افغانستان نے پاکستان سے تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے کی کوششیں شروع کردیں۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر تجارت الحاج نورالدین عزیزی بھارت پہنچ گئے جہاں وہ بھارتی وزیر تجارت اور بھارتی وزیر خزانہ سے ملاقات کریں گے۔
افغان وزارت تجارت کے مطابق نورالدین عزیزی بھارتی تاجروں اور سرمایہ کاروں سے بھی ملاقات کریں گے، ملاقاتوں کا مقصد افغان بھارت معاشی تعاون میں توسیع، تجارتی تعلقات آسان کرنا اور افغان بھارت مشترکہ سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
افغان وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ مقصد علاقائی تجارت میں افغانستان کا کردارمضبوط کرنا ہے۔
دوسری جانب بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے افغان وزیر تجارت سے ملاقات کی تصویر شیئر کی اور کہا کہ دورے کا بنیادی مقصد دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو فروغ دینا ہے۔
خیال رہے کہ بھارت نے گزشتہ ماہ کابل میں اپنا سفارت خانہ کھولا ہے، 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بھارت نے اپنا سفارتخانہ بند کردیا تھا۔
افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں مال بردار گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کے باعث 12 اکتوبر سے پھنسی ہوئی ہے۔ کشیدگی اور سرحد کی بندش کے باوجود افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک میں جو خالی پاکستانی گاڑیاں پھنس گئی تھیں ان کو آنے کے لیے بارڈر کو خصوصی طور پر کھول دیا گیا تھا۔ جبکہ پاکستان سے واپس جانے والے افغان مہاجرین کے لیے بھی سرحد کھلی ہوئی ہے۔
تاہم ان مال بردار گاڑیوں کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ڈرائیور ملت خان نے بتایا کہ انھیں یہاں پھنسے ہوئے 35 دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ ان کی گاڑیوں میں سے کسی میں گھی ہے، کسی میں چینی اور کسی میں پرچون کا سامان۔ لیکن سرحد کی بندش کی وجہ سے وہ یہ مال افغانستان نہیں لے جاسکتے۔
بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں پھنسے کنٹینروں اور دیگر مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ان مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ پیسے ختم ہونے کے باعث وہ کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے قابل نہیں۔
بڑی تعداد میں پھنسی گاڑیوں میں پاکستانی سامان ہے جو کہ پاکستان کے مختلف شہروں سے افغانستان کے لیے بُک ہوا تھا۔
ڈرائیوروں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ انھیں اس مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے کوئی راستہ نکالیں۔
بلوچستان میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ سرحد کا معاملہ وفاقی حکومت کا ہے اس لیے ڈرائیوروں کے مسئلے کا حل وفاقی حکومت ہی نکال سکتی ہے۔