دالبندین کو بلوچی کے رخشانی لہجے میں "ڈالبندن” کے نام سے پکارا جاتا ہے ـ یہ دنیا کے پسِ ماندہ ترین مگر امیر خطوں میں سے ایک چاگئے (چاغی) کا صدر مقام ہے ـ چاگئے کو پاکستانی تین چیزوں کی وجہ سے جانتے ہیں ـ ۔
یہاں 1998 میں مہلک ایٹمی تجربے کئے گئے جس کے خوف ناک اثرات سے یہاں کے مقامی باشندے تاحال نبرد آزما ہیں ـ یہاں سینڈک اور ریکوڈک کے سامراجی منصوبے چل رہے ہیں جہاں سے سونے اور تانبے کی شکل میں اربوں ڈالر کی بلوچ قومی دولت لوٹی جا رہی ہے ـ۔
مگر یہ خطہ اپنی بے پناہ غربت کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے ـ اقوام متحدہ نے چاگئے کو افلاس زدہ خطہ قرار دیا ہے ـ پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند ترین شرح بھی اسی خطے میں ہے ـ۔
بلوچ روایات کے مطابق موجودہ ڈالبندن شہر پہلے یہاں نہ تھا ـ شہر سے چند کلومیٹر دور یادگار چوکی کے علاقے کو ڈالبندن کہا جاتا تھا ـ گئے وقتوں میں موجودہ یادگار چوکی کے مقام پر ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا ـ یہ گاؤں مسافروں کے سستانے اور آرام کرنے کا مرکز تھا ـ روایت مشہور ہے کہ یہ مسافر اپنے بیمار یا مرے ہوئے جانوروں کو اس مقام پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے تھے ـ مسافروں کے جانے کے بعد گدھ غول در غول آتے اور جانوروں کی لاشوں کو کھا جاتےـ
بلوچی زبان میں گدھ کو "ڈال” کہا جاتا ہے ـ رفتہ رفتہ یہ گاؤں پہلے "ڈال بند” پھر "ڈالبندن” کے نام سے معروف ہوگیا ـ بعد میں گاؤں کے افراد جب ہجرت کرکے موجودہ شہر کے علاقے میں آباد ہوئے تو اپنے ساتھ پرانے علاقے کا نام بھی لے آئے ـ۔
انگریز فوجی افسر جنرل ڈائر اور مقامی بلوچوں کے درمیان جب جنگ چھڑی تو جنرل ڈائر نے پرانے ڈالبندن کے علاقے میں ایک تھانہ قائم کردیا جسے "یادگار تھانہ” کا نام دیا گیا مگر بلوچ اسے "یادگار چوکی” کہا کرتے تھے ـ اس چوکی کے کھنڈرات آج بھی باقی ہیں ـ۔
انگریز نوآبادکار کے خلاف جنگ گل بی بی نامی خاتون کی قیادت میں لڑی گئی ـ انگریز نسبتاً مہذب دشمن تھا اس نے سرمچار گل بی بی کی بہادری اور جنگی حکمت عملی کی تعریف میں بخل سے کام نہ لیا ـ گل بی بی آج بھی "بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار” نامی کتاب کی صورت بلوچ مزاحمتی لٹریچر کا حصہ ہے ـ ۔
وقت بدلا ـ انگریز نوآبادکار کی جگہ پنجابی نوآبادکار آگئے ـ پنجابی نوآبادکار اپنے ساتھ ایسے ڈال لائے جنہوں نے پورے بلوچستان کو شکارگاہ بنا دیا ـ پنجابی ڈال مرے ہوئے جانوروں کی بجائے زندہ انسانوں کا گوشت کھاتے ہیں ـ یہ ڈال مرد، زن، پیر مرد و بچہ کسی کا لحاظ نہیں کرتے ـ انہیں زندہ بلوچ گوشت کی لت لگ گئی ہے ـ۔
گُل بی بی کی مزاحمتی وارثت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو منتقل ہوئی ـ انہوں نے پنجابی ڈال کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کرکے بلوچ نسل کشی کے سنگین جرم کو دنیا تک پہنچانے کے لئے "ڈالبندن” کا انتخاب کیا ـ یہ گل بی بی کی بازیافت ہے ـ ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا یہ انتخاب سینڈک اور ریکوڈک کے سامراجی منصوبوں کے خلاف بھی مزاحمت ہے ـ یہ چاگئے کے پنجاب ساختہ افلاس کے خلاف احتجاج، زچگی کے دوران مرتی خواتین سے اظہار یکجہتی اور ایٹمی دھماکوں کے منفی اثرات سے اظہارِ نفرت ہے ـ یہ وقت کے جنرل ڈائر کو دعوتِ مبارزت ہے ـ ۔
ڈالبندن کل 25 جنوری کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ پنجابی نوآبادکار اور اس کے وردی پوش ڈالوں کو بتانے والا ہے کہ گُل بی بی کی سرزمین اپنی مزاحمتی فطرت سے دست بردار نہیں ہوا ـ بقول ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ "
مزاحمت زندگی ہے”۔
بلوچستان سبز ءُ آباد بات
٭٭٭