شوکت بلیدی : بلوچ قومی تحریک کے ایک بلند پایہ رہنما، صحافی اور ادیب | اقبال بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے چند رہنما ہی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی فکری بصیرت، سیاسی جدوجہد، اور قلم کی طاقت کے ذریعے قوم کے شعور کو نئی جہت بخشی۔ شوکت بلیدی انہی نایاب شخصیات میں سے ایک تھے، جنہوں نے نہ صرف سیاست کے میدان میں خود کو منوایا بلکہ صحافت، ادب اور فکری تحریک کے ذریعے بلوچ قومی جدوجہد کو فکری بنیاد اور عالمی شناخت عطا کی۔ ان کی زندگی جہدِ مسلسل، عزمِ استقلال اور قوم دوستی کی ایک روشن مثال تھی۔

بلوچ قومی تحریک کی تاریخ کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس تحریک نے اپنی جڑیں اس وقت مضبوط کیں جب غلام محمد بلوچ، لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ جیسے رہنما 2009 میں ریاستی جبر کا نشانہ بنے۔ ان کی شہادت نے بلوچ سماج میں ایک نئی سیاسی بیداری کو جنم دیا، اور اسی پس منظر میں شوکت بلیدی جیسے باشعور نوجوانوں نے تحریک میں عملی کردار ادا کیا۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے آزادی کی جدوجہد کو فکری اور تنظیمی بنیادوں پر استوار کیا، اور جس نے بندوق کے ساتھ قلم کی طاقت کو بھی قومی مزاحمت کا ایک مؤثر ہتھیار بنایا۔

شوکت بلیدی بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کمیٹی کے ایک فعال رکن تھے۔ وہ اپنے عزم، شفاف سوچ اور اصولی سیاست کے لیے جانے جاتے تھے۔ ان کی قیادت میں تنظیمی فعالیت نے ایک نیا رخ اختیار کیا، جس میں فکری وضاحت، سیاسی نظم اور عوامی شمولیت نمایاں تھی۔ وہ نہ صرف پارٹی کے اندر نظم و ضبط اور فکری اتحاد کے علمبردار تھے بلکہ بلوچ قوم کے اجتماعی شعور کو منظم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ ان کی سیاسی زندگی کا ہر لمحہ بلوچ وطن کی آزادی اور خودمختاری کے لیے وقف تھا۔

شوکت بلیدی نے اپنے سیاسی سفر کے ساتھ ساتھ قلم کو بھی اپنا ہتھیار بنایا۔ وہ پیشہ ورانہ اعتبار سے ایک دردمند، باشعور اور اصول پسند صحافی تھے۔ انہوں نے سِنگر پبلی کیشنز کی بنیاد رکھی، جو بعد ازاں سِنگر نیوز پیپر کی صورت میں بلوچ صحافت کا معتبر ادارہ بن گیا۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے انہوں نے بلوچ قومی مسائل، انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کی حقیقتوں کو دنیا کے سامنے بے خوفی سے اجاگر کیا۔ ان کی تحریروں میں نہ اشتعال تھا نہ جذباتی شور، بلکہ ایک متوازن، تجزیاتی اور تحقیقی انداز تھا، جو ان کے گہرے مطالعے اور فکری گہرائی کی عکاسی کرتا تھا۔

شوکت بلیدی محض ایک صحافی نہیں تھے، وہ ایک ادیب، محقق اور فکری رہنما بھی تھے۔ انہوں نے بلوچستان کی تاریخ، ثقافت، سیاست اور سماجی ڈھانچے پر کئی اہم تحریریں لکھیں۔ ان کی تصانیف میں بلوچ قوم کی تاریخی جدوجہد، سامراجی قوتوں کی پالیسیاں، اور ریاستی جبر کے خلاف فکری مزاحمت جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔ ان کی تحریروں نے بلوچ نوجوانوں میں شعور اور آگاہی پیدا کی۔ وہ اس نسل کے نمائندہ تھے جس نے اپنی فکری بصیرت سے قوم کو خوابِ غفلت سے جگایا اور آزادی کے تصور کو محض نعرہ نہیں بلکہ علمی و فکری تحریک میں تبدیل کر دیا۔

شوکت بلیدی کا قومی جذبہ محض تحریر یا تقریر تک محدود نہیں تھا۔ وہ میدانِ عمل کے آدمی تھے۔ ان کا یقین تھا کہ آزادی کی جدوجہد محض سیاسی نعرے بازی سے نہیں بلکہ فکری استقامت، تنظیمی اتحاد، اور عوامی شعور سے کامیاب ہوسکتی ہے۔ وہ بلوچ تحریک کے ہر مرحلے میں صفِ اوّل میں موجود رہے، چاہے وہ سیاسی اجلاس ہوں، عوامی مہمات، یا میڈیا کے محاذ پر نظریاتی دفاع۔ وہ ان چند شخصیات میں سے تھے جنہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، حتیٰ کہ مشکل ترین حالات میں بھی ان کا ضمیر اور موقف غیر متزلزل رہا۔

شوکت بلیدی کی وفات بلوچ قوم کے لیے ایک گہرا صدمہ اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ وہ نہ صرف ایک رہنما تھے بلکہ ایک نظریہ، ایک روشنی، ایک سمت تھے۔ ایسے رہنما صدیوں میں جنم لیتے ہیں، جو اپنی قوم کے لیے فکری بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ ان کی جدوجہد، قربانی اور کردار بلوچ تحریک کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا۔

آج جب بلوچ قوم اپنی آزادی اور شناخت کے لیے سخت جدوجہد کے مرحلے سے گزر رہی ہے، تو شوکت بلیدی جیسے سچّے، بہادر اور اصول پسند رہنما کی یاد اور ان کی فکری میراث ہی وہ اثاثہ ہے جو اس تحریک کو استقامت اور سمت فراہم کرتا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم، شعور اور قربانی ہی وہ طاقت ہیں جو کسی بھی قوم کو غلامی سے نجات دلا سکتی ہیں۔

شوکت بلیدی کی شخصیت کا یہ پہلو ہمیشہ زندہ رہے گا کہ وہ اپنے وقت کے محض ناظر نہیں بلکہ عہد ساز انسان تھے، جنہوں نے قلم، عمل اور نظریے کے امتزاج سے ایک ایسی فکری تحریک کی بنیاد رکھی جو بلوچ قوم کی آزادی کے سفر میں ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔

***

Share This Article