بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی )کےرہنمائوں کی رہائی کیلئے اسلام آبادا ورکراچی میں لواحقین کےدھرنے جاری ہیں ۔
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں آج بروز جمعہ کو جبری طور پر لاپتہ اور حراست میں لیے گئے بی وائی سی رہنماؤں کے اہل خانہ کے دھرنے کا مسلسل 52 واں دن ہے۔
تقریباً دو ماہ سے، یہ خاندان جن میں بوڑھی عورتیں، مائیں اور بچے شامل ہیں، شدید گرمی، شدید بارش، ہراساں کرنے اور مسلسل نگرانی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
طویل احتجاج کے باوجود، پاکستانی حکام نیشنل پریس کلب تک رسائی کو روکتے رہتے ہیں، کیمپ کی اجازت سے انکار کرتے ہیں، اور شرکا کو ان کی جائز شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے ڈرانے دھمکاتے رہتے ہیں۔
دوسری جانب کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ اپنے 32 ویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔
اس موقع پر لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا 17 جولائی 2025 کی شام کراچی کے علاقے لیاری سے اُس وقت لاپتہ کیا گیا جب وہ رکشے پر سواری کا انتظار کر رہا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق، سادہ لباس میں ملبوس اہلکار زاہد کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر اس کے رکشے سمیت ساتھ لے گئے، جس کے بعد سے اس کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
عبدالحمید بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ زاہد نے حال ہی میں کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ سے گریجویشن مکمل کیا تھا اور روزگار کے محدود مواقع کے باوجود گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رکشہ چلاتا تھا۔ انہوں نے رنجیدہ لہجے میں بتایا:
"میرا بیٹا دن رات محنت کرتا تاکہ اپنے گھر والوں کی کفالت کر سکے، لیکن آج وہ ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس حال میں ہے، کہاں ہے اور کیوں اُسے اُٹھایا گیا ہے۔ اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہے تو اُسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی اپنی صحت بھی جگر کے عارضے کی وجہ سے خراب ہے اور بیٹے کی جبری گمشدگی نے ان کی بیماری اور دکھ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زاہد کی ماں ہر روز بیٹے کی چیزوں کو دیکھتی رہتی ہے اور دروازے کی جانب نگاہ جمائے بیٹے کی واپسی کی امید لگاتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق، کراچی کے مختلف علاقوں سے متعدد بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ ہیں۔ ان میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے سے تعلق رکھنے والے شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔ اسی طرح ملیر کے علاقے سے میر بالاچ بلوچ بھی کئی ماہ سے لاپتہ ہیں۔ لواحقین کے مطابق ان نوجوانوں کے غائب ہونے سے ان کے گھرانے شدید ذہنی کرب اور مالی مشکلات میں مبتلا ہیں۔
عبدالحمید بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ ان کے بیٹے سمیت تمام لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔
"یہ صرف میرا دکھ نہیں، بلکہ ہر اُس خاندان کا درد ہے جس کا بیٹا جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں اور ہمارے بچوں کو عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کریں۔”
احتجاجی کیمپ میں شریک دیگر لواحقین نے بھی مطالبہ کیا کہ لاپتہ نوجوانوں کو فوری طور پر منظرِ عام پر لایا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔