ٹرمپ کا توہین آمیز لہجہ قبول نہیں،ایرانی جوہری تنصیبات کو سنگین نقصان پہنچا،عراقچی

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر لکھا ہے کہ ’اگر صدر ٹرمپ معاہدہ چاہتے ہیں تو انھیں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بارے میں اپنا ہتک آمیز اور ناقابلِ قبول لہجہ ترک کرنا ہو گا۔‘

عراقچی نے لکھا کہ صدر ٹرمپ کے رویے نے ’ان کے لاکھوں حقیقی پیروکاروں کے دلوں کو زخمی کر دیا ہے۔‘

گذشتہ روز وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو جواب دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل ایرانی رہنما کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے جنگ جیت لی ہے اور آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کی نقل کرتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا کہ ’ہم جیت گئے۔‘

دوسری جانب ایران پر امریکی و اسرائیلی حملوں کے حوالے سے وزیر خارجہ عراقچی اعتراف کرچکے ہیں کہ حالیہ امریکی اور اسرائیلی بمباری میں ملک کے جوہری تنصیبات کو ’بہت زیادہ اور سنگین‘ نقصان پہنچا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جمعرات کی شام ایک سرکاری نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کی جانب سے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔

تاہم چند گھنٹے قبل ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ’ان حملوں سے ملک کے جوہری پروگرام میں کوئی خلل نہیں پڑا۔‘ خامنہ ای امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کا جواب دے رہے تھے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ بموں نے تین جوہری تنصیبات کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا ہے۔

خامنہ ای نے امفیکی فوج کے حملوں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں کے بعد نشر ہونے والے ایرانی عوام سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ ’امریکی حملے ’کچھ بھی اہم حاصل کرنے‘ میں ناکام رہے ہیں۔‘

13 جون کو اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد سے روپوش رہنے والے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اصرار کیا کہ ٹرمپ نے بموں کے اثرات کو ’بڑھا چڑھا کر‘ پیش کیا ہے اور امریکہ اور اسرائیل کی کامیابی کا اعلان کیا۔‘

تاہم اب رہبر اعلیٰ کے بیان کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے تبصرے ایک مختلف تاثر پیدا کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جب اسرائیل نے حملے شروع کیے تو ایران نے مذاکرات کا چھٹا دور منسوخ کر دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ نئے مذاکرات شروع کرنے کے لئے کوئی معاہدہ یا بات چیت نہیں کی گئی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’حکومت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ ’ایرانی عوام کے مفاد‘ میں کیا ہے۔‘

سی این این کی رپورٹ کے مطابق، ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کی کوشش میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کو دفاعی استعمال سے دور رہتے ہوئے توانائی پیدا کرنے والے جوہری پروگرام کی تعمیر کے لئے 30 ارب ڈالر تک رسائی حاصل کرنے، پابندیوں میں نرمی کرنے اور اربوں ڈالر کے محدود ایرانی فنڈز کو بحال کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

لیکن ایران میں ہونے والی پیش رفت اس اقدام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

ایران کی پارلیمنٹ نے بدھ کے روز جوہری توانائی کے عالمی نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون روکنے کے بل کی منظوری دے دی۔ اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایران اب جوہری معائنہ کاروں کو بھی اپنے مُلک میں جوہری تنصیبات اور مقصد کے لیے استعمال ہونے والے مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دے گا۔

Share This Article