سوڈان کے اعلیٰ ترین جنرل نے امریکی قیادت میں ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کو ’’اب تک کی بدترین‘‘ تجویز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، جو 30 ماہ سے جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
فوج کی جانب سے اتوار کی شب جاری کردہ ویڈیو پیغام میں جنرل عبدالفتاح البرہان نے کہا کہ یہ تجویز ناقابلِ قبول ہے اور ثالث ’’متعصب‘‘ ہیں۔
سوڈان اپریل 2023 سے اس وقت شدید انتشار کا شکار ہوا، جب فوج اور طاقتور نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان طاقت کی کشمکش کھلے عام جھڑپوں میں بدل گئی، جس نے دارالحکومت خرطوم سمیت ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ تباہ کن جنگ40 ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا سبب بنی ہے، تاہم امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ جنگ نے دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران پیدا کر دیا ہے، جس میں ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے، بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا اور ملک کے کئی حصے قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
‘کواڈ‘ کے نام سے معروف یہ ثالث گروپ گزشتہ دو برس سے لڑائی روکنے اور سوڈان کو دوبارہ جمہوری منتقلی کے راستے پر لانے کی کوشش کر رہا ہے، جو 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اس میں امریکا، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
اس ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ سوڈان کی جنگ ختم کرنے کے لیے زیادہ توجہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران انہیں اس معاملے پر کردار ادا کرنے پر زور دیا تھا۔
افریقی امور کے لیے امریکی مشیر مسعد بولوس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ تازہ ترین تجویز میں تین ماہ کی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور اس کے بعد نو ماہ کے سیاسی عمل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دارفور کےشہر الفاشر میں نیم فوجی دستوں کی مبینہ ہلاکتوں پر عالمی غم و غصے کے بعد آر ایس ایف نے اس جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
تاہم جنرل عبدالفتاح برہان نے اس تجویز کو ’’اب تک کی بدترین دستاویز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ’’افواج کو ختم، سکیورٹی اداروں کو تحلیل اور ملیشیا کو وہیں برقرار رکھا گیا ہے۔‘‘ ان کا اشارہ آر ایس ایف کی طرف تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر ثالثی اسی سمت میں چلتی رہی تو ہم اسے جانبدار ثالثی تصور کریں گے۔‘‘