وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4013 دن مکمل ہوگئے۔ دالبندین سے میر محمد بلوچ، شکر خان بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی جارحیت صرف بلوچ، سندھی اور پشتون پے نہیں ہورہا بلکہ یہ آپ کے سماج میں آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ یہاں مذہب کے نام پر طبقاتی تفریق کے نام پر اقوام کی استحصال کے نام پر شروع جبر کا شاید آپ کو احساس نہیں مگر جلد یا بہ دیر یہ حقیقت ایک گھٹن بن کر سماج کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب مل کرانسانی حقق کے لیے اپنی فرائض کا اعادہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔ خاموشی ہماری اور آپ سب کی مستقبل کو تاریک کرجائے گی اور خاموشی خود ایک جرم اور ضمیر کی موت ہوتی ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ اقوام عالم انسانی حقوق کے ادارے، بلوچ قوم پر جاری جبر ظلم اور حقوق کی پامالی کا نوٹس لیں۔ ہم اپنے جینے کا انسانی برابری کا حق مانگ رہے ہیں ایک قوم اپنی قومی بقاء کے لیے آواز بلند کررہا ہے اور یہ ریاست تمام عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بلوچ فرزندوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہرنائی کے علاقے نشپا میں گذشتہ دنوں نہتے خواتین اور بچوں پر پاکستانی فورسز کی جانب سے جارحیت زیادتیوں کا تسلسل ہے جس کیخلاف ہم گذشتہ کئی سالوں سے آواز بلند کررہے ہیں، یہ واقعہ بھی ریاستی دہشتگردی کا تسلسل ہے۔
سانحہ ڈہنک اور سانحہ دازن کے بعد نشپا میں پاکستان کے وردی اور بغیر وردے والے کارندوں نے ملک ناز، کلثوم بلوچ اور ناز بی بی کو قتل کیا۔ ابھی گذشتہ واقعات میں شہید خواتین کا خون خشک نہیں ہوا تھا کہ نشپا میں قتل عام کرتے ہوئے انسانیت کو شرما دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں خواتین کو ان کے معصوم بچوں سمیت فورسز نے اغواء کیا مگر کوئی میڈیا، صحافی لب کشائی کے لیے تیار نہیں۔ آج بلوچ مائیں، بہنیں، بھائی، بزرگ انسانیت کے دعویدار اور زندہ قوموں کی اس کردار کو غور سے دیکھ رہے ہیں اور تاریخ خود دہراتی ضرور ہے۔