خصوصی رپورٹ
فری بلوچستان موومنٹ ( ایف بی ایم ) بلوچ آزادی پسندوں کے درمیان اپنے کافی عرصے سے متضاد موقف سے یکایک دستبردار ہوکر ایران کے موجودہ نظام کے خلاف کثیرالقومی مشترکہ جدوجہد پر متفق ہوگئی ہے۔ماضی میں ایف بی ایم اور ھیربیار مری تسلسل کے ساتھ ’ گریٹر بلوچستان ‘ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ان کا موقف رہا ہے کہ جس طرح مشرقی بلوچستان میں مسلح آزادی کی تحریک ہے اسی طرح مغربی بلوچستان میں بھی آزادی کے لیے لڑائی لڑنی ہوگی۔
ایف بی ایم کی طرف سے پیش کردہ یہ منصوبہ حیران کن ، پیچیدہ اور توقع کے برخلاف ہے۔ ایف بی ایم کے زیر اثر کام کرنے والی خبررساں ویب سائٹ کے مطابق فری بلوچستان موومنٹ نے قومی رہنما ھیربیار مری کی سرابراہی میں ’’ ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ ‘‘ کا جامعہ روڈ میپ پیش کیا ہے ۔
کئی صفحات پر متضاد اور گنجلک زبان میں لکھے گئے اس منصوبے کا مطالعہ کسی بھی سیاسی کارکن کو الجھاسکتا ہے اور کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ سب سے پہلا سوال کہ ھیربیار اور ایف بی ایم کے پاس وہ قوت اور مینڈیٹ کہاں سے آئے کہ انھوں نے نہ صرف مغربی بلوچستان بشمول ایران کے مستقبل کا فیصلہ تحریر کرلیا بلکہ اپنے ایک دیرینہ موقف سے بھی کوسوں دور ہوگئے۔
کیا بی این ایم کا موقف درست ثابت ہوا ؟
ایف بی ایم کے صفوں میں شامل کئی افراد بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) پر تنقید کرتے آئے ہیں ، ان کا الزام رہا ہے کہ بی این ایم ’ ایران ‘ سے مفاہمت کرکے بلوچ قوم سے غداری کر رہی ہے اور گریٹر بلوچستان سے دستبردار ہوگئی ہے۔
اس بارے میں ہم نے بی این ایم کا موقف جاننے کی کوشش کی کہ وہ ھیربیار کی ایران پالیسی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں کیا یہ بی این ایم کے موقف کی تائید ہے ، لیکن بی این ایم کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ فی الحال اس معاملے پر اپنا تنظیمی موقف نہیں دینا چاہتے ، بہرحال وہ اس بات کی بارہا وضاحت کرچکے ہیں کہ بی این ایم بلوچ مفادات کا سودا کرئے گی اور نہ ہی ان سے پیچھے ہٹے گی البتہ ان کی جدوجہد کا مینڈیٹ اور دائرہ کار صرف مشرقی بلوچستان ہے اور وہ پاکستان سے بلوچستان کی آزادی چاہتے ہیں۔
مگر بلوچستان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے اس سوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ھیربیار ایک خواب کے پیچھے اسی پوائنٹ پر آگئے ہیں جس پر پہلے سے ہی بی این ایم موجود ہے ھیربیار مستبقل کی ایک ایسی ایرانی حکومت سے مفاہمت کر رہی ہے جس کا اب تک زمین پر آثار بھی نظر نہیں آتے۔ ھیربیار بلوچستان کی مسلح جدوجہد کے ذریعے ایران سے آزادی کی جدوجہد سے دست بردار ہوچکے ہیں اور اپنے منصوبے میں مستقبل کی ایرانی حکومت کے ساتھ مفاہمت کرکے ریفرنڈم کے ذریعے جمہوری طریقے سے بلوچستان کی آزادی کی بات کر رہے ہیں۔ البتہ یہ خطرناک سوچ ہے کہ ھیربیار ان کے وعدہ فردا پر ایک جنگ لڑنا چاہتے ہیں ، جس میں یقینا بلوچ ایندھن کے طور پر استعمال ہوں گے۔
انھوں نے مزید کہا ھیربیار مری کی ایران پالیسی بلوچوں کو گمراہ کرنے کی ایک کاغذی بھول بھلیاں سے کم نہیں بلوچوں کو دوسروں کے انقلاب، زمین پر غیرموثر کاغذی قوتوں کو قومی نمائندگان قرار دے کر اتحاد بلوچ قوم کو دوسروں کی جنگ میں ایندھن بنانے کا منصوبہ ہے۔ مجھے شک ہے کہ یہ بیرونی قوتوں نے لکھ کر ھیربیار کو پیش کیا ہوگا اگر ایسا نہیں تو ھیربیار بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کا کردار کیوں ادا کریں گے ؟، کچھ تو ہے۔ ھیربیار کا ایران سے کیا تعلق کہ وہ ان کی جدوجہد کے کلیدی رہنماء اور منصوبہ کار بن کر سامنے آئے ہیں ؟ ، ھیربیار کو مغربی بلوچستان کے فیصلے کا مینڈیٹ کس نے دیا ، میں نے سوشل میڈیا میں ایک سوال دیکھا ہے کہ منصوبہ پیش کرنے والوں کو بھی مستقبل کے مجوزہ ریفرنڈم میں ووٹ دینے کا حق ہوگا ؟ ، سوچیں گے تو یہ ایک لطیفہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن بلوچوں کو دوسروں کی لڑائی میں پراکسی بنا کر لڑانا ایک خطرناک سوچ ہے میرے خیال میں ایسا مستقبل میں ہوسکتا ہے۔ ھیربیار یہی چاہتے ہیں ، ھیربیار خود کو پیش کر رہے ہیں کہ اگر اسے مناسب فنڈ کیا جائے تو وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انھوں نے اپنے ساتھ ہوئی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جمعہ خان کا آبائی تعلق گوادر سے تھا لیکن انھوں نے ایک طرح سے گریٹر بلوچستان کی تحریک چلائی تھی ۔یہ جو جھنڈا ھیربیار کے ہاتھ میں ہے اس کو پروموٹ کرنے میں انہی کا کردار تھا۔ ان کو اس وقت عراق کی مدد حاصل تھی۔ وہاں ایران مخالف فارسی لوگ بھی موجود تھے ، غالبا مجاہدین خلق کے لوگ۔ اس وقت بھی یہی منصوبہ جمعہ خان کے سامنے رکھا گیا ، اسے ایک ایرانی جنرل کے روبرو کیا گیا کہ آپ مشترکہ جدوجہد کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کریں۔ جمعہ خان نے پوچھا ، ہماری مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں بلوچستان آزاد ہوگا ، ان کا جواب تھا نہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا بلوچستان تقسیم ہے ایک حصہ پاکستان کے قبضے میں اسے واپس حاصل کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ کی مخالفت میں چلنے والی مسلح تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والی متوقع حکومت بلوچوں کی مدد کرئے گی ؟ ۔ جواب تھا کہ آپ ہمیں اپنے ہمسایوں سے الجھانا چاہتے ہیں، اس پر جمعہ خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں تمہارے ایجنڈے کے لیے اپنے بچے قربان نہیں کرؤں گا۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’’ ھیربیار اس منصوبے کا پیشکار بن کر دوسروں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اپنے بچوں کی قربانی دینا چاہتے ہیں۔‘‘
ھیربیار کا منصوبہ کیا ہے ؟
ھیربیار اپنے اس منصوبے کے ذریعے ایران کی موجودہ مذہبی حکومت کے خاتمے کے لیے بشمول فارسی زبان بولنے والوں تمام ایرانی اقوام کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایران میں ایک عبوری فیڈریشن قائم ہوگا جس میں تمام اقوام کی تعداد کے مطابق نہیں بلکہ قومی اکائیوں کے مطابق نمائندگی ہوگی۔ایف بی ایم نے جو جمہوری عبوری منصوبہ پیش کیا ہے۔ وہ کامیابی کی صورت اس تصوراتی عبوری حکومت کا خاکہ ہے جو مغربی بلوچستان میں بلوچ قومی خودمختاری کا فیصلہ کرئے گی۔ جس پر بقول ایف بی ایم ’ فی الحال، یہ واحد منصوبہ ہے جس پر وسیع پیمانے پر تمام غیرفارسی اقوام نے اتفاق کیا ہے۔‘ ، تاہم اس حوالے سے دیگر جماعتوں کا ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اس منصوبے میں جمہوری راستے سے آزادی کا حل پیش کیا گیا ہے اور اسے ایک بہترین راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ، یعنی نئی حکومت کے قیام کے بعد بلوچستان اور دیگر غیرفارسی خطوں میں ایران کے ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے لیے مرحلہ وار ریفرنڈم ہوں گے۔ ایران میں داخلی سرحدوں کی از سر نو تشکیل ہوگی ۔اگر ریفرنڈم میں بھی ایران کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ ہوگا تب بھی علاقائی طور پر خودمختار حکومتییں قائم ہوں گی۔
ہم نے بارہا کوشش کی دیگر بلوچ تنظیموں کے نمائندگان اس منصوبے پر اپنی رائے پیش کریں لیکن ان کے ردعمل سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسے وہ ایک ناقابل عمل تصوراتی دستاویز سمجھتے ہیں اور اس کا مستقبل بھی ھیربیار مری ’ بلوچستان لبریشن چارٹر ‘ جیسا ہوگا جو بلوچستان کی سیاست اور جدوجہد میں فی الحال ایک غیرمتعلق دستاویز ہے اور اس پر دیگر آزادی پسند جماعتوں کا اعتماد نہیں۔
قارئین ایف بی ایم کی جانب سے ایران کیلئے پیش کی گئی جمہوری عبوری منصوبے کا روڈ میپ کا مکمل مسودہ اس لنک پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔