پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے گلگت بلتستان کے سیاحتی مقام ہنزہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف شاہراہ قراقرم پر تین روز سے جاری دھرنے کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔ سیاح لنک راستوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ بس، ٹرک، کنیٹنر سمیت بڑی گاڑیوں کے لیے راستے مکمل بند ہیں۔
ہنزہ میں دھرنا علی آباد کے علاقے میں واقع کالج چوک پر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما کامریڈ بابا جان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی بندش سے ہنزہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔
ان کے مطابق ’ہم نے انتہائی تنگ ہو کر اور مجبوری میں دھرنا جیسا آپشن چنا ہے۔ ہمارے مطالبے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔‘
ان سے جب مطالبے پوچھے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ عطا آباد پاور پلانٹ سمیت باقی جتنے بھی منصوبے ہیں ان پر کام شروع کرنے نوٹیفکیشن فی الفور جاری کیا جائے جبکہ شارٹ ٹرم حل کے لیے فی الفور تھرمل پاور پلانٹ کے ذریعے سے بجلی فراہم کی جائے۔ ان مطالبات کی منظوری کے بغیر دھرنا ختم نہیں ہوگا۔‘
ان کے مطابق ’اب جب دھرنا شروع ہوچکا ہے تو یہ اب ہنزہ میں بجلی کا مسئلہ حل ہوئے بغیر ختم نہیں ہوگا۔
ان کا دعوی تھا کہ ہنزہ میں 24 گھنٹوں میں بجلی صرف چند منٹوں کے لیے آتی ہے جس نے رہائشیوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔
اس دھرنے میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
خاتون رہنما عقیلہ بانو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ہیں۔ بچوں کو سکول بھجنا ہوتا ہے مگر بجلی نہیں ہوتی کہ یونیفارم استری ہو۔ پانی نہیں ہوتا گھر میں اندھیرا ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بحران کی وجہ سے لوگ لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ہنزہ کا حسن متاثر ہورہا ہے۔ نہ صرف ہنزہ کی ماحولیات متاثر ہورہی ہے بلکہ لکڑی اورپھر کوئلے کے استعمال سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں جن سے بھی سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں۔
عقیلہ بانو کا کہنا تھا کہ اس دھرنے میں خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ اب بجلی کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی ہے۔ اس لیے ہنزہ کے لیے بجلی کا انتظام کرنا چاہیے چاہے اس کے بدلے پورا سال ہی دھرنا کیوں نہ دینا پڑے۔