بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی )کے رہنما سمی دین بلوچ نے گزشتہ روز خضدار کے علاقے زہری میں پاکستانی فوج کے ڈرون حملے میں شہید کیے گئے خواتین مردوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تصویر کسی کشمیر یا فلسطین میں ہونے والے جبر اور عام شہریوں پر بمباری کی نہیں بلکہ بلوچستان کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ڈرون حملے کا نتیجہ ہے جو کل بلوچستان کے شہر خضدار، زہری میں ہوا۔ اس حملے میں ایک ہی خاندان کے 4 افراد، جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں، جنہیں خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔
انہوں نے لکھا کہ اس تصویر میں ایک بلوچ عورت کا بدن ہے، جس کا سر بمباری سے چکناچور کر دیا گیا۔ یہ صرف ایک تصویر نہیں بلکہ بلوچستان میں دہائیوں سے جاری ریاستی بربریت کا وہ لرزہ خیز چہرہ ہے، جہاں عام شہریوں پر بارود برسایا جاتا ہے اور اس کی ہولناکی سے انسانیت بھی کانپ اٹھتی ہے۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی اور جنگ کا شکار ہیں تو ہم سے سوال کیا جاتا ہے: کہاں ہو رہی ہے نسل کشی؟ کون سی جنگ؟ مگر کیا یہ خون میں نہلائی لاشیں، یہ کٹے ہوئے جسم، یہ بارود سے برباد بستیاں اور یہ اجڑے گھر نسل کشی کا ناقابلِ انکار ثبوت نہیں؟
انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ وہی دنیا اور وہی انسانی حقوق کے ادارے، جو دن رات انسانی حقوق کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اور خود کو “انسانی حقوق کے چیمپئن” کہلوانے پر فخر کرتے ہیں، انہوں نے اپنی آنکھیں پاکستانی جارحیت اور وحشت کے سامنے بند کر رکھی ہیں۔
سمی بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ پر جاری یہ بربریت اور نسل کشی پوری انسانیت کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے، مگر نہ بلوچ کے خلاف جنگ کو آج تک تسلیم کیا گیا اور نہ ہی اس نسل کشی کے خلاف دنیا کی زبان کھلی۔یہ خاموشی، یہ اندھی اور بہری بے حسی کوئی غیرجانبداری نہیں بلکہ جرم میں شراکت ہے۔ بلوچ کے خلاف نسل کشی پر خاموشی پر ہم بین الاقوامی اداروں اور عالمی برادری کو اس جرم اور اس نسل کشی کی براہِ راست شریکِ جرم سمجھتے ہیں۔