برطانیہ اورکینیڈا نے بیلاروس کے صدر پر پابندی عائد کردی

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

برطانیہ اور کینیڈا نے انتخابات میں دھاندلی اور احتجاج کرنے والے شہریوں پر مظالم کے الزام پر بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو، ان کے بیٹے اور دیگر سینیئر عہدیداروں پر سفری پابندی عائد اور اثاثے منجمد کردیے۔

خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ لوکاشینکو کو انسانی حقوق کی پامالی اور انتخابات میں دھاندلی کی قیمتا چکانی پڑے گی۔

برطانوی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں لوکاشینکو کے اتحادی روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب بھی اشارہ کیا لیکن برطانیہ نے تاحال روس کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ بیلاروس میں انتخابات کے بعد اپوزیشن نے طویل عرصے سے حکومت کرنے والے لوکاشینکو پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔

بیلاروس کے صدر نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن کے احتجاج کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی تھی اور سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق لوکاشینکو کی جانب سے 9 اگست کو انتخابات میں کامیابی کے اعلان کے بعد 1200 سے زائد افراد گرفتار ہوئے تھے۔

انتخابات سے قبل ماریا کولیسنکووا سمیت دیگر اتحادیوں نے صدارتی امیدوار کے لیے سویٹلانا ٹیکھنووسکایا کو چنا تھا جو انتخابات کے فوری بعد پڑوسی ملک لتھوانیا چلی گئی تھیں۔

اپوزیشن اتحاد میں شامل ایک اور خاتون رہنما ٹسیپکالو بھی ملک چھوڑ چکی ہیں، اس کے علاوہ ایک اور رہنما اولگا کووالکووا بھی انتخابات کے چند روز بعد پولینڈ پہنچ گئی تھیں۔

روس کے قریبی اتحادی بیلاروس کے صدر لوکاشینکو پر انتخابی بحران کے بعد پہلی مرتبہ بڑی مغربی طاقتوں نے ردعمل دیا ہے اور پابندی کا اعلان کیا۔

برطانوی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے اس کی قیمت چکانی پڑے گی، انسانی حقوق کی پامالی کی گئی ہے انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے جس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بیلاروس میں جوکچھ ہورہا ہے اس پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک خلا موجود ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اب کارروائی کا وقت آگیا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم بدمعاشی کے ذمہ داروں کی گرفت کریں گے اور بیلاروس کے عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے’۔

ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنی جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوں گے’۔

ادھر کینیڈا کے وزیرخارجہ فرینکوئس فلپ کا کہنا تھا کہ ‘بیلاروس کی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں اور اپوزیشن کے ساتھ تنازع کے حل کے لیے ساتھ بیٹھنے کا کوئی ارادہ نہ رکھنے پر کینیڈا خاموش نہیں بیٹھے گا’۔

بیلاروس میں موجود اپوزیشن کی رہنما اور احتجاج کی قیادت کرنے والی خاتون ماریا کولسنیکووا کو 7 ستمبر کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا تھا۔

لوکاشینکو کی حکومت نے 17 ستمبر کو انہیں قومی سلامتی کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا تھا۔

بیلاروس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ بالٹک ریاستوں کے تقریباً 300 عہدیداروں پر پابندی عائد کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان عہدیداروں پر پابندی بیلاروس کے عہدیداروں پر عائد کی گئی پابندیوں کے ردعمل میں لگائی جارہی ہے۔

بیلاروس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ بالٹک ریاستیں ایسٹونیا، لٹوویا اور لتھوانیا کے 100،100 عہدیداروں کو پابندی کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ بیلاروس میں 9 اگست کو انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد اپوزیشن نے طویل عرصے سے برسر اقتدار لوکاشینکو پر دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا اور شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔

صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو نے 80 فیصد نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ اپوزیشن رہنما نے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔

صدر کے اعلان کے بعد بیلاروس میں شدید احتجاج شروع ہوا تھا جس کو 1991 میں سوویت یونین سے آزادی کے بعد بدترین احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔

یورپی یونین نے انتخابات کے متنازع نتائج کو مسترد کرتے ہوئے صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو کی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔

یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ہنگامی اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ ہمارا بلاک بیلاروس کے عوام کے ساتھ ہے، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی جیت نہ تو شفاف تھی اور نہ ہی آزادانہ انتخاب تھا۔

چارلس مائیکل کا کہنا تھا کہ جلد ہی کشیدگی پھیلانے، دباو¿ ڈالنے اور انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افراد تک پہنچا جائے گا۔

پابندیوں سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ان پر یورپی یونین میں سفری پابندی ہوگی اور اثاثے بھی منجمد ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف تھے اور بین الاقوامی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے، بیلاروس کے حکام کی جانب سے پیش کیے گئے انتخابی نتائج کو ہم نہیں مانتے ہیں’۔

Share This Article
Leave a Comment