جمعے کو تقریباّ دو سو افغان مترجموں کا پہلا گروپ خصوصی امیگرینٹ ویزے پر امریکہ پہنچ گیا۔ یہ اس پروگرام کا حصّہ ہیں جس کے تحت انہیں امریکی حکومت کی مدد کرنے کے اعتراف کے طور پر امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس موقعے پر صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ آج کا دن اس اعتبار سے ایک اہم سنگ میل ہے کہ ہم نے افغانستان کے شہریوں سے جو وعدہ کیا تھا، اس کی تکمیل کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ وہ شہری ہیں جنہوں نے گزشتہ بیس برس کے دوران امریکی فوجیوں اور سفارت کاروں کی کاندھے سے کاندھا ملا کر مدد کی۔ میں ان تمام امریکیوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے ان بہادر افغان شہریوں کے حق میں اپنی آواز بلند کی، ان میں ہمارے قابل فخر سابق فوجی بھی شامل ہیں، جو مسلسل ان افغان شہریوں کی وکالت کرتے رہے، جو ان کے ساتھ افغانستان میں دوش بدوش کھڑے رہے۔
وائٹ ہاوس کے حکام نے چودہ جولائی کو ‘آپریشن ایلائیز ریفیوج’ کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق جنگ میں مترجموں سمیت جن افغانیوں نے حکومت امریکہ کی مدد کی، انہیں اور ان کے خاندانوں کا بحفاظت انخلا کیا جائے گا، کیوں کہ ان کی زندگیوں کو طالبان سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی اس موقعے پر اپنے بیان میں کہا کہ کہ ان بہادر مرد و خواتین نے اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگی خطرے میں ڈال کر امریکی اور اتحادی فوجوں اور ہمارے سفارت کاروں کی مدد کی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ کی یہ دیرینہ روایت ہے کہ ہم مہاجرین، تارکین وطن اور دیگر افراد کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ آج کی پرواز اس کی تازہ مثال ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پہلی پرواز میں تقریباّ دو سو افراد امریکہ پہنچے ہیں، جبکہ مزید سات سو افراد کے خصوصی امیگرینٹ ویزا کے اجرا کی کارروائی مکمل ہو گئی ہے اور اگلے چند ہفتوں میں ان کا انخلا مکمل ہوجائے گا۔ ان کے علاوہ وہ افغان شہری جن کے خصوصی امیگرینٹ ویزوں کی جانچ جاری ہے اور ابھی سفر کی منظوری نہیں دی گئی، انہیں اور ان کے خاندانوں کو اگلے چند ہفتوں میں تیسرے ملک روانہ کیا جائے گا، جہاں ان کی سیکورٹی کلیرنس کے بعد امریکہ بھیج دیا جائے گا۔
ادھر خبر رساں ادارے رائیٹر نے جمعہ کو خبر دی ہے کہ ہلمند صوبے کے دارالحکومت میں پچھلے دو دن سے طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے اور شہری علاقے سے بھاگ رہے ہیں۔
امریکی زیر قیادت اتحادی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے قریب ہے اور ساتھ ہی طالبان کے حملوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ تاہم، ابھی تک یہ کسی بھی صوبے کے دارالحکومت پر قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
ایک سرکاری اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائیٹرز کو بتایا کہ جمعرات کو لشکر گاہ شہر پر طالبان نے مختلف اطراف سے حملہ کیا ہے، مگر سرکاری فورسز نے ان کو روکے رکھا ہے اور شہر پر قبضہ نہیں کرنے دیا، افغان فضائیہ بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ لشکر گاہ ہلمند صوبے کا دارالحکومت ہے اور اس صوبے کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔