امریکا میں صدارتی انتخابات کیلئے پولنگ شروع ہو چکی ہے جو اب تک جاری ہے ۔
امریکہ میں صدارتی الیکشن کے امیدواروں کاملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ میں مقابلے کے علاوہ قومی، ریاستی اور مقامی سطح پر بھی انتخابات ہو رہے ہیں۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ جبکہ ڈیموکریٹس کی جانب سے ملک کی موجودہ نائب صدر کملا ہیرس آمنے سامنے ہیں۔
کانگریس کے ایوانِ زیریں ’ایوان نمائندگان‘ کی تمام 435 نشستوں پر الیکشن آج ہو رہا ہے۔
ایوانِ نمائندگان کے انتخابات ہر دو سال کے بعد منعقد ہوتے ہیں ۔ اس کے ارکان بھی دو سال کے لیے ہی منتخب ہوتے ہیں۔
کانگریس میں ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی 100 میں سے 34 نشستوں پر بھی آج ہی الیکشن ہوگا۔ اسی طرح ملک کی 11 ریاستوں میں گورنروں کے انتخاب کا دن بھی آج ہی ہے۔
اس کے علاوہ ریاستی اور مقامی عہدوں کے لیے ہزاروں مقابلے ہوں گے جن میں ریاستوں کے قانون سازوں، شہروں کے میئر اور بلدیاتی نمائندوں کے انتخابات شامل ہیں۔
ساتھ ہی کئی ریاستوں میں ریفرنڈم بھی ہو رہے ہیں جن میں ووٹروں سے اسقاط حمل، ٹیکس پالیسی اور گانجے کے استعمال جیسے مسائل کے بارے میں رائے لی جائے گی۔
اس سال امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تقریباً 24 کروڑ لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، جن میں سے آٹھ کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ لوگ پہلے ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں لیکن ابھی بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جنھوں نے ووٹ ڈالنا ہے۔
امریکی نائب صدر اور ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ جاری ہے اور کئی ایسی ریاستیں نظر آ رہی ہیں جہاں کسی بھی امیدوار کو واضح برتری حاصل نہیں ہے اور وہاں کسی بھی امیدوار کے بہت کم ووٹوں سے جیتنے کی صورت میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا بھی کافی امکان موجود ہے۔
چند ریاستوں کی جانب سے 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد سے نتائج مرتب کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی کی وجہ سے بھی اس بات کا بھی امکان ہے کہ نتائج پہلے سے بھی کہیں زیادہ دیر سے موصول ہوں۔
نومنتخب صدر پیر 20 جنوری 2025 کو یو ایس کیپیٹل کمپلیکس کے میدان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ یہ امریکی تاریخ کا 60 واں صدارتی حلف ہو گا۔ اس تقریب کے دوران صدر افتتاحی خطاب بھی کریں گے۔
یاد رہے کہ سنہ 2022 میں امریکہ میں تقریباً 161 ملین ووٹرز رجسٹر تھے۔
کملا ہیرس نے سوئنگ ریاست پنسلوانیا میں اپنی آخری ریلی کے دوران کہا کہ وہ اپنی انتخابی مہم کو مثبت خیالی اور خوشی کے ساتھ ختم کرنا چاہتی ہیں۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی ایک اور سوئنگ ریاست مشیگن میں اپنی انتخابی مہم کا اختتام کیا جہاں انھوں نے کملا ہیرس کو ’بائیں بازو کی بنیاد پرست احمق‘ قرار دیا۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب امریکی عوام کے لیے صرف اگلا صدر چُننے کی مشق نہیں بلکہ ووٹرز اپنے ووٹ کے ذریعے دیگر اہم معاملات پر بھی اپنی رائے دیں گے۔
اس صدارتی انتخاب میں ایریزونا اور نیواڈا جیسی سوئنگ ریاستوں سمیت 10 ریاستیں یہ بھی فیصلہ کریں گی کہ خواتین کو اسقاطِ حمل کے حقوق حاصل ہونے چاہییں یا نہیں۔
اس کے علاوہ امریکی سینیٹ کی ایک تہائی یعنی 100 میں سے 34 نشستوں پر بھی الیکشن آج ہی ہو رہے ہیں جہاں فی الحال ڈیموکریٹک پارٹی کو رپبلکن پارٹی پر ایک نشست کی برتری حاصل ہے۔
امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی 435 نشستوں پر انتخابات بھی آج ہی ہو رہے ہیں جہاں اس وقت رپبلکن پارٹی کو ڈیموکریٹک پارٹی پر برتری حاصل ہے۔
فلوریڈا، نبراسکا، شمالی ڈکوٹا اور جنوبی ڈکوٹا جیسی ریاستوں میں ووٹرز اس بات کا بھی فیصلہ کریں گے کہ انھیں گانجے کے طّبی استعمال کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔
کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دو ایسے صدارتی امیدوار ہیں جن کی مختلف معاملات پر سوچ انتہائی مختلف ہے جیسے کہ پناہ گزینوں کی آمد، تجارت، خارجہ امور یا کلچرل مسائل۔
ان میں سے جو بھی ملک کا صدر منتخب ہوگا وہ اگلے چار برسوں میں امریکی حکومت کے خد وخال کو اپنے اپنے طریقے سے ڈھالنے کی کوشش کرے گا۔ نہ صرف حکومت بلکہ وفاقی عدالتوں پر بھی نئے صدر کا اثر و رسوخ ہوگا اور ان تمام چیزوں سے آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوں گی۔
رپبلکن پارٹی ایک دہائی قبل آج کی رپبلکن پارٹی سے بہت مختلف تھی۔ اس کے حامیوں کی بڑی تعداد متوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔
- امریکہ میں امیگریشن، ویزا پالیسی کے حوالے سے کملا بہتر ہوں گی یا ٹرمپ: خدشات اور امیدوں کے بیچ پھنسے پاکستانی کیا سوچ رہے ہیں؟
- امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے یا کملا ہیرس: ہمیں کب تک معلوم ہو پائے گا کہ کون جیتا کون ہارا؟
ڈیموکریٹک پارٹی ہمیشہ سے ہی نوجوان اور غیر سفیدفام ووٹرز پر زیادہ انحصار کرتی آئی ہے، لیکن آج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا انحصار مالدار طبقے اور کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد پر زیادہ ہے۔
اس انتخاب کا نتیجہ ہمیں یہ بتائے گا کہ امریکی سیاست میں مزید کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ رپبلکن پارٹی کو صدارتی الیکشن جیتنے سے روکنا ناممکن ہے کیونکہ وہ مسلسل کافی ریاستوں میں الیکشن جیت کر وائٹ ہاؤس فتح کرتے آ رہے تھے۔
لیکن کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان صدارتی انتخاب اب 50:50 معاملہ لگتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ اب امریکہ کی سیاست ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔
امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے ایک چھوٹے سے قصبے ڈکسول نوچ سے پہلا انتخابی نتیجہ موصول ہو گیا ہے، جس کے مطابق کملا ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان مقابلہ برابر رہا۔
ڈکسول نوچ میں مقیم کمیونٹی میں آدھی رات کو ووٹ ڈالنے کی روایت ہے تاہم نتیجے کے مطابق یہاں کملا ہیرس کو صرف تین جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی تین ہی ووٹ پڑے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع ہونے کے بعد کملا ہیرس کا سوشل میڈیا پر ووٹرز کے لیے پہلا پیغام سامنے آ گیا ہے۔
کملا ہیرس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’امریکہ، اپنے آوازیں سُنانے کا یہی لمحہ ہے۔‘
ان کے مدِمقابل امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹنگ کی ابتدا کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ نہیں کیا ہے۔ تاہم تقریباً تین گھنٹے پہلے انھوں نے ٹرُتھ سوشل پر لکھا کہ ’گھر سے باہر نکلنے اور ووٹ کرنے کا وقت آ گیا ہے، ہم امریکہ کو دوبار عظیم بنا سکتے ہیں۔‘