انڈیا: حکومت کی کورونا پالیسی پر تنقید کرنیوالے میڈیا اداروں پر چھاپے

0
175

بھارت کے ٹیکس حکام نے کورونا وائرس سے متعلق حکومتی پالیسی پر تنقید کرنے والے معروف اخبار اور ٹی وی چینل کے دفاتر پر چھاپے مارے اور ہراساں کیا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکام کی جانب سے ہندی زبان کے اخبار دینک بھاسکر اور بھارت سماچار چینل پر چھاپوں کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن مقامی میڈیا نے ٹیکس عہدیداروں نے بتایا کہ ان کے پاس فراڈ کے ثبوت ہیں۔

بھارت میں لاکھوں قارئین تک پہنچنے والا مشہور اخبار بھاسکر نے رواں برس اپریل اور مئی میں کورونا سے ہونے والے دلدوز اثرات پر رپورٹس کی ایک سلسلہ جاری رکھا اور وبا پر حکومتی کارکردگی پر سخت تنقید کی تھی۔

اخبار نے دفاتر پر ٹیکس حکام کے چھاپوں پر ردعمل دیتے ہوئے اپنی ویب سائٹ میں بتایا کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران اس نے ملک کے سامنے اصل صورت حال پیش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کو گنگا میں پھینکنے سے لے کر کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چھپانے تک بھاسکر نے بلا خوف صحافت کی ہے۔

بھارت میں کورونا وائرس کے عروج کے موقع پر شمالی ریاستوں کے شہریوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں دریا میں بہا دی تھیں یا ساحل پر ریت میں دفنادی تھیں کیونکہ ان کے پاس آخری رسومات کے لیے مطلوبہ رقم نہیں تھی۔

اخبار کے مدیر اوم گور نے گزشتہ ماہ نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ گنگا میں لاشیں وزیراعظم نریندر مودی کی انتظامیہ کی ناکامی اور دھوکے کی علامت تھیں۔

بھارت سماچار کے ایڈیٹر انچیف برجیش مشرا کا کہنا تھا کہ چھاپے ہراسانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان چھاپوں سے نہیں ڈرتے، ہم سچ اور اتر پردیش کے 24 کروڑ عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز 2021 کے پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق بھارت 180 ممالک میں سے 142 ویں نمبر پر موجود ہے۔

شمالی ریاست راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گیہلت کا کہنا تھا کہ چھاپے میڈیا کو دباؤ میں لانے کی ہوائی کوشش تھی۔

اپوزیشن جماعت کانگریس سے تعلق رکھنے والے اشوک گیہلت نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ مودی حکومت تنقید کا ایک حرف بھی برداشت نہیں کرسکتی ہے۔

نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجروال نے بھی ٹوئٹر پر کہا کہ چھاپے میڈیا کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت دنیا بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والے بدترین ممالک میں شامل ہے جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 3کروڑ 12 لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور 4 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

ماہرین کے مطابق بھارت میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی حقیقی تعداد سرکاری اعداد وشمار سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔

امریکی تحقیقی ادارے نے دو روز قبل تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے 10 گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔

دی سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ کے اعدادوشمار اور تحقیق کے مطابق بھارت میں کورونا سے اموات اس سے 10 گنا زیادہ اور تقریباً 49 لاکھ ہو سکتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اگر امریکی ادارے کے ان اعدادوشمار کو درست تصور کیا جائے تو یہ 1947 میں آزادی کے بعد بھارت کا سب سے بڑا انسانی بحران تصور کیا جائے گا۔

سوا ارب آبادی کے حامل بھارت میں رواں سال مئی اور جون میں کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کی وجہ سے بدترین تباہی آئی اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف مئی کے مہینے میں ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔

تاہم اس وبا کے آغاز سے لے کر رواں سال جون تک بھارت میں وائرس سے ہونے والی اموات پر تجزیہ کرنے والے امریکی ادارے کا ماننا ہے کہ اس دوران بھارت میں 34 لاکھ سے لے کر 49 لاکھ اموات ہوئیں۔

بھارتی ٹیکس حکام نے ملک کے ایک مشہور اخبار پر چھاپہ مارا جس کے بارے میں صحافیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے حکومت کے وبائی ردعمل کے بارے میں اخبار کی کوریج پر جوابی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق دائنک بھاسکر گروپ جس کا ہندی زبان کے اخبار کی سرکولیشن 4 کروڑ سے زائد ہے، پر کم از کم چار مقامات پر بیک وقت چھاپہ مارا گیا جس میں مدھیا پردیش میں اس کے ہیڈکوارٹر بھی شامل ہے۔

ٹیکس اتھارٹی کی ترجمان سروابی اہلووالیہ نے بتایا کہ اس گروپ سے منسلک ملک بھر میں متعدد مقامات پر جانچ پڑتال جاری ہے تاہم انہوں نے اس کیس کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ عام طور پر ٹیکس چوری کے معاملات میں جانچ پڑتال کرتا ہے۔

تاہم ٹیکس چوری کا جواز حکومتی ناقدین نے پیش کیا اور بتایا کہ دائنک بھاسکر بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہیجس میں حالیہ ہفتوں کی رپورٹس بھی شامل ہیں۔

پریس کلب آف انڈیا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ’آزاد میڈیا کو روکنے کے لیے اداروں کے ذریعے حکومت کی طرف سے اس طرح کی دھمکیوں کی مذمت کرتا ہے‘۔

2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی تنقیدی میڈیا ادارے ٹیکس تفتیش کاروں کی گرفت میں آچکے ہیں جس نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادی صحافت کے بارے میں خدشہ پیدا کیا ہے۔

صحافیوں کے لیے وکالت کرنے والے گروپ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے حال ہی میں آزادی صحافت کی اپنی درجہ بندی میں بھارت کو 142 ویں نمبر پر رکھا ہے۔

دائنک بھاسکر کے نیشنل ایڈیٹر اوم گور نے کہا کہ چھاپوں کے دوران ’صحافیوں کو ہراساں کرنے کے ہتھکنڈے‘ کے طور پر ان کے عملے کے موبائل فون قبضے میں لے لیے گئے۔

انہوں نے ٹیلیفون پر بتایا کہ ’چھاپہ ہماری جارحانہ رپورٹنگ کا نتیجہ ہے خاص طور پر اپریل میں وبائی امراض کی دوسری لہر کے دوران جہاں چند دوسرے میڈیا کے برعکس ہم نے بتایا کہ کس طرح آکسیجن اور ہسپتال کے بیڈ کی کمی کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں‘۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here