پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بلوچ جبری گمشدگیوں خلاف اور بی وائی سی رہنمائوں کی رہائی کیلئے جاری دھرنے میں لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری کے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں موجود بلوچ خاندان مزاکرات نہیں چاہتے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ چوّن دنوں سے اسلام آباد میں انصاف کی تلاش میں بیٹھے ہیں — وہ انصاف جو بلوچستان سے غائب ہے۔ اسی انصاف کے لیے ہمیں سینکڑوں میل دور اپنے گھروں سے آنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ آج کی اس پریس کانفرنس کا مقصد آپ کو بلوچستان کی مجموعی صورتِ حال سے آگاہ کرنا ہے، ایک ایسی صورتِ حال جہاں ریاست کا ہر ادارہ ظالم دکھائی دیتا ہے اور جواب دہی سے بالکل مبرا ہے۔
لواحقین نے کہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کو دن دہاڑے عوام پر ظلم کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ ان اداروں کی نہ تو کوئی مؤثر نگرانی ہے اور نہ ہی ان کے احتساب کا کوئی نظام۔ عدالتیں، جو انصاف کی آخری امید ہوتی ہیں، خود کو ان اداروں کے سامنے بے بس پاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ رہی ہیں، لیکن ان کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ اس کے برعکس، آئے دن درجنوں نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ صرف سال 2025 کے پہلے آٹھ ماہ میں ایک ہزار سے زائد جبری گمشدگیوں کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی، جو ان گمشدگیوں کے خلاف ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ پُرامن تحریک چلا رہی ہے، آج خود ریاستی جبر کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے رہنماؤں کو نہ صرف قید کیا گیا ہے بلکہ بعض کو خود جبری گمشدگی کا سامنا ہے۔
مارچ میں جعفر ایکسپریس کے واقعے کو بہانہ بنا کر ایک منظم کارروائی کے ذریعے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ آج تک عدالتیں ان پر کوئی جرم ثابت نہیں کر سکیں، اور نہ ہی انہیں انصاف دیا گیا۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ ان رہنماؤں کو جیل میں رکھا جائےپہلے تین ماہ “تھری ایم پی او” جیسے کالے قانون کا سہارا لیا گیا، اور اب ہر پیشی پر بغیر کوئی رپورٹ پیش کیے، سی ٹی ڈی محض ریمانڈ کی درخواست دیتی ہے، اور عدالتیں بنا کوئی سوال کیے ریمانڈ دے دیتی ہیں۔
ہمارے وکلا بارہا پوچھ چکے ہیں کہ گزشتہ ریمانڈز کی رپورٹس کہاں ہیں، لیکن عدالتیں سی ٹی ڈی سے جواب طلب کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے دو سالوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں پر پرامن احتجاجات اور ویڈیو بیانات کی بنیاد پر درجنوں ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں، جن میں کئی جھوٹی اور من گھڑت ہیں۔ ان میں سے کئی کیسز میں متعلقہ رہنما موقع پر موجود بھی نہیں تھے۔ ان کیسز میں اب تک صرف تین مقدمات میں عدالت نے جوڈیشل کارروائی مکمل کی ہے، جبکہ تیس سے زائد کیسز ابھی باقی ہیں۔
گزشتہ پیشی میں عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ مزید ریمانڈ نہیں دیا جائے گا۔ مگر کل، چھٹی کے روز، ربیع الاوّل کے موقع پر جب نیٹ بندش اور راستوں کی بندش کے باعث کوئی وکیل یا رشتہ دار پیش نہ ہو سکا، تو پھر پانچ دن کا ریمانڈ دے دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر عدالتیں پُرامن سیاسی کارکنان کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہیں، تو وہ عام بلوچ، مثلاً ایک چرواہے، کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتی ہوں گی؟ کیا اسے انصاف کی کوئی امید ہو سکتی ہے؟
دھرنا مظاہرین نے کہا کہ ہم آج وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے اُس حالیہ بیان کا بھی ذکر کرنا چاہتے ہیں جس میں انہوں نے ایک بار پھر من گھڑت الزامات کا سہارا لے کر ہم پر زہر افشانی کی ہے۔
ہم ان الزامات کو محض سیاسی بیان بازی نہیں سمجھتے، بلکہ یہ اُس گہری نفرت کا اظہار ہے جو ریاست کی جانب سے بلوچ قوم کے ساتھ برتی جا رہی ہے وہی نفرت جو ایک آقا اپنے نافرمان غلام کے لیے رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ریاست کی عدالتیں واقعی بااختیار ہوتیں تو ہم ان الزامات کے خلاف قانونی کارروائی کرتے، ثبوت مانگتے کہ ہمارے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ہم کب، کہاں، کس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے؟ اور دوسری بات ہم اُن سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ان مطالبات کو پورا کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہیں، تو ہمیں یہ بتایا جائے کہ ہم کس کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں؟
حقیقت یہ ہے کہ وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے پاس خود کوئی اختیار نہیں۔ وہ اپنے ہی اداروں سے بازپرس کرنے سے قاصر ہیں۔ یا تو وہ بےبس ہیں، یا وہ خود بھی اس جبر کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکرات کے دروازے بند کر کے ہم پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ سچ بولیں کہ وہ خود اپنی ایجنسیوں کے سامنے بےبس ہیں۔ اور جو ہم، بلوچستان سے سینکڑوں میل دور آئے ہیں، چوّن دنوں سے پرامن دھرنے میں بیٹھے ہیں، اور آج ریاست کے الزامات کا نشانہ بن رہے ہیں یہ سب ریاست اور اس کے اداروں کے لیے ایک شرمندگی ہے۔
یہ بدنما داغ ان افراد کے ماتھے پر ہوگا جو خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتے ہیں، مگر نہ ہماری سنوائی کے لیے آتے ہیں، نہ کوئی انصاف دیتے ہیں، صرف میڈیا میں خود کو درست ثابت کرنے کے لیے بہتان تراشی کرتے ہیں۔
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہمارا پُر امن احتجاج جاری رہے گا۔ہم پُرامن طور پر اپنے زندگی، شناخت اور انصاف کے حق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔اور جتنا طویل یہ احتجاج چلے گا، اتنی ہی شرمندگی ان اداروں کے حصے میں آئے گی۔