پاکستانی فورسز ہاتھوں جبری لاپتہ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد بازیاب ہوگئے

ایڈمن
ایڈمن
2 Min Read

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 5 اپریل سے جبری لاپتہ کیے گئے میرے والد آج خیریت کے ساتھ بازیاب ہو کر گھر پہنچ گئے۔ اگرچہ میں اُن سے نہیں مل سکتی، مگر یہ جاننا ہی میرے لیے کافی ہے کہ وہ سلامت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدترین جبر ہے کہ کسی ایک فرد کی جبری گمشدگی صرف اُس فرد کو نہیں، بلکہ اُس کے پورے خاندان کو اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ میں نے اس درد کو اُس وقت سے محسوس کیا ہے جب یہ ابھی میرے اپنے دروازے پر نہیں آیا تھا۔ اور یہی وہ درد تھا جس نے مجھے خاموش نہیں بیٹھنے دیا،اگر میں چپ ہو جاتی، تو یہ اذیت مجھے اندر سے کھا جاتی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی میں تھکنے لگتی، جب مسلسل آزمائشیں میرے حوصلے کو توڑنے لگتیں، تو کسی ماں کی آنکھوں میں بہتے آنسو مجھے جھنجھوڑ دیتے۔ وہی آنسو میری واپسی کا راستہ بن جاتے۔ شاید یہی زندگی ہے—دوسروں کے لیے امید بانٹنا، اور بدلے میں اندھیروں میں اپنے لیے بھی امید پا لینا۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ اس مشکل وقت میں جو بھی شخص ہمارے ساتھ کھڑا رہا، اس کی محبت، ہمدردی، اور یکجہتی کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ تمام جبری لاپتہ افراد بخیریت اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ جبر ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔ جبری گمشدگی اجتماعی سزا کی بدترین شکل ہے، اور کسی بھی خاندان کو اس اذیت کا نشانہ بنانا سراسر مجرمانہ عمل ہے۔جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد آئینی و قانونی ہے، اور اس جدوجہد کو جاری رکھنا ہم سب کا انسانی فریضہ ہے۔

Share This Article