پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں گذشتہ شب رات گئے حکومت و فوجی حکام کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی )کے مظاہرین کیخلاف گرینڈ فوجی آپریشن کیا گیا۔آپریشن سے متعدد افراد کوگرفتار و لاپتہ کیا گیاجبکہ کئی افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق ’سرکاری مشینری کی گولیوں سے درجنوں نہتے بے گناہ کارکنوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا، جن میں سے 8 کے کوائف اب تک ہمارے پاس آ چکے ہیں۔‘
پی ٹی آئی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے کنٹینر کو آگ لگا دی گئی، لیکن وہ دونوں خیریت سے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق یہ آپریشن رات 11 بجے کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت شروع کیا گیا تھا جس کی ابتدا میں سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو چاروں اطراف سے گھیر لیا اور اس کے بعد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔
حکومت کی جانب سے منگل کی رات پاکستان تحریک انصاف کے ڈی چوک پر جمع ہونے والے کارکنان کے خلاف ’گرینڈ آپریشن‘ کی تصدیق تو کی گئی ہے تاہم اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
وفاقی وزرا نے اس آپریشن کے دوران 500 سے 550 مظاہرین کی گرفتاری کی تصدیق تو کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس دوران مظاہرین میں شامل کتنے افراد زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے آفیشل ’ایکس‘ اکاؤنٹ اور متعدد رہنماؤں کی جانب سے اس آپریشن میں سکیورٹی حکام کی جانب سے ’بے دریغ فائرنگ‘ اور آنسو گیس کے استعمال کے باعث متعدد مظاہرین کی ہلاکت اور زخمی ہونے سے متعلق ناصرف دعوے کیے جا رہے ہیں بلکہ ویڈیوز بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں۔
آپریشن میں حصہ لینے والے اسلام آباد کے ایک پولیس افسر عثمان احمد کے مطابق آپریشن سے قبل قریب واقع تمام علاقوں کی مارکیٹوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ سٹریٹ لائٹس کو بھی بند کیا گیا تھا۔
انھوں نے مزید تفصیلات فراہم نہ کرتے ہوئے بتایا کہ دو سے ڈھائی گھنٹوں میں آپریشن مکمل کر لیا گیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ سو سے زائد مظاہرین کو ڈی چوک اور اس کے اطراف سے گرفتار کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ مظاہرین کی گاڑیاں بلیو ایریا میں موجود تھیں اور ان میں سے ایک بھی گاڑی واپس نہیں گئی۔ اُن کے مطابق مظاہرین کی جانب سے کچھ گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا اور خاص طور پر اس کنٹینر کو جس پر بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور سوار تھے۔
پاکستان کے مقامی میڈیا اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی چند ویڈیوز میں آپریشن کے بعد کے ڈی چوک کے مناظر دکھائے گئے ہیں جن میں درجنوں گاڑیوں کو اسلام آباد کے جناح ایوینیو پر دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے متعدد گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق اس آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے سینکڑوں افراد کو اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں رکھنے کے ساتھ ساتھ سی آئی اے میں منتقل کیا گیا ہے اور سی آئی اے کی عمارت کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے مظاہرین کو مرحلہ وار عدالتوں میں پیش کر کے عدالتوں سے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلیو ایریا شرپسندوں سے خالی کروا لیا گیا ہے اوراس وقت وہاں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس دعوے کے ساتھ کہ حکومت نے اس کے پرامن مظاہرین کے خلاف آپریشن کے نام پر وحشت اور بربریت کا استعمال کیا اور کئی احتجاجیوں کو خون میں نہلا دیا، اپنا احتجاج منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹس سے کہا گیا ہے کہ صورت حال عمران خان کے سامنے رکھی جائے گی آئندہ کے لائحہ عمل سے جلد آگاہ کر دیا جائے گا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صورت حال کنٹرول میں ہے اورکل کا دن نئی سوچ کے ساتھ طلوع ہو گا۔ میں پی ٹی آئی سے کہتا ہوں کہ اب بس بھی کریں، کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ جمعرات سے اسکول کھولے جا رہے ہیں اور میٹرو بس سروس اور انٹرنیٹ سروس بھی کھل جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر سے کنٹینر ہٹانے کا کام ابھی سے شروع کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے احتجاج میں افغان باشندوں کی موجودگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا أفغان باشندوں کے بارے میں فیصلہ کر لیا گیا ہے اورمیں آئندہ چند روز میں اس کے متعلق آگاہ کروں گا۔
انہوں نے رینجرز اور دیگر اداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں مشکل حالات میں بہترین کام کیا ہے۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پہلے روز سے کہہ رہا ہوں کہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔
علی امین گنڈاپور کی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور بشرہ بی بی ابھی تک مفرور ہیں ۔ اوران کی کل پی ٹی آئی سے ملاقات کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہوئے۔ اور مظاہرین بھی ڈی چوک سے بھاگ گئے، جن کی ویڈیوز جاری کی جائیں گی۔
ان کا پلان معیشت کو نقصان پہنچانا اور بیلا روس کے صدر کے دورے کو متاثر کرنا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کی فائنل کال نہیں بلکہ مس کال تھی۔