحریری ضمانت’ دینے کا تقاضا کیا گیا ہے۔
اس کے بدلے میں طالبان نے اپنے قید میں موجود ایک ہزار سرکاری فوجی حکومت کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ صدارتی حکم نامہ ایک ایسے میں وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ نے طالبان کے ساتھ پہلے سے طے شدہ معاہدے کے حصے کے طور پر افغانستان سے اپنے فوجیوں کا انخلاءشروع کیا ہے۔
صدر غنی کے دستخط شدہ حکم نامے کے مطابق ‘روزانہ 100 قیدیوں کو افغان جیلوں سے رہا کیا جائے گا’ یعنی 1500 قیدیوں کو 15 دن کے اندر رہا کیا جائے گا۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات اس رہائی کے عمل کے متوازی شروع ہوں گے۔ اگردونوں فریقین کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوتی ہے تو حکومت نے ہر دو ہفتوں میں مزید 500 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا ہے یہاں تک کہ مجموعی طور پر 5000 طالبان کی رہائی مکمل نہیں ہو جاتی۔
معاہدے کے تحت طالبان کو تشدد میں کمی لانا ضروری ہے اور القاعدہ یا کسی بھی دیگر شدت پسند گروہوں کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں کام کرنے سے روکنا ضروری ہے۔
قیدیوں کی رہائی کا مقصد دونوں اطراف کے مابین اعتماد کی فضا پیدا کرنا ہے اور افغانستان میں 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے براہ راست بات چیت کا آغاز کرنا ہے۔ یہ مذاکرات منگل کے روز شروع ہونے والے تھے، لیکن قیدیوں کی رہائی کے مطالبے کی وجہ سے مذاکرات میں تاخیر ہوئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کی قیادت کونسل کے ایک گمنام رکن نے بتایا کہ اس گروہ نے اسیروں کی ایک فہرست پیش کی ہے جنھیں وہ آزاد کروانا چاہتے ہیں۔
لیکن انھوں نے حکومت پر بداعتمادی کے ساتھ کام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صرف ان قیدیوں کو رہا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو بوڑھے، بہت بیمار ہیں یا جن کی سزا ختم ہو چکی ہے۔
طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے منگل کے روز ٹویٹ کیا کہ طالبان صرف اپنی فہرست میں شامل قیدیوں کو ہی قبول کریں گے۔
صدارتی حکم نامے کے تحت حکومت طالبان قیدیوں کو ‘ان کی عمر، صحت کی حالت اور جیل میں بقیہ مدت’ کی بنیاد پر رہا کرے گی۔
اس سے قبل صدر غنی نے طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے کے تحت 5000 قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن بدھ کے اس فرمان نے ان کے موقف میں نرمی کا اشارہ دیا ہے۔
اس تاریخی معاہدے کے تحت جس کی تائید اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی کی ہے، امریکہ نے بھی اپنی افواج کو 135 دن کے اندر اندر12000 سے کم کرکے 8،600 کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے عسکریت پسندوں کے ساتھ معاہدے کو برقرار رکھنے کی صورت میں 14 ماہ کے اندر تمام فوج واپس بلانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
پیر کے روز امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوا تھا، تاہم گذشتہ ہفتے ہی صوبہ ہلمند میں افغان فوج پر طالبان جنگجوو¿ں کے حملے کے جواب میں امریکہ کی جانب سے فضائی حملہ کرنے کے بعد معاہدہ ٹوٹتا دکھائی دیا تھا۔
جب سوموار کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا آغاز ہوا، اسی وقت ملک میں تازہ سیاسی عدم استحکام نے تمام فریقوں کے مابین مذاکرات کے کسی بھی امکان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گذشتہ برس متنازع افغان انتخابات کے بعد سوموار کو دو مختلف سیاستدانوں کے لیے الگ الگ حلف برداری کی تقریبات ہوئی۔
افغانستان کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ موجودہ صدر اشرف غنی نے گذشتہ برس ستمبر کا انتخاب معمولی اکثریت سے جیتا تھا مگر عبداللہ عبد اللہ نے الزام عائد کیا کہ یہ نتیجہ جعلی ہے۔
ماہرین نے متنبہ کیا کہ موجودہ سیاسی دشمنی ‘منگل سے شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات میں حکومت کے مو¿قف کو بری طرح متاثر کرے گی۔’ امریکی انتظامیہ نےافغان صدر اشرف غنی کی بطور صدر، بظاہر حمایت کرتے ہوئے ملک میں ‘متوازی حکومت کے قیام کے اقدام’ کی مخالفت کی ہے۔