جاوید نصیر رند جعفر ایکسپریس کے اغواء میں شامل نہیں تھا | دیدگ دیدار

ایڈمن
ایڈمن
10 Min Read

کوئی 14 سال گزرے ہیں، جب جاوید نصیر رند کی لاش ملی تھی۔ یہ 2011 کا سال تھا، نومبر کی پانچ تاریخ۔ لاش، کس پہر، رات کی دبیز تاریکی کی چادر میں لپیٹ کر پھینکی گئی یا دن کی روشن آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ سیاسی قتل کی اس واردات کے اسرار و رموز اٹھاکر غائب کرنے والے، پیشہ ور اذیت رساں اور مردہ لاش کی جیب میں شناخت کے لیے کاغذ کی چھوٹی سی پرچی رکھ کر پھینکنے والے جانتے ہوں گے۔ ماہ رنگ کے والد غفار لانگو کی لاش ملنے کے چار مہینے بعد ان کی لاش ملی تھی۔ وہ روزنامہ توار کے ادارتی صفحہ کے مدیر تھے۔ درمیانہ قد، روح کے کرب سے پنجہ آزما ریاضت کرنیوالوں کی مانند دبلا پتلا اداس جاوید۔

’’ آپ انھیں پہچانتے ہیں؟ ‘‘ ان کی بے وقت موت پر، ان کے ایک دوست نے کچھ عرصے بعد، کراچی کے اردو بازار کے چند کتاب فروشوں کو ان کی تصویر دکھا کر پوچھا تھا۔ ’’ ہاں، یہ جاوید بلوچ ہے۔‘‘ انھوں نے جواب دیا تھا۔ ’’ لیکن بہت دن ہوئے، وہ نظر  نہیں آئے۔‘‘ کتاب فروشوں کا کہنا تھا۔

وہ، کتاب خریدنا ہوتی یا دوستوں سے کسی اچھی کتاب کی خبر ملتی، اس دن گھر سے ایک دو گھنٹے جلدی نکل لیتے، اپنا یہ فارغ وقت اس کتاب کی تلاش میں اردو بازار میں گزار لیتے تھے۔

وہ، ان کے دوست نے کتاب فروشوں سے ملال سے پُر وضاحت کی، مارے گئے ہیں، اب آپ کو کتابیں ڈھونڈ نکالنے کے لیے کبھی تنگ کرنے پھر نہیں آئیں گے۔

جعفر ایکسپریس کا اغوا، جو گزشتہ ماہ  گیارہ مارچ کو  پیش آیا، یہ اس واقعہ سے سالوں پہلے کی باتیں ہیں، ان دنوں بھی بلوچستان میں گردنیں آہنی ہاتھوں سے مروڑی جارہی تھیں، بس ریاست نے ہارڈ ہونے کا فی الحال اعلان نہیں کیا تھا۔ اور اربابِ ریاست اپنی پس پردہ لڑائی ’’ ملکی سالمیت “ کے نازک پردے میں چھپانے میں کسی قدر کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے۔ پاکستان کی غیر نوشتہ ریڈ بُک میں بلوچ کو لفظ سلامتی کا دشمن خیال کیا جاتا ہے۔

جاوید نصیر کے ہاتھ میں بھی، ایک پرانی سرخ رنگ کی ڈائری ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی تھی۔ جہاں وہ جاتا، ڈائری اس کے ساتھ سفر کرتی۔ اس میں نادیدہ کسی دشمن کا نام درج نہیں تھا، اس میں وہ نوٹ، اپنی یاددہانی کے لیے، لکھے ہوتے تھے جو آنے والے دنوں میں اسے آرٹیکل لکھنے کے کام آتے تھے۔ وہ یا ان کی لاش، چھپن دن گمشدگی کا شکار رہنے کے بعد، خضدار میں پھینکی گئی، جس پر زدوکوب اور گولیوں کے نشانات تھے۔ بے جواز وحشیانہ تشدد، جوانی کے خوابناک دنوں میں بے وقت کی موت اور انسانی وقار سے محروم کردہ مسخ لاشوں سے دہشت پھیلانے کا یہ منحوس آسیب جس سے وہ پریشان تھا، اس کو بھی نگل گیا۔

بلوچوں تک رسائی کے دو راستے تھے؛ بات چیت کا راستہ اور تشدد کا۔ ریاست نے وراثت میں ملنے والے نوآبادیاتی مزاج کے مطابق تشدد ، زور و جبر سے منوانے کا راستہ اختیار کرنا پسند کیا۔ ریاستوں کو قوموں کیساتھ تعلق بنانے کے لیے ہر کہیں سیاسی دروازہ دستیاب ہوتا ہے لٰہذا یہاں بھی ایک سیاسی دروازہ کھلا ہوا تھا جو مار پیچ چڑھائیاں چڑھتا، پرپیچ راہوں سے گزرکر، بھول بھلیوں اور  پیچیدگیوں سے ہوتا ہوا بہتر و پر امن راہوں کی جانب کھلتا تھا۔ وہ دروازہ ، جب ریاست 1948 میں بلوچستان میں داخل ہوئی تھی، اس دن ہی سربمہر کردیا گیا اور پھر کبھی کسی سیاسی قیادت کو یہ مُہر  کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

تشدد کا یہ ایکٹ جو ٹرین کے اغوا پر سامنے آیا حیران کن تھا لیکن  بلوچستان میں تشدد کے تاریخی اور بڑے منظر نامے سے اس ایکٹ کو جدا کرکے، ایک مختلف زاویہ سے دیکھنا، من مرضی حقائق تخلیق کرنے کی بے سود سعی کرنا لاحاصل ہے۔ ریاست نے بلوچستان تک رسائی پانے کے لیے جس تشدد سے کام لیا، وہ کجرو عسکری روایت تشدد کے راستے کھولنے کا منبع بن چکی ہے۔

1890  میں، آج سے ایک سو پینتیس سال پہلے، نوآبادیاتی زمانے میں جب کوئٹہ کو دوسرے شہروں سے ملانے کے لیے ٹرین ٹریک بچھائی گئی تھی، اس وقت سے اب تک ان گنت مسافر، سیاح ، سرکاری ملازم اور اہلکار اس ٹریک پر سفر کرچکے ہیں۔ ٹرین میں اپنے گھروں پر عید منانے کے لیے جانے والوں میں مسافر بھی، گیارہ مارچ کو اغوا والے دن، یقننا شامل تھے۔ اوپندر ناتھ اشک، بھارت کا منفرد ادیب جس نے اردو کے بے مثل افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر ، منٹو میرا دشمن ، کے عنوان سے اپنے اور منٹو کے اونچ نیچ کے شکار کشیدہ ادبی تعلقات پر یادگار کتاب لکھی۔ بھارت کے اس منفرد ادیب کا من موجی والد پاکستان بننے سے قبل، چالیس کی دہائی میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ملازم تھا۔ ایک صدی سے زیادہ وقت ہوا، یہ ٹرین اس ٹریک پر پنجاب اور دوسرے علاقوں کے لوگوں کو یہاں وہاں لیے آتی جاتی رہتی ہے۔ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ پہلی مرتبہ گزشتہ ماہ ٹرین اغوا ہوئی۔ کیوں؟

بلوچ سوال پختگی کو پہنچا ہوا دیرینہ قضیہ ہے۔ اس نے وقت بہ وقت سر اٹھایا، اپنے وجود کا شدت سے احساس دلایا ہے۔ یہ امن و امان کو تہہ و بالا کرنے کا، پاکستان میں رواج یافتہ لسانی یا فرقہ وارانہ مسائل کا حصہ نہیں ہے جو معاشرے میں بالادست گروہ کے مفادات کی تکمیل کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں، بلوچ لبریشن آرمی اسی طویل العمر قضیہ کا عسکری چہرہ بن گئی ہے۔ جو رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کی طرح کام کرتی ہے۔

پاکستان اور پاکستان سے باہر گیارہ مارچ کو ٹرین کا اغوا ایک بہت بڑی خبر بنا، اس خبر سے بلوچستان مسئلہ کی جانب توجہ دینے والے لوگوں کی تعداد بلاشبہ بہت بڑی تھی۔ علاوہ ازیں اغوا کی خبر سے بلوچ رائے عامہ میں بی ایل اے کے پیغام کو وسیع پیمانے پر پھیلنے کا موقع دستیاب ہوا کہ اس کے کسرتی بازوؤں میں اتنی طاقت آگئی ہے، اس نے سینکڑوں مسافروں سمیت جعفر ایکسپریس کو اپنے کندھے پر اٹھالیا، یہ پیغام تیز رفتاری میں مقبول ترین ٹی وی چینلز کی چوبیس گھنٹے چلنے والی برق رفتار نشریات سے بھی تیز تر تھا۔ پاکستان اور پاکستان سے باہر اگرچہ اس کی مذمت کی گئی لیکن بہر حال بلوچستان میں بی ایل اے کو اس کارروائی پر تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔

اُن دنوں جب ٹرین کا سفر محفوظ ہوا کرتا تھا۔ ریاست کا ہارڈ بننا سیاسی اصطلاحات کے ذخیرے میں شامل نہیں تھا۔ جاوید نصیر لاپتہ ہوا، اس کی جان لے لی گئی، اُس سے کس کی جان کو خطرہ تھا؟ وہ اپنے ہم پیشہ صحافیوں کی طرح مہینے کے بیشتر دنوں میں اکثر تنگ دست رہتا، بے ضرر روزنامہ نویس تھا۔ حب بلوچستان سے روز، منی بس میں سوار ہوکر، کام کے سلسلے میں کراچی آتا جاتا رہتا۔ جب وہ گمشدگی کے آسیب کا شکار ہوا، پاکستان میں کوئی اس کے اغوا پر نہیں چونکا۔اردو بازار میں سوبھراج میٹرنٹی ہوم کے سامنے سے مختصر سی سڑک گزر کر صابر ریسٹورنٹ کی طرف نکلتی ہے،اس سڑک پر واقع چھوٹی سی دکان کے مالک کتاب فروش نے جو ایم کیو ایم کا ہمدرد تھا،  جاوید کی تصویر دیکھ کر مارنے والوں کو، حرامی کی اولاد کہہ کر ۔۔۔، موٹی گالی دی تھی۔ اس رات ، اس کے دوست نے یاد کیا، اس گالی کے سوا، کسی نے جاوید کو یاد نہیں کیا تھا، شاید اس بلوچ کو یاد رکھنے سے ان کا کوئی مطلب ہی نہیں تھا۔

***

Share This Article