امریکی رکن کانگریس: امریکا طالبان کو نقد رقم کی ترسیل فوری بند کرے

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

امریکی ایوانِ نمائندگان کے رکن، ٹم برشیٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو لکھے گئے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ "طالبان کو امریکی نقد امداد فوری طور پر روک دی جائے۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا کو اپنے دشمنوں کی مالی معاونت ختم کرنی چاہیے۔

پیر کو لکھے گئے خط میں، برشیٹ نے نئے منتخب صدر سے اپیل کی کہ "غیر ملکی امداد کی فضول خرچی ختم کرنے اور امریکی عوام کے مفادات کو اولیت دینے کے لیے کانگریس کی کوششوں کی حمایت کریں۔” انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارے دشمنوں کو ایک ہفتے میں 40 ملین ڈالر دینا ان فوجیوں کی توہین ہے جو امریکی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔”

گزشتہ تین سالوں میں امریکا نے افغانستان میں امدادی تنظیموں کے ذریعے 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ امداد صرف امدادی پروگراموں اور قحط، بھوک اور غذائی قلت کے شکار افغان عوام کے لیے مختص ہے۔

ناقدین کا مؤقف ہے کہ یہ امداد طالبان حکومت کو مضبوط کر رہی ہے، اور وہ اس پر فوری پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ اور دیگر انسانی تنظیمیں افغانستان میں امداد کی معطلی کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے ڈونر ممالک سے مالی تعاون بڑھانے کی اپیل کرتی ہیں۔

برشیٹ نے اپنے خط میں انکشاف کیا کہ امریکی وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن نے کانگریس میں اعتراف کیا تھا کہ تقریباً 10 ملین ڈالر کی امریکی امداد طالبان کے لیے مختلف طریقوں سے فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔ طالبان یہ رقم اداروں سے ٹیکس کی شکل میں اور جعلی ادارے بنا کر حاصل کرتے ہیں۔

برشیٹ نے خبردار کیا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کو بھیجی جانے والی نقد امداد نیلامی کے ذریعے طالبان کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے، جس کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس رقم سے طالبان اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی قومی سلامتی ٹیم کے لیے ان افراد کو منتخب کیا ہے جو ماضی میں طالبان کے خلاف جنگ میں متحرک رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان تقرریوں کا طالبان کے خلاف واشنگٹن کی پالیسی پر اثر پڑ سکتا ہے، جس سے طالبان پر دباؤ بڑھے گا۔

طالبان کے سیاسی نائب عباس ستانکزئی نے حال ہی میں ایک مصالحانہ بیان میں کہا کہ طالبان امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے عزم کی تعریف کی ہے۔

Share This Article