نیپال: کرفیوکے باوجود وزرا و رہنمائوں کے گھرو آفس نذر آتش، وزیر اعظم و وزرا سمیت 20 ارکان پارلیمنٹ مستعفی

ایڈمن
ایڈمن
10 Min Read

نیپال بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران کم از کم 21 افرادسے زائد کی ہلاکت اور حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد پابندی ختم کرنے کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کھٹمنڈو وادی کے تین سمیت مختلف اضلاع میں مظاہرین کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

وزیراعظم کے پی شرما اولی سمیت چندوزرا نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔

کچھ جگہوں پر مظاہرین کی طرف سے رہنماؤں اور سرکاری دفاتر پر حملے، توڑ پھوڑ اور آگ لگا دی گئی ہے۔

ادھرآر ایس پی کے 20 ارکان پارلیمنٹ نے اجتماعی استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔

مظاہرین نے نیشنل انڈیپینڈنٹ پارٹی کے صدر روی لامیچھانے کو نکھو کی جیل سے باہر نکال لیا ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رہنما اور لامچھانے کے معاون دیپک بوہارا نے کہا ہے کہ رابی لامیچھانے اب محفوظ ہیں۔

RSVP کے کچھ کارکنوں نے فیس بک پر لائیو ویڈیو نشر کیا جب لامیچھانے کو مظاہرین گھسیٹ کر باہر لے جا رہے تھے۔

ایک ویڈیو میں، لامیچھانے پولیس کے گھیرے میں کھڑے ہیں اور انہیں سلام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

دارالحکومت کھٹمنڈو میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر ہیں جنھوں نے نیپال کے سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کے گھر کو نذر آتش کرنے سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کے گھروں پر حملے کیے ہیں۔

مظاہرین نے بعض مقامات پر رہنماؤں اور سرکاری دفاتر پر حملہ کیا، توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔

اس صورتحال کے بیچ نیپالی کانگریس اور جے ایس پی کے تین وزرا ، وزیر داخلہ رمیش لیکھاک، وزیر صحت پردیپ پوڈل اور وزیر زراعت رام ناتھ ادھیکاری نے اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے تاہم نوجوان مظاہرین ملک کے وزیر اعظم کے پی اولی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

آر ایس پی کے کچھ لیڈروں نے ایم پی کے عہدوں سے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔

نیپال کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا ہے کہ کھٹمنڈو وادی کے اندر خراب حالات اور تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد اور پرواز اور لینڈنگ کے راستوں پر دھوئیں کے دیکھے جانے کی وجہ سے ہوائی اڈے کو بند کر دیا گیا ہے، جس سے ہوائی جہاز کی حفاظت بری طرح متاثر ہوگی۔

اتھارٹی نے کہا ہے کہ فیصلے پر فوری عمل درآمد کیا جائے گا۔

اندرون ملک پروازیں پہلے ہی ان خدشات کی وجہ سے معطل کر دی گئی تھیں کہ دارالحکومت سے باہر کے ہوائی اڈے سکیورٹی فراہم کرنے کے قابل نہیں تھے۔

رپورٹس کے مطابق وزیر اطلاعات پریتھوی سبھا نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ سوموار کو رات گئے کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا تاکہ ’جنریشن زی کے مطالبات کو حل کیا جائے۔‘

یاد رہے کہ سوموار کے روز ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی اور حکومت سے فیس بک، ایکس، یوٹیوب سمیت 26 میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ختم کرنے اور ملک میں جاری کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ دارالحکومت کھٹمنڈو کے علاوہ یہ مظاہرے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوئے، جن کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی۔

ان مظاہروں میں پولیس کے ساتھ تصادم میں کم از کم 21 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ان ہلاکتوں کی ’آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف گولہ بارود کا استعمال کیا گیا جبکہ ڈاکٹروں نے بی بی سی نیپالی سروس کو بتایا کہ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔

واضح رہے کہ سوموار کے روز جب مظاہرین نے پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں روکنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا تھا۔

جمعرات کے روز نیپال کی حکومت نے مبینہ طور پر حکومتی ضوابط کی خلاف ورزی پر ملک بھر میں 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا تھا۔

حکام نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو نیپال کی وزارت برائے کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ رجسٹر کرنے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

جن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی گئی، ان میں واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب شامل ہیں تاہم چند دیگر ایپس جیسے ٹک ٹاک اور وائبر ملک میں ابھی بھی کام کر رہے تھے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ فیک نیوز، نفرت انگیز مواد اور آن لائن فراڈ کی روک تھام کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی سے حکومت کو ریاست مخالف آن لائن مواد کنٹرول کرنے اور ہٹانے کے اختیارات مل جائیں گے۔

نیپال میں تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ افراد ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہیں جبکہ ان پر پابندی کی وجہ سے ملک میں متعدد ایسے کاروبار متاثر ہوئے جو ان سروسز پر انحصار کرتے ہیں۔

اگرچہ ان مظاہروں کی وجہ سوشل میڈیا پر پابندی بنی تاہم نوجوان طبقے میں ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے بارے میں بھی بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے۔

نیپال میں اس سے قبل ایسے مظاہرے نہیں دیکھے گئے جن کا آغاز سوشل میڈیا پر پابندی کی وجہ سے ہوا اور ان کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی ہو۔

مظاہرین میں سے زیادہ تر کا تعلق ’جین زی‘ سے ہے، یعنی ایسے نوجوان جو سنہ 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئے۔

یہ اصطلاح پوری تحریک میں ایک علامت بن گئی ہے۔ اگرچہ ان مظاہروں کی کوئی مرکزی قیادت نہیں تھی تاہم نوجوانوں کے متعدد گروپس نے مظاہرین کو جمع کیا۔

نیپال کے اہم شہروں جیسے کھٹمنڈو، پوکھرا اور اتہاری کے کالجوں اور یونیورسٹیز سے طلبا کو ان مظاہروں میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں سکولوں کے بچے بھی ان مظاہروں میں نظر آئے۔ منتظمین نے بچوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے یونیفارم پہن کر اور کتابیں اٹھا کر احتجاج میں شریک ہوں۔

19 برس کی طالبہ بینو کے سی نے بی بی سی نیپالی سروس کو بتایا کہ ’ہم ملک میں کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘

’سیاست دان انتخابات میں وعدے کرتے ہیں لیکن بعد میں انھیں پورا نہیں کرتے۔ یہ بہت سے مسائل کی وجہ ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا کی بندش کی وجہ سے ان کی آن لائن کلاسز متاثر ہوئیں۔

شبھانہ بدھاتھوکی نے اپنے غصے کا اظہار کچھ ایسے کیا کہ ’جین زی اب رکنے والی نہیں۔‘

’یہ احتجاج سوشل میڈیا پر بندش سے کہیں زیادہ ہے، یہ ہماری آوازوں کو خاموش کرنے کے بارے میں ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘

کھٹمنڈو میں بہت سے مظاہرین ہاتھوں میں بینرز اٹھائے تبدیلی کے نعرے لگاتے نظر آئے۔

ان کے دو مطالبے واضح تھے: حکومت سوشل میڈیا پر سے پابندی ہٹا لے جبکہ حکام کرپشن کو ختم کریں۔

بہت سے مظاہرین نے سوشل میڈیا کی بندش کو آزادی اظہار پر پابندی اور سیات دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے جوڑا۔

ان مظاہروں میں دو ہیش ٹیگ خاصے مقبول رہے: ’نیپو بیبی‘ اور ’نیپو کڈز۔‘

’نیپو‘ دراصل اقربا پروری کے لیے استعمال ہونے والی مختصر اصطلاح ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کیسے اشرافیہ صرف اپنے خاندان کے فائدے کو دیکھتے ہیں۔

یہ اصلاحات گذشتہ چند ہفتوں سے نیپال کے سوشل میڈیا پر خاصی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں اور ایسی بہت سی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جن میں سیاست دانوں کے شاہانہ طرز زندگی کو دیکھایا گیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ سیاست دان عوام کے پیسے پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ عام لوگ جدوجہد کرتے ہیں۔

ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر وائرل ویڈیوز میں سیاسی خاندانوں کے شاہانہ طرز زندگی کا موازنہ عام لوگوں کی زندگی کے ساتھ کیا گیا۔ ان ویڈیوز کے مطابق اشرافیہ ڈیزائنر کپڑے، غیر ملکی دوروں اور لگژری گاڑیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ ملک کے نوجوانوں طبقے کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان مظاہروں کے نعرے عدم مساوات کے ساتھ ساتھ گہری مایوسی کی علامت بھی بن گئے۔

Share This Article