غزہ میں جنگ بندی کے لیے مجوزہ امریکی منصوبے پر ردِ عمل دیتے ہوئے فلسطینی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ اس نے رواں ہفتے کے اوائل میں پیش کی جانے والی امریکی تجویز پر اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔
حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے دس زندہ اور 18 مردہ یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم حماس نے اپنے جواب میں مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور انسانی امداد کی مسلسل ترسیل کے اپنے مطالبات دہرائے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی شرط امریکی مجوزہ منصوبے میں شامل نہیں۔
حماس کا جواب نہ تو مجوزہ منصبے سے واضح طور پر انکار ہے اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں امریکی شرائط پر جنگ بندی منظور ہے۔
اسرائیل پہلے ہی اس منصوبے پر رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سفیر سٹیو وٹکوف کی جانب سے تجویز کردہ مسودے پر اپنا جواب جمع کروا دیا ہے۔
سٹیو وٹکوف کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انھیں حماس کا جواب موصول ہو گیا ہے جو کہ نہ صرف ’ناقابل قبول‘ ہے بلکہ اس پورے عمل نقصان پہنچائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حماس کو مجوزہ فریم ورک کی تجویز قبول کرلینی چاہیے جو ابتدائی مذاکرات کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ مذاکرات آنے والے ہفتے شروع ہو سکتے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے منصوبے میں گروپ کے بنیادی مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب واشنگٹن ڈی سی میں جمعرات کے روز جب ایک نیوز کانفرنس کے دوران وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولن لیویٹ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سعودی عرب کے العربیہ ٹی وی کی اس رپورٹ کی تصدیق کر سکتی ہیں کہ اسرائیل اور حماس نے جنگ بندی کے نئے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
جس کے جواب میں کیرولن لیویٹ نے کہا کہ ’جی میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف اور صدر نے حماس کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی جس کی اسرائیل نے حمایت کی ہے۔ حماس کو بھیجنے سے قبل اس تجویز پراسرائیل نے دستخط کر دیے تھے۔‘
اسرائیل کے ٹی وی چینل 12 نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی صدر نیتن یاہو نے یرغمالیوں کے اہل خانہ سے ایک ملاقات میں کہا کہ ’ہم وٹکوف کے اس تازہ ترین منصوبے کو قبول کرنے پر اتفاق کرتے ہیں جو ہمیں آج رات بتایا گیا تھا تاہم حماس نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔‘
نیتن یاہو کے مطابق ’ہمیں یقین نہیں کہ حماس آخری یرغمالی کو رہا کرے گی اور ہم اس وقت تک غزہ کی پٹی نہیں چھوڑیں گے جب تک تمام یرغمالی ہمارے حوالے نہیں کر دیے جاتے۔‘
تاہم اس کے بعد اسرائیلی صدر کے دفتر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ چینل کے ایک رپورٹر نے اس کمرے میں ریکارڈنگ ڈیوائس سمگل کرنے کی کوشش کی جہاں یہ ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن اان کی جانب سے امریکی تجویز سے متفق ہونے کی تردید نہیں کی گئی۔