بنگلہ دیش کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں تقریباً آٹھ ہزار روہنگیا مسلمان تشدد سے بچنے کے لیے میانمار کے رکھائن ریاست سے بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔
میانمار کی حکمراں فوجی جنتا اور بودھ اکثریتی افراد پر مشتمل ایک طاقت ور نسلی ملیشیا اراکین آرمی کے درمیان لڑائی میں شدت آنے کے ساتھ ہی ملک میں حالات مزید بدتر ہوتے جارہے ہیں۔
بنگلہ دیش حکومت میں پناہ گزینوں کے امور کے دفتر کے ایک سینیئر اہلکار محمد شمس الدجیٰ نے بتایا،”ہماری معلومات کے مطابق تقریباًآٹھ ہزار روہنگیا ملک میں داخل ہوئے ہیں۔”
انہوں نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا، "بنگلہ دیش پر پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ ہے اور اس قابل نہیں ہے کہ مزید روہنگیا کو جگہ دے۔”
بنگلہ دیش کی حکومت نے اس سے قبل کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے تھے، جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ پچھلے کچھ مہینے میں کتنے روہنگیا آچکے ہیں۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ محمد توحید حسین نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، حکومت اس پر کابینہ میں سنجیدہ بحث کرے گی اور اگلے دو سے تین دن کے اندر اس بحران کو حل کرلے گی۔
روہنگیا کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، حسین نے کہا کہ اضافی پناہ گزینوں کے لیے انسانی بنیادوں پر پناہ گاہ فراہم کرنے کی اب ملک میں صلاحیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزید دراندازی روکنے کی کوشش کی جائے گی لیکن سرحد کو مکمل طور پر سیل کرنا ممکن نہیں ہے۔
سن دو ہزار سترہ میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں میانمار سے فرار ہونے کے لئے مجبور ہونے کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیاؤں نے پناہ گزین کیمپوں میں پچیس اگست کو ریلیاں نکالیں۔ انہوں نے تشدد کے خاتمے اور اپنے وطن میں محفوظ واپسی کا مطالبہ کیا۔
ایک ملین سے زیادہ روہنگیا اس وقت جنوبی بنگلہ دیش میں انتہائی بھیڑ بھاڑ والے کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہیں۔ انہیں اپنے وطن واپسی کی امید بہت کم رہ گئی ہے، جہاں انہیں شہریت اور بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔