امریکہ نے سراج الدین حقانی پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا، طالبان کا دعویٰ

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے سراج الدین حقانی پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے انعام کو منسوخ کرتے ہوئے انھیں مطلوب افراد کی فہرست سے نکال دیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ کے علاوہ دو دیگر طالبان رہنماؤں کے نام بھی مطلوب افراد کی فہرست سے نکالے گئے ہیں۔ تاہم امریکی حکام نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی ویب سائٹ پر ابھی بھی سراج الدین حقانی کی گرفتاری کی اطلاع دینے والے کے لیے 10 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان موجود ہے۔

سراج الدین حقانی، عبدالعزیز حقانی اور یحییٰ حقانی کے ساتھ افغانستان میں امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف ہلاکت خیز حملوں کی منصوبہ بندی اور اس میں حصہ لینے کے الزامات میں امریکہ کو مطلوب تھے۔

سراج الدین حقانی کے بھائی اور طالبان تحریک کے ایک سینیئر رکن انس حقانی نے الجزیرہ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں اس خبر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ نے ہمیں صورتحال سے آگاہ کر دیا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ افغانستان اب کسی کے لیے خطرہ نہیں ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ جن پانچ طالبان کے ارکان کے لیے انعامات مقرر کیے گئے تھے وہ حال ہی میں اجلاسوں اور دیگر سرگرمیوں میں پیش پیش تھے۔

انس حقانی کا کہنا ہے کہ طالبان رہنماؤں کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا دوحہ معاہدے کا حصہ ہے۔

پابندی ہٹانے کا اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب طالبان نے جمعرات کو جارج گلیزمین نامی ایک امریکی شہری کو دو سال کی قید کے بعد رہا کیا تھا۔

انھیں قیدیوں کے معاملات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر ایڈم بوہلر اور افغانستان کے لیے سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے کابل کے دورے کے بعد رہا کیا گیا، جنہوں نے طالبان حکومت کی جانب سے ان کی رہائی کو "نیک نیتی کا اقدام” قرار دیا۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں کہا کہ گلیزمین کی رہائی ایک "مثبت اور تعمیری قدم” کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی رہائی کو یقینی بنانے میں قطر کے "اہم” کردار کے لیے بھی شکریہ ادا کیا۔

سراج الدین حقانی نے جنوری میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا سفر کیا تھا اور اس وقت ان کی افغانستان واپسی کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ سراج الدین حقانی کو 23 جنوری سے 3 فروری تک عمرہ کے لیے سفری چھوٹ دی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق مسٹر حقانی نے اس سفر کے دوران متحدہ عرب امارات میں ملاقاتیں بھی کیں۔

امریکی حکام نے ابھی تک مسٹر حقانی کا نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جانے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن یقین ہے کہ ایسا ہو رہا ہے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ طالبان کی طرف ایک طرح کی مصروفیت کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ اگرچہ مسٹر ٹرمپ نے حال ہی میں طالبان حکومت کو بقیہ امریکی ہتھیاروں کے بارے میں خبردار کیا تھا، لیکن وہ انہیں واپس لینا چاہتے ہیں۔

تین سال سے زائد عرصے سے اقتدار میں رہنے والی طالبان کی حکومت کو انسانی حقوق کے ریکارڈ، خاص طور پر خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندیوں کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے، ساتھ ہی ساتھ مغربی ممالک بھی طالبان کے ساتھ انسانی حقوق کے احترام کی شرط پر مذاکرات کر رہے ہیں۔

چند دن قبل سراج الدین حقانی کے استعفے سے متعلق بھی خبریں سامنے آئی تھیں جن کی طالبان کی افغان وزرات داخلہ نے تردید کر دی تھی۔

سراج الدین حقانی کا اثرو رسوخ بنیادی طور پر افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے خوست، پکتیا، پکتیکا اور یہاں تک کہ کابل کے جنوب میں لوگر تک ہے۔ ان علاقوں میں پشتونوں کے تین بڑے قبائل میں سے دو غلزئی اور کرلانی پشتون آباد ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بعض مغربی تجزیہ کار انھیں افغانستان میں پشتونوں کے دو بڑی شاخوں غلزئی اور درانی قبائل کے درمیان پائی جانے والی تاریخی دشمنی یا رقابت میں امن کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

انھیں اپنے اس کردار کی وجہ سے افغانستان میں ’ایک مضبوط اور اہم شخصیت کا مالک‘ سمجھا جاتا ہے تاہم حقانی کا تعلق کرلانی شاخ کے زدران قبیلے سے ہے۔

Share This Article