قابض ریاست کے بلوچ سیاست پر منفی اثرات تحریر, سمیر جیئند بلوچ –

0
286

قابض ریاست کی فطرت کے آثار جس طرح ہم اپنے بلوچ عوام پر دیکھ رہے ہیں۔یقیناََ جو مفتوحہ علاقے یا اقوام گذرے ہونگے یا ہیں۔ ان پر بھی انکے لازمی طورپراثرات ہونگے۔ پاکستان جب ہندوستان سے انگریز کے اشارہ پر مسلم، ہندوکا، کشت خون کرنے بعد الگ ہوا تو اس نے اپنے آقاء انگریز کے تمام منفی ظالمانہ سوچ کو اپناکر اسی ڈھنگ سے اپنے کالونیوں پر جبر شروع کردی جو کسی سے مخفی نہیں۔ یا ہم مذاہب کی جانب چند لمحے کیلئے نظر دوڑاتے ہیں تو وہ بھی ٹھیک اسی طرح رویہ اپناتے چلے آرہے ہوتے تھے۔ جس طرح فاتح مذہب نے ان پر ظلم ڈھائے تھے،اگر مسلمانوں نے ہندو کرسچن پر ظلم کرکے انھیں مسلمان بنایا تو وہ مسلمان بننے بعد انکے ظالمانہ رویہ اپنائے۔فرض کرلیں عرب آئے تلوار کے نوک پر پنجابی کو مسلمان بنایا تو وہ ان کے تمام منفی اور استحصالی رویہ اپنا کر دوسروں پر لاگو کرنے شروع کردیئے۔ غرض اگر سکھ آئے وہ انکے رنگ میں رنگ گئے۔ہندو آئے وہ ہندو بن گئے، کرسچن آئے وہ کرسچن بن کر انکے منفی خصلت اپنانے میں کوئی عار محسوس نہ کی۔ پاکستان پنجابی اور اس کے فوج نے جب بلوچستان پر قبضہ کرکے انکی استحصال شروع کی، تو بلوچ نے بھی کسی نہ کسی رنگ میں انکے ظالمانہ سوچ کو اپنا تاچلا آرہا دکھائی دے رہاہے۔ماناکہ بلوچ قوم تاریخی حوالے سے کسی کے سامنے نہیں جھکے۔ مگر انفرادی شکل میں وہ کسی نہ کسی اینگل پر جھکتے دکھائی دے رہے ہیں۔چاہئے وہ بگھی کھینچنے کا زمانہ ہو یا آج کا انقلابی دور ایک مخصوص طبقہ اپنی ذاتی لالچ،یا خوف ابن الوقتی،یا ہیرو ازم،کسی نہ کسی حوالے سے وہ قابض ریاست کے نقش قدم پر دانستہ نادانتہ چلنے پر مجبور ہیں۔ہم آسان زبان میں اس گتھی کوسمجھنے کیلئے اس طبقہ کو چار خانوں میں تقسیم کرکے انکے کردار کو بلوچ قوم کے کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے

ہیں تو کوئی زیرو،کوئی منفی(یعنی نقصان)،کوئی ایک فیصد فائدہ تو ۹۹ نوے فیصد نقصان تو کوئی سو فیصد بلوچ قوم کو فائدہ دے رہاہوتاہے مگر پنجابی کے نقشقدم چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔یہاں فائدہ نقصان کے پیمانے پر ہم انھیں درجہ بندی میں بانٹیں تو راقم کا ذاتی رائے ہے۔مذہبی لوگ یہاں مراد علما ء سے ہے وہ بلوچ مقصد قوم بجائے سوفیصد وہ عمل کر رہے ہوتے ہیں (آزادی کی ہمایت کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں)جو منافعہ براہ راست قابض ریاست پاکستان کو پہنچ رہا ہوتاہے۔دوسراطبقہ وہ ہے جو براہ راست دشمن کو اپناکاندھا پیش کرکے بلوچ قوم کی آنکھیں نوچ رہے ہوتے ہیں۔ جنھیں ہم اور آپ قومی غدار ڈیتھ اسکوائڈ کے نام سے جانتے ہیں۔تیسرا طبقہ وہ ہے جو بلوچ قوم کو چند مراعات پیش کرکے نالی روڈ سوریج کے نام پر دھوکہ دیکر جز وقتی دشمن ریاست کے تعبداری پر مجبور کر رہا ہوتاہے۔ یعنی ایک فیصد قوم تو ننانوے فیصد ذاتی مراعات حاصل کرکے قوم کے قسمت کا فیصلہ دشمن کے ہاتھ دے رکھا ہوتاہے۔اور وہ بھی دشمن کے ہاں میں ہاں ملاکر اپنے ذاتی مفادات چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے۔چوتھا طبقہ سوفیصد ہی دشمن سے نالاں ہے وہ مکمل آزادی چاہتاہے اس کیلئے سرپر کفن بھی باندھ رکھا ہے مگر دوسری طرف اپنے ڈیڑھ انچ کے مسجد سے بھی نکلنے کو تیار نہیں ہے۔ اور نہ کسی سرفیس تنظیم کے زیر سایہ کام کرنے کو تیار۔مانا کہ وہ قابض ریاست کے ہر عمل سے نالاں ہے مگر اس کے باوجود جو قابض ریاست کے لچھن نانادانستہ سہی اپنا رکھا ہوا ہے۔اس بات کی دلیل اس طرح دیاجاسکتاہے کہ قابض ریاست جسے پاکستان کے نام سے جانا جاتاہے اس میں دوطبقے ریاست کے نمائندگی کا دعوی کرتے ہیں ایک سیاسی دوسرا فوج۔شروع میں کہاتھا کہاتھاکہ جو ریاست یہاں قابض تھے وہ چلے گئے تو انھوں نے پاکستان کیلئے اپنے منفی کردار کا عمل چھوڑ کر چلے گئے۔یعنی سول اور سیاسی لوگ فوج کے مقابل کم تر ٹھرگئے۔ہم غلام رہ کر ہی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں جس سیاسی جماعت پر فوج کا شفقت رہاہے وہی پاکستان کے عوام پر حکمرانی کیلئے مقدس گائے ٹھرا ہے۔ بلا شبہ وہ قیادت،شریف،نیازی،چوہدری،یا بھٹوکا رہاہو مگر راتوں ہی رات گدھے سے گھوڑے بن گئے ہیں۔مگر پھر بھی اصل حکمران یہاں بالادست طبقہ فوج ہی رہا ہے۔یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے مقابل یہاں گننگا الٹا بہنا شروع کیا ہے۔بدقسمتی سے یہی روایت اس نے اپنے مفتوحہ بلوچ قوم کے اس سیاسی طبقہ کو بھی دینے میں کامیاب رہا جو مکمل آزادی کا نہ صرف نعرہ لگا رہا ہے بلکہ عملی جدوجہد کلا حصہ ہے۔ انکے جہد پر کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ انیس بیس سیاست کے میدان میں ہوتا رہتاہے۔مگر یہاں وہ درد اور غم کھایا جارہاہے کہ ہمارے انقلابی سرمچا ر قیادت میں بھی وہی فوجی مائنڈ سیٹ جو دشمن قابض ریاست سے ان پر لاگوکرنے کی کوشش کی جارہی تھی وہ شعوری یا لاشعوری منتقل ہوچکا ہے۔ یا شوگر کی طرح انتہائی آخری درجہ پر پہنچ چکا ہے۔ جیسے کسی مریض کو ڈاکٹر یہ کہتاہے کہ شوگر تو نہیں لیکن حد شوگر والا ہے۔ اور اس اسٹیج پر ہو کسی بھی وقت باقاعدہ شوگر کے مریض ثابت ہوجاؤگے۔ٹھیک اسی طرح ہمارے لیڈر شپ بھی اس اسٹیج سے گذر رہاہے۔ اگر خدانہ خواستہ وہ اپنے سرفیس سیاسی جماعتوں پر فوجی جماعت کو ترجیح دی تو ان میں اور پاکستانی سیاست میں فرق نہیں رہے گا۔آج جو حال پاکستان کے سولین کا ہے وہی حشر بلوچ سیاسی جماعتوں کا بھی ہوگا۔اگر ہم پنجاب کی غلامی میں مسلسل 74 سال سے نہ ہوتے تو ہماری سوچ مختلف ہوتا ہم زیر زمین تنظیم کے بجائے اپنے آپ کو سرفیس جماعت کے لیڈر ظاہر کرنے سے نہیں ہچ کچاتے۔اور زیر زمین تنظیم کو سرفیس پر فوقیت نہ دیتے۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قابض ریاست کے سیاست کے اثرات ہم پر بلواسطہ بلاواسطہ موجود ہیں،جتنی جلدی ہم
ان سے نجات پائیں گے۔ ہم پاکستانی فوجی مائنڈ سیٹ کی بھنور سے اتنی جلدی چھٹکارا پا سکیں گے۔ہمیں سرفیس جماعتوں کو مضبوط کرکے مسلح تنظیموں کو ان کے زیر کنٹرول لانا ہوگا۔ اور ان لیڈروں کے سوچ کو بھی بدلنا ہوگا کہ آپ زیر زمین پارٹی کا بھلے سربراہ ٹھریں کوئی اعتراض نہیں۔مگر اس سربراہی کو مخفی اور سرفیس جماعت کے سربراہی کو منظر عام پر لانا لازم ہوگا۔ کیا وجہ ہے بلوچ کو راجی آجوئی سنگر کی شکل میں متحدہ زیرزمین مسلح جماعت مل سکتاہے۔تو ایک مضبوط سرفیس جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کی شکل میں کیوں نہیں؟ جس کے چھتری تلے سب آزادی پسند متفق ہوں۔اور اس روایت کو بھی توڑنا ہوگا کہ سرفیس جماعت میں نام سیغہ راز میں رکھنے کی روایت عام ہو اور زیر زمین میں عیاں اور ظاہر افشاں۔یہی سوچ اصل میں قابض ریاست کی مائنڈسیٹ کی عکاسی ہے اس جابرانہ سوچ سے چھٹکارا بلوچ کی نجات کا آسان وسیلہ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here