بھارتی حکومت کی لداخ کو محدود خود مختاری دینے کااعلان

ایڈمن
ایڈمن
9 Min Read

بھارت کی مرکزی حکومت نے لداخ میں بودھ مت کے پیروکاروں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ لداخ کو محدود خود مختاری دے دی جائے گی۔

حکومت نے بودھ قیادت کو علاقے کے لوگوں کی اراضی اور سرکاری ملازمتوں کے تحفظ سمیت تعلیمی وظائف اور روزگار کے بہتر مواقعوں کی فراہمی کے لیے بہت جلد نیا قانون متعارف کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

لداخ کو یہ اندرونی خود مختاری بھارت کے آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت دی جا رہی ہے۔

بھارت کے آئین کی دفعہ 244 کے تحت ایسی شقیں شامل ہیں جو اس وقت آسام، میگھالیہ، تری پورہ اور میزورام کے قبائلی خود مختار اضلاع میں مقامی لوگوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتی ہیں۔

یہ یقین دہانیاں لداخ کی بودھ قیادت کے اس مطالبے کے جواب میں کرائی گئی ہیں کہ سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے اس پہاڑی خطے کو آسام کے قبائلی علاقے بوڈو لینڈ کی علاقائی کونسل کی طرز پر اختیارات دیے جائیں۔

بودھ قیادت نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کا یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو تمام مقامی تنظیمیں لداخ ہل ڈیولپمنٹ کونسل لیہہ کے انتخابات کا بائیکاٹ کریں گی۔ یہ انتخابات جلد ہونے والے ہیں۔

بھارت کی مرکزی حکومت نے گزشتہ سال اگست میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کر کے ریاست کو براہِ راست مرکز کے زیرِ کنٹرول دو حصوں یعنی جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔

اس کے بعد جموں اور وادی کشمیر جو اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلاتے ہیں، کے لیے ایک نیا قانونِ اقامت تشکیل دیا گیا۔

نئے قانونِ اقامت نے سابقہ ریاست میں جس میں لداخ کا خطہ بھی شامل تھا، 1927 سے نافذ اسٹیٹ لا کی جگہ لے لی ہے۔ سابقہ قانون کے تحت صرف اس کے پشتنی یا حقیقی باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد خریدنے اور بیچنے اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے اہل تھے۔

اس قانون کے تحت ریاست کے مستقل باشندوں کو ایک خصوصی دستاویز جاری کی جاتی تھی جو اسٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفیکیٹ کہلاتی تھی۔

متنازع ریاست کو یہ خصوصی پوزیشن دفعہ 370 کے تحت حاصل تھی جسے 1950 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئینِ ہند میں شامل کیا گیا تھا۔

دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی اس کی ایک ذیلی شق دفعہ 35 اے بھی ختم ہو گئی۔

دفعہ 35 اے کے تحت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں زمینیں اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے پشتنی یا مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔

دفعہ 35-اے کے تحت جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا انتخاب کرنے اور ان کے لیے خصوصی حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی مجلس قانونِ ساز کو حاصل تھا۔

دفعہ 370 اور دفعہ 35-اے کی منسوخی کے بعد نہ صرف ریاست کا اپنا آئین، پرچم اور ترانہ ختم ہو گئے ہیں بلکہ اب بھارت کے آئین اور پارلیمان کے منظور شدہ قوانین کا ریاست پر مکمل اور براہِ راست اطلاق ہو رہا ہے۔

بھارت کی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے گزشتہ ایک برس کے دوران جموں و کشمیر میں متعدد نئے قوانین متعارف کرائے ہیں اور کئی ایک موجودہ قوانین کو تبدیل کیا ہے جس پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے یہ کہہ کر تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ غیر جمہوری عمل ہے۔

حزبِ اختلاف کے مطابق کشمیر میں عوامی حکومت موجود ہے اور نہ منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل اسمبلی جو ایک جمہوری نظام میں اس طرح کے فیصلے کرنے کی مجاز ہو۔

دوسری جانب مقامی لوگوں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ قوانین اور ضابطوں میں رد و بدل بالخصوص نئے اقامتی قانون کا نفاذ مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کو تبدیل کرنے کے موجودہ بھارتی حکومت کے مبینہ منصوبے کا حصہ ہے۔

ان خدشات کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ یونین ٹریٹری آف لداخ کے لیے اس طرح کا کوئی نیا قانون ابھی تک متعارف نہیں کرایا گیا۔ یہاں تک کہ اب لداخ کی بودھ قیادت کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس خطے کو چھٹے شیڈول کے تحت محدود اندرونی خود مختاری دی جائے گی۔

جموں و کشمیر کی کئی سیاسی تنظیموں نے اسے جانب داری اور نا انصافی قرار دیا ہے۔ جب کہ بعض ناقدین کے نزدیک یہ ایک ‘طے شدہ میچ’ ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کا اصل ہدف مسلم اکثریتی جموں و کشمیر تھا اور ہے۔

کشمیر کی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، پیپلز کانفرنس، استصوابَ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد ک±ل جماعتی حریت کانفرنس اور یہاں تک کہ بھارت کی کانگریس پارٹی اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کی مقامی قیادت نے اس پس منظر میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ نئے قانونِ اقامت کے تحت غیر مقامی افراد کو بھی شہریت کی سندیں عطا کی جا رہی ہیں۔

سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق اس قانون کے تحت اب تک 20 لاکھ سے زائد سندیں جاری کی جا چکی ہیں اور فائدہ اٹھانے والوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جو سابقہ ریاست کے مستقل یا پشتنی شہری نہیں ہیں۔

کئی دہائیاں پہلے سابقہ مغربی پاکستان سے ہجرت کر کے جموں کے مختلف سرحدی علاقوں میں سکونت اختیار کرنے والے ہزاروں ہندو پناہ گزینوں کو بھی مستقل رہائشی ہونے کے سرٹیفیکٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔

بھارت کی سول سروسز آئی اے ایس میں شامل بعض افسران، ان کے افرادِ خانہ، بالمیکی سماج یعنی خاکروبوں اور گورکھا برادری کے ممبران کو بھی ڈومسائل سرٹیفیکٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت لداخ کو محدود اندورنی خود مختاری دینے پر اس لیے آمادہ ہو گئی ہے۔ کیوں کہ چین نے اس کی طرف سے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی تقسیم کے اقدام کو قبول نہیں کیا اور حال ہی میں بیجنگ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ لداخ کو نئی دہلی کی طرف سے وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کے اقدام کو تسلیم نہیں کرتا۔

دونوں ممالک کی افواج کے درمیان لداخ اور تبت کی سرحد پر کئی ماہ سے جاری تناو? اور محاذ آرائی کو اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

لداخ کا کل رقبہ 59 ہزار 146 کلو میٹر ہے اور یہ دو اضلاع لیہہ اور کارگل پر مشتمل ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق دونوں اضلاع کی ک±ل آبادی دو لاکھ 74 ہزار تھی۔ جو اب بڑھ کر تقریباََ چار لاکھ ہو گئی ہے۔

لیہہ ضلع اور کارگل کے نوبرا علاقے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کی اکثریت ہے جب کہ کارگل کے باقی علاقے میں مسلمان رہتے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے۔

مجموعی طور پر لداخ کی ک±ل آبادی میں 46 اعشاریہ 6 فی صد مسلمان، 39 اعشاریہ 7 فی صد بودھ اور 12 اعشاریہ ایک فی صد ہندو اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment