اسلام آباد: بی وائی سی رہنمائوں کی رہائی کے لیے دھرنے کو50 دن مکمل، کل احتجاجی ریلی کا اعلان

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے مطالبے پر اسلام آباد میں جاری احتجاجی دھرنے کو آج 50 دن مکمل ہوگئے۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے مظاہرین، جن میں بزرگ، خواتین اور بچے شامل ہیں سخت موسمی حالات، شدید بارشوں اور جھلسا دینے والی گرمی کے باوجود اپنے دھرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں اور مین اسٹریم پاکستان کی میڈیا کی مسلسل خاموشی نے مظاہرین کے زخموں کو مزید گہرا کردیا ہے۔

انہوں نے اعلان کیا ہے کہ دھرنے کے 50 دن مکمل ہونے پر کل 4 ستمبر کو اسلام آباد میں احتجاجی ریلی نکالی جائے گی، اس سلسلے میں آج دارالحکومت کے مختلف علاقوں، بشمول کچہری کے باہر موبلائزیشن اور پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔

مظاہرین نے اپنے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کو فی الفور رہا کیا جائے اور بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کرکے لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

شرکاء نے اسلام آباد میں موجود سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنان سے اپیل کی ہے کہ وہ کل احتجاجی ریلی میں شرکت کرکے لواحقین کی آواز بنیں۔

بلوچ اسیران لواحقین کی جانب سے "جبر کے خلاف متحد ہونا انسانیت ہے!
کے عنوان سے "جاری کی گئی پمفلٹ میں کہا گیا کہ ہم بلوچستان کے باسی پچھلے50 دنوں سے بلوچستان سے یہاں آکر ایک احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم اسلام آباد اس لیے نہیں آئے کہ بلوچستان کے گرم اور خشک موسم میں ہم سے دھرنے پر بیٹھا نہیں جاتا، بلکہ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں کہ بلوچستان میں آواز اٹھانے اور بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک کالونی کے طرز پر بلوچستان میں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں بلکہ اس جبر کو چھپانے کے لیے بلوچستان میں احتجاج اور اظہارِ رائے کا حق مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

پمفلٹ میں کہا گیا کہ بلوچستان اس وقت معلومات کے حوالے سے ایک بلیک ہول اس لیے بنا ہوا ہے کہ جو خبریں بلوچستان سے باہر جائیں گی وہ اس حقیقت کو ظاہر کریں گی کہ بلوچستان کو ملکی مفادات کے نام پر ایک بڑے ٹارچر سیل میں تبدیل کیا گیا ہے۔

وسائل سے مالامال بلوچستان نہ صرف غربت، ناخواندگی، ملازمت کے مواقع کی کمی، صحت کی سہولیات کے فقدان، غذائی قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب بدحال ہے، بلکہ خستہ سڑکوں پر جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر گھنٹوں انتظار اور تذلیل، آئے روز گھروں پر چھاپے، پرائیویٹ ملیشیا کی غنڈہ گردی، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں، جھوٹی ایف آئی آرز، اور قانون کو ہتھیار بنا کر فورتھ شیڈیول اور جعلی مقدمات کے ذریعے بلوچستان کو ایک اذیت ناک جیل خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

بلوچستان کو انہی حالات سے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنے والی عوامی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی، جس نے ہر ظلم کے خلاف پُرامن طریقے سے آواز بلند کی، آج اس کے رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ، عمران بلوچ، شاجی سبغت اللہ بلوچ، بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ پچھلے پانچ مہینوں سے جھوٹے الزامات کے تحت جیل میں قید ہیں۔ ان پانچ مہینوں میں عدالت ان پر کوئی جرم ثابت نہیں کر سکی ہے۔ قید کو طویل رکھنے کے لیے بار بار ریمانڈ دیا جا رہا ہے۔ ان کی فوری رہائی کے لیے ہم پچھلے 48 دنوں سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور تب تک بیٹھے رہیں گے جب تک وہ رہا نہیں ہوتے۔

بلوچستان کو بے آواز نہ ہونے دیں۔ ہماری کہانیاں سنیے اور لکھیے، کیونکہ کہیں نہ کہیں اس نظام کی ڈوریں آپ کے گھروں سے جڑی ہیں۔ ہم اس جبر کو خاموشی سے نہیں سہہ سکتے، آپ بھی خاموش نہ رہیں۔ لکھیں اور بولیں۔ جب ہم سب بولیں گے تبھی اس نظام کے اندر سے اسے درست کرنے والے لوگ آگے آئیں گے۔

آخر میں ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ 4 ستمبر کو 3:00pmبجے نیشنل پریس کلب، اسلام آباد کے سامنے ایک پُرامن احتجاج ریکارڈ کیا جائے گا۔ آپ کی موجودگی مظلوم قوم کے لیے ایک بڑی حوصلہ افزائی ہوگی۔ آئیے، ہمارا ساتھ دیجیے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اور بی وائی سی کے رہنماؤں کی رہائی کے لیے آواز اٹھائیے، کیونکہ آج ہم ہیں تو کل آپ بھی ہو سکتے ہیں۔

Share This Article