اقوام متحدہ نے کہا کہ 2022 میں طالبان حکومت کی طرف سے عائد کردہ پابندی کے بعد افغانستان میں افیون کی کاشت میں نمایاں کمی آئی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم نے ایک سروے میں کہا کہ گذشتہ سال سے افیون پوست کی کاشت کے لیے زمین کے کل رقبے میں 20 فیصد کمی آئی ہے، جبکہ اسی عرصے کے دوران افیون کی مقدار میں 32 فیصد کمی آئی ہے۔
افغانستان دنیا کی افیون کا 80 فیصد سے زیادہ پیداوار والا ملک ہے۔ افغان افیون سے بنی ہیروئن یورپ کی مارکیٹ کا 95 فیصد بنتی ہے۔
لیکن دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے یہ کہتے ہوئے کہ افیون نقصان دہ ہے اور یہ ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہے اپریل 2022 میں اس کی کاشت پر پابندی عائد کر دی۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ زیادہ تر کسانوں نے ’شدید اقتصادی چیلنجوں‘ کے باوجود پابندی کی پابندی جاری رکھی۔
یو این او ڈی سی کے مطابق بہت سے افغان کسان اناج کی کٹائی کر رہے ہیں مگر پوست، جس سے افیون، منشیات ہیروئن کے لیے اہم جزو نکالا جا سکتا ہے۔۔ دوسری فصلوں کے مقابلے میں ’بہت زیادہ منافع بخش‘ ہے۔
یو این او ڈی سی منافع بخش متبادل فصلوں کی کمی، محدود زرعی پیداوار اور سنگین ماحولیاتی حالات کی وجہ سے 40 فیصد سے زیادہ زمین بنجر پڑی ہوئی ہے۔
اس سال افیون پوست کے زیر کاشت کل رقبہ کا تخمینہ 10,200 ہیکٹر لگایا گیا تھا، زیادہ تر ملک کے شمال مشرق میں یہ ہو رہا ہے اور صوبہ بدخشاں اس میں آگے آگے ہے۔
سنہ 2022 کی پابندی سے پہلے افغانستان میں 200,000 ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر پوست کی کاشت ہو رہی تھی۔ سنہ 2024 میں افیون پوست کی کاشت والے چار صوبوں بلخ، فراہ، لغمان اور اروزگان کو 2025 میں افیون پوست سے پاک قرار دیا گیا۔
سروے میں کہا گیا کہ ’روایتی جگہوں سے کاشت کا قریب قریب خاتمہ افیون پوست کی کاشت پر پابندی کے پیمانے اور پائیداری کو ظاہر کرتا ہے۔‘
یو این او ڈی سی کے مطابق افیون کے کھیتوں کو تباہ کرنے کی طالبان کی کوششوں نے کبھی کبھار کسانوں کی طرف سے پرتشدد مزاحمت کو جنم دیا، خاص طور پر بدخشاں کے کئی اضلاع میں جھڑپوں کے دوران ہلاکتوں کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔
لیکن افغان کسانوں کی اکثریت طالبان کے سپریم لیڈر کی طرف سے جاری کردہ پابندی پر عمل پیرا ہے۔ تاہم، کسانوں کا کہنا ہے کہ انھیں متبادل فصلیں اگانے میں زیادہ مدد نہیں فراہم کی جا رہی ہے۔
نتیجتاً، انھیں غربت یا سزا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
صوبہ ہلمند کے ایک نامعلوم کسان نے اس موسم گرما میں بی بی سی پشتو کو بتایا کہ ’اگر ہم پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں، تو ہمیں جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر پیسے نہیں ہیں تو پھر میں پوست کاشت کروں گا۔‘
ہلمند میں پوست کے کھیت اب نظر نہیں آتے لیکن وہ اب بھی موجود ہیں۔ ایک اور کسان نے دور دراز گاؤں میں اپنے گھر کے سامنے اپنے چھوٹے سے دیواروں والے پوست کے کھیت کے ارد گرد کا منظر دکھایا۔
وہ جیل کا خطرہ مول لے رہے ہیں، لیکن انھوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔
انھوں نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ ’میں کیا کروں؟ میں یہ کرنے پر مجبور ہوں،میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ میں اپنے گھر والوں کو کھانا بھی نہیں دے سکتا۔‘
یو این او ڈی سی کی رائے میں افیون کی کاشت میں میں کمی آ رہی ہے اور اس کی کاشب پر پابندی کے بعد سے مصنوعی ادویات جیسے میتھمفیٹامین کی سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔
سنہ 2024 کے آخر میں افغانستان اور اس کے آس پاس اس طرح کی منشیات کی ضبطی گذشتہ برس کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھی۔ یو این او ڈی سی نے کہا کہ منظم جرائم کے گروہ مصنوعی ادویات کی حمایت کرتے ہیں جو پیدا کرنے میں آسان اور موسمیاتی سختیوں کے لیے کم خطرناک ہیں۔