ادارہ سنگر
خیربخش مری کا جنم28فروری1929ءبروزبدھ نواب مہراللہ خان مری کے ہاں کوہستان مری کے صدرمقام کاہان میں ہوا۔
خیربخش نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاﺅں کاہان کے مقامی سکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد گرائمر اسکول کوئٹہ اور باقی تعلیم ایچی سن(چیف) کالج لاہور سے حاصل کی۔
1941ءکی دہائی میں جب خیربخش ایچی سن کالج میں زیرتعلیم تھے تو ان کے ساتھ شہید نواب اکبرخان بگٹی، سردار شیربازخان مزاری اور مرحوم احمد نوازبگٹی بھی اسی کالج میں پڑھتے تھے۔ اتفاق سے شیربازخان مزاری اور خیربخش کالج کے ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں قیام پذیرتھے۔
سردار شیربازخان مزاری کے مطابق کالج میں خیربخش بہت ہی شرمیلے، تنہا پسند اور دیگر طلباءسے الگ تھلگ رہتے تھے۔ اپنے لئے بہتر اور اچھے سے اچھے لباس کا انتخاب کرکے زیب تن کرتے تھے اور گاہے بگاہے آئینے میں دیرتک اپنا چہرہ دیکھتے گویا خیربخش اپنے ہی عشق میں مبتلا تھے اسی اعتبار سے وہ مشہور ہوئے اور کالج میں پہچانے جانے لگے تھے۔ اس زمانے میں انتہائی مذہبی بن گئے تھے۔ باقاعدگی سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ مذہبی ہونے کے باعث ان کی شلوار مولویوں کی طرح ٹخنوں تک اوپر چڑھی ہوئی تھی۔ جمعہ کے روزجمعہ پڑھنے کی تیاری میںو اش روم میں زیادہ وقت لگاتے تھے۔ غالباََ اسی عادت کے کارن اس عمرمیں بھی نہانے میں زیادہ وقت لگاتے ہیں۔
خیربخش سنیما دیکھنے بھی جایا کرتے تھے ان کا دھیان امریکہ کی طرف تھا۔ اس لئے امریکن فلمیں زیادہ دیکھا کرتے تھے۔ چونکہ امریکن فلموں میں اکثر جنگی اور ظلم وجبر پر مبنی مناظر دکھائے جاتے تھے اور باوردی فوجی جہاں جاتے تباہی مچاتے،قتل عام کرتے، لوگوں کا مال متاع لوٹتے۔ ان فلموں سے ان کی ذہنی کیفیت میں تبدیلی آئی۔ ان کے ذہن میں امریکہ کے بارے میں خدشات پیداہونے لگے اور باوردی فوج کے خلاف نفرت سی پیدا ہوگئی۔ دراصل وہ امن اور مصالحت کے داعی تھے۔ا نسانوں کے درمیان امن وآتشتی چاہتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ان دنوں ان کا نظریہ ءفلسفہ ان کی عاجزانہ زندگی میں عیاں تھا۔ اگر راستے میں کوئی کیڑا، چیونٹی یا رینگنے والا کوئی بھی جاندار ان کے سامنے آجاتا تو وہ اُسے اٹھا کر راستے سے ہٹالیتے تاکہ پاﺅں تلے مسل نہ جائے۔ (وہ آج بھی اپنی اس عاجزی پرقائم ہیں) کراچی میں ایک ملاقات کے موقع پر ایک ننھی سی چیونٹی ان کے قمیض پر چل رہی تھی جب اسے ہٹانے کے لیے ہا تھ بڑھایا تو فوراً ملاقاتی سے کہا کہ اسے جان سے نہیں مارنا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کالج سے فراغت کے کافی عرصہ بعد خیربخش جب سن بلوغت سے نکل کر ایک مارکسسٹ بن گئے تو ان کے اندر ایک غیر متوقع تبدیلی آئی۔
ان کے بدن کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے تھے۔ جگہ جگہ ان پر پیوند لگی ہوتی تھی۔ وہ تمام لوگ جو کالج کے زمانے سے انہیں جانتے تھے وہ ان کی اس تبدیل شُدہ صورتحال کو قطعاً قبول کرنے کے لئے تیارنہیں تھے۔ان دنوں خیربخش کی ذہنی، فکروخیالات کی کیفیت یہ تھی کہ بلوچ کو کس طرح مارکسی نظریات کے تحت منظم کیا جائے۔ فرسودہ خیالات کے حامل بلوچ قبائل کو کس طرح نیشنلزم کی جانب راغب کیا جائے اور آخری دم تک اسی نظرئیے پررہے۔
نواب بگٹی کا کہنا تھا کہ میں جب اپنے بیٹے سلیم بگٹی کو ایچی سن کالج داخل کرانے گیا تو وہاں کے ایک پُرانے استاد سے میرا سامنا ہوا ۔مجھ سے خیربخش کے بارے میں پوچھا کہ وہ مولانا کیسے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ مولانا اب مولانانہیں رہے۔
خیربخش مری شیرخواری کی عمرمیں والدہ اور انتہائی کمسنی میں اپنے والد کے سائے سے محروم ہوگئے۔ اپنے والد محترم نواب مہراللہ خان مری کی وفات کے بعد قبیلے کے سردارنامزد ہوئے۔ کمسن اور زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے اس وقت ان کے چچا دوداخان مری کو قبیلے کا نگران سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دوران خیربخش مری اپنے چچا دوداخان کے ہاں یا لاہور میں قیام کرتے تھے۔ اس زمانے میں والدین کا سایہ سرسے اُٹھنے کے باعث خیربخش اور ان کا چھوٹا بھائی قیصر خان مری عالم یتیمی میں تھے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پچاس کی دہائی میں نوجوان خیربخش تھری پیس سوٹ میں ملبوس اپنی دوسیٹوں والی لال رنگ کی مہنگی شیورلیٹ کار جس کی سیاہ چھت اوپر کی طرف کھلتی تھی میں بیٹھ کر کوئٹہ کی سڑکوں پربے پرواہ تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے نظرآتے تھے اور سہ پہر کے وقت کوئٹہ جیم خانہ واقعہ پرنس روڈ پر یا کوئٹہ کلب چھاﺅنی میں دوستوں(اُمرائ) کے ساتھ اسکوائش کھیلنے جاتے۔
اُن دنوں خیربخش عملی سیاست اور اس کی پیچیدگیوں سے بے نیاز تھے۔کوئٹہ شہرمیں ان کے پاس اپنا ذاتی گھرنہیں تھا۔ وہ اپنے چچا دوداخان کے ساتھ ےا جیل روڈ ہدہ پر اپنی سوتیلی ماں کے پاس رہا کرتے تھے۔ جب سبی جاتے بھی انہی کے ہاں ٹھہرتے۔ان دنوں سردارخیربخش مری انتہائی خوبصورت ، توانا اور جوانی کے جوبن پر تھے۔ کوئٹہ، سبّی اور کبھی کراچی گھومتے۔ لیکن اس نے خود کو جمالیات ، زُلفوں کی اسیری اور چمک سے دُوررکھا۔ ان کے خیال میں یہ دونوں لذتیں ضرورت بن کر انسان کی کمزوری کا باعث بن سکتی ہیں اس لئے خیربخش شراب نوشی اور تمبا کونوشی سے پرہیز کرتے ہیں ۔
نواب مہراللہ خان کا خاموش طبع بیٹا سردارخیربخش مری شاید اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ ایک بڑے اور بہادرقبیلے کے روحانی دیوتا ہیں ۔ وہ اپنے قبیلے سے دُور شہروں میں پلے بڑھے، شہروں میں تعلیم حاصل کی اور شہروں میں اپنے لئے دو ست بنائے۔ وہ شاذونادر ہی کوہلو کاہان جاتے۔ اکثر کوئٹہ اور سبّی میں رہتے۔ جب سبّی میں ہوتے تو سینکڑوں کی تعدادمیں مری قبیلے کے افراد اپنے مسائل لے کر ان کے پاس آجاتے۔ ایسا موقع اکثر سال میں ایک بارماہ فروری میں سبّی میلے کے وقت دیکھنے کو ملتا۔ سردار مری گول دائرہ بنا کر ان کے مسائل سنتے، وہ چاہتے تھے کہ قبیلے کے افراد اپنے مسائل بیان کریں۔ ان پر بحث کریں۔ خوداور مقدموں کی باہمی رضامندی سے مسائل کا مناسب حل تلاش کریں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ خود قبیلے کے افراد پر اپنا شخصی فیصلہ مسلط کرنا نہیں چاہتے تھے۔ دراصل وہ اس نظام کو سیکھنے کے عمل سے گزررہے تھے۔ وہ سرداری نظام کے طفیل ماضی کی ظالمانہ روایات واقدامات مثلاََ سرداری ٹیکس، نجی عقوبت خانے، سزائیں دینا اور جرمانے عائد کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
مری قبیلے میں صدیوں سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ قبیلے کے افراداحتراماً سردار کے آگے جُھک کر سردار کے پیرپکڑتے ۔سردار کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑکر چومتے تھے لیکن سردار خیربخش ان روایات کو انسانیت اورقبیلے کی تذلیل سمجھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مری قبیلے کے افراد کسی ایک شخص کے آگے جھکنے کی بجائے سراُٹھا کر جئیں ابتداءمیں ان کے اپنے دورسرداری میں بھی قبیلے سے سرداری ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور قبیلے کے افراد پر جرمانے لگائے جاتے تھے۔ ان کا مقررکردہ نائب قبیلے سے جرمانے وصول کرتا تھا ذاتی جیل بھی قائم تھے۔سیاہ کاری کے معاملے میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کی جاتی تھی۔لیکن بہت ہی کم عرصہ میں سردارمری کو ورثے میں ملی ان فرسوہ روایات اور ناانصافیوں کا احساس ہوا۔ اب اپنے لوگوں کو زیادہ عرصہ تک اندھیرے میں رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ قبیلے کے مزاج کے مطابق بتدریج قبیلے کو جمہوری اور معاشی رعایتیں دینے لگے۔
1955ءمیں قیام ون یونٹ کے فوری بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے سردارخیربخش مری نے پہلی بار آزادحیثیت سے ضلع سبّی سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوگئے ۔مگر ان کی حیثیت اسمبلی میں غیرجماعتی وغیرسیاسی ممبرکی تھی۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنی سیاسی منزل کا تعین نہیں کیا تھا۔ خیربخش اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کراچی چلے گئے۔ اجلاس میں جب ون یونٹ کی قرارداد منظورہوئی تو خیربخش نے قراردادکی مخالفت نہیں کی ماہنامہ” زمانہ بلوچی“ اپریل ،مئی2004ءصفحہ 12کے مطابق سردارخیربخش مری، شہید نواب اکبرخان بگٹی، مولوی غلام محمد ہوت اور مکھی محمد بلیدی نے ون یونٹ کی حمایت کی تھی۔ لیکن جلد ہی اس حمایت سے دستبردار ہوئے۔
اس دوران خیر بخش ایک پارلیمانی وفدکے ہمراہ سوویت یونین کا دورہ کیا اور اس موقع پر روسی صدر مارشل بلگان اور سابق وزیر اعظم خرو چیف سے بھی ملاقات کی 1955ءمیں جب قومی اسمبلی تشکیل دی گئی تو اس میں برٹش بلوچستان کے لئے ایک نشست مخصوص کی گئی پھر یہ نشست بھی خان عبدالغار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کود ی گئی ۔شہید اکبرخان بگٹی نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ لیکن بگٹی کی کسی نے نہ سُنی اس احتجاجی مہم میں سردار مری نے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ جب نواب بگٹی ایک وفد لے کر ڈاکٹرخان کے پاس گئے تو اس وفد میں بھی سردار مری شامل نہیں تھے۔ نواب بگٹی جب ڈاکٹر خان کے مقابلے میں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرانے گئے تو اس موقع پرخیربخش ان کے ساتھ نہیں گئے۔ان کی عدام دلچسپی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس زمانے میں سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کرتے تھے۔
1958ءمیں سردار خیربخش مری اور شیرمحمد مری کی سردارعطاءاللہ مینگل سے وڈھ کے مقام پر اس وقت پہلی ملاقات ہوئی جب سردار مری اور شیرمحمد مری خان قلات میراحمد یار خان کا پیغام لے کر سردار مینگل کے ہاں گئے اور یہیں سے ان دوبلوچ سرداروںکا آپس میں تعلقات کا آغاز ہوا۔
6اکتوبر1958ءکو پاکستان کی فوج بلوچستان کے مرکز قلات میں داخل ہوئی اور خان قلات کو گرفتار کرلیا۔ بلوچستان پرفوج کشی ہوئی، خان کی گرفتاری اور سیاسی رہنماﺅں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا نوجوان خیربخش مری پرگہرا اثر ہوا اور وہ سخت آزمائش میںپڑگئے۔ مگر اس موقع پر وہ لوگوں کو صرف تسلیاں دیتے رہے۔ خیربخش مری نے نواب نوروزخان کے ساتھ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک پر ہونے والے عہدوپیمان اور نواب نوروزخان سے ہتھیار ڈالوانے کا منظر دیکھا۔ 15جولائی1960کو نواب نوروزخان کے بیٹے اور چھ(6)بلوچوں کو پھانسی کے تختہ دار پر جھولتے بھی دیکھا۔
شہداءکی لاشیں جب حیدرآباد اور سکھر سے سڑک کے راستے بلوچستان لائی جارہی تھی تو اس وقت سردار مری اپنے ساتھیوں سمیت ڈھاڈر کے مقام پر صف اول پرکھڑے تھے اور کوئٹہ تک لاشوں کے ساتھ سفر کیا۔ کوئٹہ سے باہر جانے پرپابندی کی وجہ سے شہداءکی تدفین میں شرکت نہ کرسکے جس کا انہیں شدید ارمان تھا۔ اس موقعہ پر خیربخش مری نے کہا کہ نواب نوروزخان کو ایک انڈے کے مطالبے پر اتنی بڑی سزاملی ہے تو پھر پورے پولٹری فارم کا مطالبہ کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچوں کی جدوجہد قبائلی تھی آج سے سیاسی رُخ اختیار کرتی چلی جائے گی ۔
آغا عبدالکریم کی بغاوت اس کا پہلا عملی اظہارتھا ۔گویا اب سردار مری بلوچستان کی سیاست پر نظررکھنے لگے تھے۔ وہ قادر بخش نظامانی ، بلوچ قومی تحریک کے بانی میرعبدالعزیز کرد، گل خان نصیر، ملک فیض محمد یوسفزئی، محمد حسین عنقا، عبدالرحیم خواجہ خیل، نواب یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں کی1922ء،1935ءاور 1947ءتک ”انجمن نوجوانان بلوچان“،”انجمن اتحادبلوچان“ اور قلات نیشنل پارٹی کے قیام تک کی سیاسی سرگرمیوں، تنظیمی طریقہ کار اور ان کی جدوجہد کی حاصلات ، ناکامیوں اور سیاسی حکمت عملی پر غوروفکر کرتے تاکہ ماضی کے سیاسی عمل کو سامنے رکھ کر اس کے تناظر میں مستقبل کی سیاست کا تعین کرسکے۔
دراصل خیربخش بلوچ قومی تحریک کو سیکھنے کے عمل سے گزررہے تھے۔ وہ عملی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے کمیٹڈ نظریاتی دوستوں کی تلاش میں تھے جو ان کے موقف سے متفق ہوں۔ ان کے خیال میں مستقبل کی سیاست میں میرغوث بخش بزنجو جس نے پاکستان سے بلوچستان کے الحاق کی مخالفت کی تھی۔ آغا عبدالکریم خان احمد زئی جس نے بلوچستان کے جبری الحاق اور قبضے کے خلاف بلوچ نیشنل لبریشن اسیوسی ایشن کے نام سے پہلی بلوچ مسلح مزاحمتی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ سردارعطاءاللہ مینگل اور نواب اکبرخان بگٹی جو قبائلی اور سیاسی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے بہتر سیاسی ہمسفر اور معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
1961ءکی دہائی میں جب نواب بگٹی قیدسے رہا ہوئے تو بلوچستان کی سیاست نے نئی انگڑائی لی۔ سردرا مری، سردار مینگل اور نواب بگٹی سیاست کے میدان خاررازمیں داخل ہوکر میرغوث بخش بزنجو کے رفیق سفربن گئے۔ مگرتینوں سرداروں کا مزاج، اندازِ فکر اور سیاسی نظریات مختلف تھے ۔جبکہ بلوچ اور بلوچستان کے روشن مستقل کا انحصار ان جری سرداروں کی حکمت عملی سے مربوط ہوگیا اور بلوچستان کے سیاسی سفرمیں ان سب نے میر غوث بخش بزنجو کو میرِ کاروان تسلیم کرلیا۔ ان سب نے متحد ہوکربلوچستان کے مخدوش سیاسی معروضات کو سامنے رکھ کر بلوچستان کے حقوق کے لئے زیرزمین کام کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ”آجوئی گل“ کے نام سے خفیہ تنظیم کی بنیادرکھی۔
اور دھرتی ماں کو گواہ بنا کر اپنی مُٹھی میں مٹی اُٹھا کر مقاصد کے اصول تک متحد ہوکر جدوجہد کرنے کا عہدوپیمان کیا۔خیربخش زندگی کے آخری دم تک اپنے اس عہد و پیمان پر قائم رہے۔ یہ مقام خیربخش کی سیاسی زندگی میں مُسرت کا باعث تھا کیونکہ ان کے خیال میں ہم خیال دوست پیدا کرنے کے بعد ایک خفیہ تنظیم کی بنیاد تک رسائی ان کی دوسری کامیابی تھی۔ لیکن اندر سے جو چیز انہیں چُھب رہی تھی وہ اعتماد سازی کا مرحلہ تھا جو ابھی آیا نہیںتھا۔ا گلے دن جب میرغوث بخش بزنجو نے تنظیم سے اپنے لاتعلقی کا اظہار کرکے مُکر گئے تو اس دن سے مری کا اعتماد ٹوٹ گیا۔ تنظیم کے ساتھیوں کے بکھر جانے کے بعدخیربخش ایک مرتبہ پھر تنہا ہوگئے۔ لیکن وہ اتنی آسانی سے اپنے ساتھیوں کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے ان کے ساتھ سیاسی مراسم اور رابطوںکو ماضی کی طرح قائم رکھا۔
1962ءمیں ایوب خان نے مارشل لاءاُٹھا لیا جس کے فوری بعد ڈویژن سطح پر قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کردیا۔ انتخابات ایوب خان کے بنائے ہوئے دستور کے تحت بنیادی جمہوریتوں کے ممبروں کے ووٹوں کے ذریعے کرائے گئے۔ سردار مینگل نے نواب بگٹی اور میرصاحب کے مشورہ سے قلات ڈویژن سے انتخابات میں حصہ لیا۔ پھر ان تین بلوچ رہنماﺅں نے سردار خیربخش مری کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ۔ مری کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کرتے رہے۔ لیکن خیربخش نے انکارکیا ان کا اصرارتھا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ان کے پاس مطلوبہ رقم نہیں ہے۔خیربخش کو منانے کے لئے تین دنوں تک بگٹی ہاﺅس کوئٹہ میں میٹنگیں ہوتی رہیں بالآخر خیربخش ساتھیوں کے اصرار پر انتخابات میں حصہ لینے پرآمادہ ہوئے۔ کوئٹہ ڈویژن سے ان کے کاغذات داخل کئے گئے۔
خیربخش مری اور سردار مینگل دونوں ایوب خان کے بنائے ہوئے بی ڈیB.Dممبروں کے ووٹوں سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوگئے۔بلوچستان کے حالات کے تناظرمیں سارے بلوچستان کی نگاہیں مری اور مینگل پر لگی تھیں۔
جون1962ءکو جب قومی اسمبلی کا پہلا سیشن ہو اتو خیربخش نے اپنی پرجوش تقریر انگریز ی میں کی۔ بلوچستان پر ہونے والے ظلم وجبر کے حوالے سے انتہائی جذباتی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر زبردستی قبضہ اور اپنے وسائل کسی کو لوٹنے نہیں دیں گے۔ ہم سے کہا جارہا ہے کہ ہم سڑکیں بنا کرتمہیں دیں گے۔ یہ ترقی نہیں بلکہ ہماری معدنی دولت کی لوٹ کا وسیلہ ہوگا۔ حکمرانوں کو للکارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تم ہم سے ہتھیار چھین کر ہمیں نہتا کرنا چاہتے ہو۔ ہتھیار جو ہماری عزت کا محافظ ہے ہم کو نہتا کرکے ہم پر گولیاں برساتے ہو۔ ہمارے لوگوں پر بم برساتے ہو۔ ہمارے پانی کے چشموں میں زہرملاتے ہو۔ تمہار اخیال ہے کہ بلوچوں کے پہاڑوں میں تمہارے حکم کے خلاف جوبغاوت کی آگ بڑھک اٹھی ہے اس پر اپنی طاقت سے قابو پالو گے۔ یہ تمہارا خیال غلط ہے ہمار ایک قبائلی تمہارے دس اہلکاروں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ انگریزوں کے بوٹ پالش کرنے والے ہمارے حکمران نہیں ہوسکتے۔
مری کی جرا¿ت بہادری سے حکومتی جبرکے خلاف سخت لہجہ استعمال کرنے پر اسمبلی میں خاموشی چھاگئی ابن الوقت ، چاپلوس اور خوشامد کرنے والے اراکین اسمبلی ان کی تقریر سے سخت متاثر ہوئے۔ بقول اخبار ”ڈان “ کے ایڈیٹر الطاف گوہر کے ،بلوچ سرداروں کی تقریر سے ارکان اسمبلی دم بخود رہ گئے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ قومی اسمبلی کے دوسرے ارکان فرعون کے زمانے کے سادھوﺅں کی رسّی کے سانپ تھے اور بلوچ سردار حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعصاءتھے جو اژدھا بن کر سانپوں کو ہڑپ کررہے تھے۔ اس سیشن کے بعد ایوب خان کی کابینہ کے اہم وزیر مسٹرذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان اور گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ملک امیرمحمد خان کا پیغام عبرت بلوچ رہنماﺅں تک پہنچایا۔ انہیں خبردار کیا کہ وہ حکومت کی مخالفت سے بازآجائیں۔
الطاف گوہر نے سردار خیربخش مری کی تقریر کے خلاف دوقطسوں میں ”ڈان“ اخبار میں اداریہ لکھا تو اس کے عوض ایوب خان نے انہیں اپنی کابینہ میں وزارت سے نوازا۔
صدرپاکستان ایوب خان کا کوئٹہ آنے کے موقع پرایک روزقبل5اگست1962ءکو کوئٹہ میں بلوچ قیادت نے جلسہ عام کا اہتمام کیا بلوچوں اور بلوچستان پر ہونے والے مظالم کے خلاف سخت تقریریں کیں۔6اگست کوایوب خان کوئٹہ آئے اور ٹاﺅن ہال کے سبزہ زار پر مسلم لیگ کے زیراہتمام مسلح افواج کے سخت پہرے میںجلسہ سے خطاب کیا۔ ایوب خان نے بلوچ رہنماﺅں کو غداراور ملک دشمن القابات سے نوازا ۔ اس نے بلوچ قیادت کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور بلوچ سرداروں کو کھلے عام دھمکی دی کہ وہ بلوچوں کو سیدھا کردیں گے، مسل کر رکھ دیں گے۔
7اگست کو بلوچ قیادت نے مالی باغ کوئٹہ میں اپنا جوابی جلسہ منعقد کیا جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بلوچ رہنماﺅں نے صدر پاکستان کی بلوچ دشمن کارروایوں کے خلاف اپنے شدید ردعمل کا اظہارکیا اور حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ایوب خان کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ خیربخش نے اس تاریخی جلسہ سے بلوچی میں خطاب کیا اوراسی طرح16اگست 1962ءکو کراچی ککری گراﺅنڈ لیاری میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جہاں دیگر بلوچ رہنماﺅں کے علاوہ خیربخش نے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے بلوچ عوام پر ہونے والی ریاستی مظالم وزیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ جلسے کا حکومت کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ گورنرکالا باغ کے حکم پر 17اگست کو میرغوث بخش بزنجو اور خیربخش مری کے علاوہ دیگر بلوچ قیادت کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔
میربزنجو اور خیربخش مشرقی پاکستان ڈھاکہ چلے گئے اور وہاں کی بنگالی قوم پرست سیاسی قیادت کو بلوچستان میں ہونے والے ایوبی سفاکیت سے آگاہ کیا اور ان سے سیاسی اور اخلاقی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ واپسی پر جب خیربخش مری کوئٹہ آئے تو کوئٹہ سے10کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ھنہ اُڑک کی مقامی آبادی کے ایک وفد ان کی رہائش گاہ پر ان سے ملا قات کی اور شکایت کی کہ حکومت نے ان کی طرف جانے والی پانی کی ترسیل روک دی ہے اور گذشتہ کئی ہفتوں سے ان کا پانی بند ہے جس کی بندش سے آبادی اور باغات متاثر ہورہے ہیں۔ وہ وفد کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ہنہ اُڑک پہنچ گئے اور چھاﺅنی جانے والی پانی کے پائپ لائن اکھاڑ کر پانی کا رُخ آبادی کی طرف موڑ دیا۔
اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر امجد احمد شیخ نے فوج کے حکم پر سردار خیربخش مری کو اس جرم میں گرفتار کرلیا۔ بعد میں انہیں میرجعفر خان جمالی کی حاضر ضمانتی پر رہائی ملی ،لیکن خیربخش ایک دن بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ حکومت نے اس کی پاداش میں جعفر خان جمالی کو90دنوں کے لئے کوئٹہ بدرکردیا۔اس واقع کے بعد جب تک ایوب خان اقتدار میں تھے خیربخش گرفتارنہیں ہوئے۔ ان کی جائیدداد، زمین ضبط ہوئیں، ان کی سیاسی سرگرمیاں محدود کر دی گیئں، سر کاری چغل خور سائے کی طر ح ان کی نگرانی کر نے لگے ان کی سرداری چھین کر ان کے چچا دودا خان کو انکی جگہ قبیلے کا سردار بنا دیا گیا جسے بعد میں قبیلے کے افراد نے قتل کردیا ۔ لیکن ان تمام ترحربوں اور مذموم ہتھکنڈﺅں کے باوجود خیر بخش ایوب خان کے طاقت کے آگے خم نہیں ہوئے وہ اس لیے بھی حکومت کے نظروں میںتھے کیونکہ خیر بخش واحد بلوچ سردار تھے جو اپنے علاقے سے حکومت کو تیل نکالنے کی راہ میں رکاوٹ تھے ۔
وہ ان دنوں کسی سیاسی جماعت کے ممبر نہیں تھے ۔1964ءمیں جب پاکستان میں صدارتی انتخابات ہوئے تو ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان مقابلہ تھا۔ حزب اختلاف کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے فاطمہ جناح کے حق میں انتخابی مہم چلائی اس موقعہ پر سردار مری نے فوجی ڈکٹیڑ کے خلاف جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد کراچی ڈویژن بلوچ آبادی والے علاقہ لیاری کی قومی اسمبلی کی خالی نشست کے لئے ضمنی انتخابات ہوئے ان دنوں صدرا یوب اور گورنر امیرمحمد خان کے درمیان اختلافات تھے۔
ایوب خان نے اس نشست کے لئے خان بہادر حبیب خان پراچہ کو نامز د کیا جبکہ گورنر میر محمد خان اور محمود ہارون کی مشترکہ رضامندی سے میرغوث بخش بزنجو انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ ہوئے۔ جب خیربخش کو اس کا علم ہوا تو فوراً کراچی چلے گئے اور میرصاحب کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی حتیٰ الوسع کوشش کی مگر میرصاحب نہیں مانے اور انتخابات میں حصہ لیا۔
اس زمانے میں خیربخش مری رشتہ ازدواج میں بندھ گئے ان کی شادی پشین کے قاضی موسیٰ کی دخترسے ہوئی، شادی کے بعد خیربخش کچھ عرصہ کے لئے لٹن(زرغون ) روڈ پر اپنے سُسر قاضی موسیٰ کے ہاں رہے جہاں پراب جنرل ہسپتال قائم ہے۔ بعد میں اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ جیل روڈ پر سکونت اختیارکرلی۔ جس کے بعد کواری روڈ پر کرائے کے مکان میں رہے۔ پھر ارباب کرم خان روڈ پر اپنا ذاتی مکان خریدا۔ اس زمانے میںخیربخش کے پاس لال رنگ کی پک اپ گاڑی تھی ۔وہ جب کوئٹہ سے سبّی جاتے تو راستے میں کبھی کبھی درہ بولان کے مقام کوند لان کی نہرمیں گھنٹوں تک پانی میں نہاتے ، اُن کے ساتھ ان کا نائب (ماسٹر نظیر کے والد) مندے بھی ہوتا تھا ۔سبی میں اپنی سوتیلی ماں کے ہاں قیام کرتے جہاں ان کے لئے باقاعدہ چند کمروں پر مشتمل حویلی خالی کی جاتی تھی۔ خیربخش کی سوتیلی ماں خیربخش کو بیٹے جیسا پیاردیتی اوران سے مہرمحبت سے پیش آتی تھی اس نے خیربخش کو کبھی اور کسی موقعہ پر بھی یتیم ہونے کا احساس ہونے نہیں دیا۔
سردارمری لڑاکا مُرغے پالنے کے بڑے شوقین تھے جب کو ئٹہ سے سبی کے دورے پر چلے جاتے تو وہاں اُمراءاور صاحب حیثیت لوگوں کی صحبت میں رہنے کی بجائے اُن عام لوگوں کے قریب رہنے کو ترجیح دیتے جن کو صاحب حیثیت حضرات حقیر اور کم تر جان کر ان سے نفرت کرتے تھے۔ سردار مری ان میلے کُچلے کپڑوں میں ملبوس حقیروں کے ساتھ گُھل مل جاتے اور رات گئے تک ان سے گپ شپ کرتے۔ جن میں لوہار، خانسامہ، ٹانگے بان، مالی، چوکیدار اور محنت مزدوری کرنے والے افراد شامل تھے۔مولا داد، نذیر، بھوٹا نورمحمد جوکُتّے اور اعلیٰ نسل کے مرغ پالنے کے شائقین تھے ۔
یہ آپس میں لڑاکا نسل کے مُرغوں اور بُلڈاگ نسل کے لڑاکاکُتوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے۔ مرغوں کی نسل کو سندھ اور ہندوستان کے مرغوں کی نسلوں سے جوڑتے اور کتوں کی نسل کو افغانستان کے اعلیٰ نسل کے کتوں سے مشاہبت دیتے۔ ان کی گپ شپ مرغوں اور کتوں کے باپ داد اور پر دادوں کی نسلوں تک جاپہنچتی اور ان کے رکھے گئے نام بھی زیر بحث لائے جاتے۔ ان بے ربط بولنے والوں جن کی اکثریت عام محنت کش طبقے سے تھی جونواب مری کو اپنے درمیان پھاکر خوش تھے جو اپنے مُوڈ (طبیعت)کے مطابق اونچی آوازاور کبھی نرم آوازمیں ان سے گفتگو کرتے اور قہقہے لگاتے تھے۔ کم گواور دھیمی آوازمیں بولنے والا خیربخش کس طرح ان سے پیش آتے اور انہیں کس طرح ڈیل کرتے۔
یہ درویش النفس سردار خیربخش ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ (خیربخش کا کہنا ہے کہ میں نے غریبوں میں رہ کر خود کو ڈی کلاس کرنے کی بارہا کوشش کی مگر اس میں ناکام رہا) خیربخش مری کے یہ دوست جن میں میرسلطان خان بنگلزئی کو چھوڑ کر ایک بھی نوابزادہ یا سردارزادہ نہیں تھا سب عا م لوگ تھے۔ صرف مرغوں اور کتوں کے شوق تک ان کی دوستی محدودنہیں تھی بلکہ اس دوستی کو مزید وسعت دینے کے لئے خیربخش نے ان پر مشتمل گلی ڈنڈے کی دوٹیمیں تشکیل دیں ان سب کو اپنی گاڑی پک اپ میں بٹھا کر سبی سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ناڑی گاج(ندی) پل کے ساتھ کُھلے میدان میں گُلی ڈنڈا کھیلنے جاتے۔
خیربخش بھی کسی ایک ٹیم میں شامل ہوجاتے روز سہ پہر گلی ڈنڈا کھیلنے جاتے۔ ایک میٹر لمبے ڈنڈے اور آٹھ انچ کی گلی سے کھیلتے تھے۔مری کو بھی کئی میٹر گلی کے پیچھے دُور دُورتک رُلنا پڑتا تھا اور و ہ پسینے سے شرابور ہوجاتے۔
خیربخش جب کوئٹہ میں ہوتے تو یہاں پر بھی لڑاکا کتوں اور مرغوں کے شائقین ان کے اردگرد جمع ہوجاتے۔ اتوار والے دن ریچ یا چرغ کے ساتھ کتوں کو لڑایا جاتاتھا ۔ خیربخش اپنی گاڑی میں بیٹھ کر تماشہ دیکھتے اور خوب مزے لوٹتے۔مری کے مرغوں کے نام اکثر فوجی ناموں (کرنل ،جنرل، میجر،برےگےڈےر) سے منسوب ہوتے تھے۔
مرحوم سردار شوکت علی ترقی پسند خیالات کے حامل دانشور اور سیاستدان تھے اپنی کتاب ”کابل کا سفر“ میں لکھتے ہیں کہ کابل میں سردارخیربخش کے دعوت پر ہم ان کے ہاں کھانا کھانے گئے تو اس دوران خیربخش مرغوں کی نسلوں اور ان کے لڑنے کے ہنر پر اتنا بولتے رہے کہ دسترخوان پررکھے ڈو نگے میں مجھے مرغوں کی ٹانگیں آپس میں لڑتے ہوئے لگ رہی تھیں اور سردار صاحب ان مرغوں کے نام بھی بتاتے،جو کرنل،جنرل،میجراوربریگیڈیر کے ناموںسے منسوب تھے) دراصل مرحوم سردارشوکت علی خیربخش کو نہیں سمجھ سکے۔خیربخش اپنے بارے میں ان متوقع سوالات سے خود کو بچانا چاہتے تھے جو مرحوم سردارشوکت علی ان سے کرنا چاہتے تھے۔
جن کا جواب مری دینا نہیں چاہتے تھے۔ مثلاً لندن اور فرانس میں کن انٹرنیشنل تنظیموں سے آپ کی ملاقات ہوئی، کس نے کتنا رسپانس دیا، افغان حکومت آپ کی کیا مدد کررہی ہے، مستقبل کا کیا ارادہ ہے، اور کابل میں کب تک رہنے کا ارادہ ہے وغیر وغیرہ۔
1969ءمیں سردار خیربخش مری نے پاکستان کی ترقی پسند قوم پرست سیکولر سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوکر باقاعدہ اپنی عملی سیاسی زندگی کا آغاز کردیا انہیں نیپ کی مرکزی مجلس عاملہ کا ممبر چُناگیا ۔انوں نے 1970 ءمیں چارسدہ کے ولی باغ میں نیپ کے مرکزی کنونشن میں مندوب کی حیثیت سے شرکت کی اور قومیتوں کے مسئلے پر نیپ کے آئین میں ترمیم کے وقت اختلاف کیا۔
28مارچ1970ءکو جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کردئیے سیاسی جماعتوں اور سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں ختم کرکے اور عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ صوبے بحال ہونے کے بعد خیربخش مری نیپ بلوچستان کے صوبائی صدر بنا دئیے گئے۔ خیربخش نے خود کو نیپ میں شامل بائیں بازُو کے بلوچ پشتون روش خیال قوم دوست حلقے مرحوم قادر بخش نظامانی، عبداللہ جان جمالدینی، مرحوم لال بخش رند، مرحوم بابوعبدالحق محمد شہی، مرحوم صادق کاسی، مرحوم ملک عثمان کانسی، مرحو م ہاشم خان غلزئی اور مرحوم زمرد حسین کے قریب رکھا۔ خیربخش ساتھیوں کے صلاح مشورہ سے پارٹی کا اجلاس طلب کرتے اورخوداجلاس کی صدارت کرتے۔
انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مساوی اور جمہوری رویہ رکھا ۔بقول ملک عثمان کانسی اجلاس کے دوران خیربخش خاموش رہتے۔ ممبران باہمی طورپر عوامی وپارٹی مسائل اور سیاست پر بحث اور فیصلے کرتے۔خیربخش ہمارے فیصلوں سے اتفاق کرتے اور کارروائی رجسٹر پر دستخط کرتے۔ خیربخش ہمیشہ اور ہروقت پارٹی کارکنوںمیں گُھل مل جاتے اور ہروقت کارکنوں میں رہتے ان سے سیاسی مسائل پربحث ومباحثہ کرتے، عوام تک پارٹی پروگرام پہنچانے کے لئے عوامی رابطہ مہم چلاتے۔ اس نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو منظم کیا۔بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان مثالی اتحاد قائم کیا اور پارٹی کارکنوں کی دلجوئی کی خاطر ان کے ساتھ جوڈوکراٹے بھی کھیلتے رہے۔
پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کہتے ہیں کہ خیربخش کی شخصیت ان دنوں سیاسی کارکنوں کے لئے مقناطیسی قوت رکھتی تھی۔ ایک تو وہ نہایت خوبصورت تھے۔ ان کی گفتگو کا اندازنرم اورمسحورکُن تھا۔ ا ن دنوں انہیں کے بی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
ایک دفعہ جب وہ ہماری دکان (چلتن میڈیکل اسٹور) پرآئے تو میں ان کے قریب بیٹھ کر ایسا محسوس کررہا تھا کہ بس کسی ایسی شخصیت کے قریب ہوںجو مجھے اعلیٰ اور ارفع خیالات اور بلندی کی جانب لے جارہا ہے۔ یقین جانئےے کہ میں ان سے بے حد متاثر ہورہا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ خیربخش جب انگریزی فلم دیکھنے ریگل سنیما جاتے تو بعض دفعہ ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ ہم ان کے ساتھ گیلری میں بیٹھ کر فلم دیکھتے۔ فلم شروع ہونے سے قبل پردے پرپاکستانی پرچم لہرایا جاتا تھا۔ جس کے احترام میں سارا ہال اٹھ کھڑا ہوتا لیکن خیربخش اپنی نشست پر بیٹھے رہتے اس وقت ہمارے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ہم کیا کریں ان کا ساتھ دے کر اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہیں یا پرچم کے احترام میں کھڑے ہوں۔ لیکن ہم اکثر ان کا ساتھ دے کر اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہتے۔
خیربخش مری کی سیاسی بصیرت، ان کی دوراندیشی اور پُرکشش تقریروں کی وجہ سے انہیں عوام میں زبردست پذیرائی حاصل تھی ان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس وقت ہو اجب وہ1970ءکے انتخابات میں قومی وصوبائی دو حلقوں سے بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا حلقہ انتخاب ایرانی سرحد تفتان سے کوئٹہ، سبّی ،نصیرآباد تک7سو میل پر پھیلا ہو اتھا۔ جہاںسے ایک لاکھ تیرہ ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ا سی طرح صوبائی اسمبلی حلقہ پی بی2 کوئٹہ سے بھاری ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ70ءکے انتخابات میں انہوں نے صرف اسی مقصد کے تحت حصہ لیا کہ بلوچوں پر عملی طورپر یہ ثابت ہوسکے کہ پارلیمنٹ ان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
خیربخش مری اپنے انتخابی مہم کے دوران عوام کو واسطہ دے کر ووٹ کی بھیک نہیں مانگتے تھے بلکہ اپنے اندر کے خیربخش کے موقف اور ارادوں کا پرچار کرتے تھے۔ ان کے خیال میں عوام کو درست سمت دینے کا یہ ایک بہتر موقع ہے۔ جو انہیں میسرآیا ہے اس وقت و ہ صوبہ جاتی خودمختاری سے بڑھ کر قومی حق حاکمیت کی مانگ کرنے لگے تھے۔ وہ نوجوانوں میں ریڈیکل رہنما کے طور پر جانے پہچانے لگے تھے اپنی تقریروں کے دوران زیادہ دیرتک روانی سے بولتے تھے اور جو بولتے وہ پُرمغز اور فلسفیانہ گفتگو ہوتی۔
ان کی تقریروں سے سچّائی پھوٹتی تھی۔پارٹی دفتر واقعہ اینگل روڈ قاضی بلڈنگ آتے تو پارٹی کارکن اور نوجوان طلباءانہیں اپنے حصار میں لیتے۔ ان سے سوالات کرتے۔ خیربخش میڈیا اور تصویر بنوانے سے خود کو دُوررکھتے تھے۔ خیربخش سخت متحرک تھے اپنے سینے پر لینن اور ماﺅ کا بیج لگایا کرتے تھے۔ پارٹی کے چیدہ چیدہ کارکنوں اور نوجوانوں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لئے اسٹڈی سرکل لیتے تھے۔ ان کی ان سرگرمیوں سے عیاں ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے ایک مقصد پوشیدہ ہے۔
کوئٹہ میں نیپ کے زیراہتمام احتجاجی جلسوں کی قیادت کرتے۔ اپنے سیاسی رفیق سردار عطاءاللہ مینگل اور میرصاحب کے شانہ بشانہ نظرآتے تھے۔ ان دنوں پاکستا ن میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے طاقتور وزیراعظم تھے۔پیپلز پارٹی کی حکومت اور نیشنل عوامی پارٹی کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ ایک دن ریگل سنیما(موجودہ ریگل پلازہ) کے سامنے نیپ اور پی پی پی کے کارکنوں کے درمیان مخالفانہ نعرہ بازی ہوئی جو بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے پر پتھراﺅ اور تصادم کی شکل اختیار کرگئی۔ اسی اثناءمیں خیربخش بھی اتفاق سے وہاں پہنچ گئے اور صورت حال کا پتہ چلا کر دیگر سیاسی قائدین کی طرح دور کھڑے ہوکر نظارہ نہیںکیا بلکہ کارکنوں کی لڑائی میں شامل ہوگئے۔
کارکنوں کے منع کرنے کے باوجود مخالفین پرسنگ باری کرتے رہے اس دوطرفہ سنگ باری میں ان کو کہیں سے بھی کوئی پتھر آکرلگ سکتا تھا۔ لیکن انہیں اس کی قطعاً پروا نہیں تھی ۔ خیربخش دشمن کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اور دوست کو دوست کی نظر سے۔( ان کا کہنا ہے کہ دشمن چھپ کر آتا ہے کبھی نام بدل کر اور کبھی بھوت بن کر بھی آتا ہے) کے بی اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنے سخت جان لڑاکا مرغوں کے لئے بھی وقت نکالتے تھے اور شام کے وقت بروس (موجودہ جناح) روڈ پر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے رفیق صادق کاسی کے ساتھ گھنٹوں گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے تھے۔ جب تک وہ اپنی گفتگو ختم کرکے گھر نہیں جاتے خفیہ اہلکار ان کی نگرانی کرتے۔
1970ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان میںنیپ اور جمعیت کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ کافی لیت ولعل کے بعد بالآخر یکم مئی1972میں سردار عطا اللہ مینگل کی قیادت میں بلوچستان میں نیپ اور جمعےت کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر سردار مری ذاتی طورپر عطااللہ مینگل کے حکومت بنانے سے ناخوش تھے۔ اس لئے انہوں نے وزارت میں جانے سے پارٹی کی صدارت کو ترجیح دی۔1973ءکے آئین کا مسودہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاس ہوا تو خیربخش مری نے قومی اور حق حاکمیت کے مسئلے پر 73ءکے آئین پر دستخط نہیں کئے اور اپنے رشتہ دار رُکن قومی اسمبلی جنیفر موسیٰ اوررکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو بھی آئین پر دستخط کرنے سے منع کیا۔ بھٹو رجیم نے بے شمار الزامات لگا کرنو(9) ماہ بعد13فروری1973ءکو مینگل کی مخلوط حکومت کو برطرف کردیا اور بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ کرکے نواب اکبرخان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر نامزد کردیا۔ بھٹو کے اس غیر جمہوری اقدام کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی نے تحریک چلائی، احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کیں۔
شہری لڑائی نے پہاڑوں کا رُخ کرلیا۔ اس موقع پر خیربخش نے کہا کہ میں بھٹو ٹولے پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دشمن کو بلوچستان کے پہاڑوں میں دفن کردیں گے۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے قومی، سیاسی اور جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا اور آخری فتح تک بلوچستان کے ایک ایک انچ کی حفاظت کے لئے لڑیں گے۔ بلوچستان میں فوج تعینات کرکے ٹکا ، بھٹو اور قیوم ٹولہ خوفناک نتائج سے نہیں بچ سکیں گے۔ بلوچستان چاربرس تک آگ اور خون میں جلتا رہا۔ بلوچو ں اور پاکستانی فوج کے درمیان اس معرکہ آرائی میں مری بلوچوں نے باقاعدہ زیرزمین تنظیم(B.P.L.F)بلوچ پیپلز لبریشن فرنٹ کے تحت منظم لڑائی لڑی۔زیادہ تکالیف ومشکلات کا سامنا کیا۔ قربان ہوئے۔ جس سائنٹفک حکمت عملی سے اپنی لڑائی لڑی ، مدمقابل فریق کو اس کا اندازہ ہوگیا کہ اس کی لڑائی سروں پر پگڑی باندھنے اورچہرے پر لمبی داڑھی رکھنے والوں سے نہیں بلکہ ان کے پیچھے چُھپے ایک ذہن سے ہے۔
بلوچستان کی صورتحال اور بھٹو کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے پاکستان نیشنل الائنس (P.N.A)قائم کیا۔ نیپ جو اس وقت حکومت کے زیرعتاب تھی، پی این اے میں شامل ہوئی۔ پی این اے پاکستان کی جاگیرداروں ، صنعت کاروں، مذہبی جماعتوں، علماءاور ریٹائرڈ فوجی افسروں کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل بھٹو کے خلاف ایک اتحا دتھا۔ جسے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی آشیرآباد حاصل تھی مقصد یہ تھا کہ بلوچستان میں جاری مسلح مزاحمتی تحریک جس کے گرد لوگ اکٹھے ہورہے تھے۔ اسے کسی نہ کسی طرح سے سبوتاژ کیا جاسکے۔ پی این اے کی تحریک کا فوکس عطااللہ مینگل کی حکومت کی بحالی نہیں بلکہ بلوچستان تھا۔ پی این اے نے پاکستان گیر پیمانے پر جلسے اور احتجاجوں کے سلسلوں کا آغاز کردیا۔ پی این اے کی تحریک پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ تک جاری رہی۔ کوئٹہ میں پی این اے کا جلسہ لیاقت پارک میں ہوا۔ جس میں مرحوم ولی خان، مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان، مرحوم میاں طفیل، پروفیسر غفوراحمد، مرحوم غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، مرحوم مولانا مفتی محمود اور حزب اختلاف کے دیگر رہنما شریک ہوئے۔خیر بخش مری نے جلسہ کی سیکورٹی کا انتظام خود سنبھالا ۔
کے بی اپنی لینڈ کروزر جیپ جس کے چاروں اطراف میں لوہے کی حفاظتی جالیاں لگی ہوئی تھیں۔ اپنے دوبیٹوںا ور دومحافظوں جو ہتھیار بند تھے جیپ کے پچھلے حصے میں بٹھا کر خود ڈرائیونگ کرکے جلسہ گاہ کے گرد چکرلگا تے رہے۔ جلسہ کے دوران بلوچ ورنا کے چیئرمین قطب خان لہڑی نے اپنے چار مسلح ساتھیوں کے ساتھ کارمیں قندھاری بازارکی جانب سے تیز رفتاری سے جلسہ گاہ کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔لیکن خیربخش انہیں دیکھتے ہی تیزی سے ان کی جانب بڑھے۔ قطب خان لہڑی خیربخش کی گاڑی اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر زرغون روڈ کے راستے سیدھے گورنرہاﺅس میں داخل ہوگئے۔ کے بی نے گورنر ہاﺅس تک ا ن کا پیچھا کیا۔
14جولائی 1973کو کے بی نے سبّی کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کیا اور دوقومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے قومیتوں کی بنیا دپرصوبوں کی ازسرِ نو تشکیل پرزوردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی علیحدہ ثقافت، تہذیب ، زبان اور تاریخ رکھتے ہیں۔
31جولائی1973کو ایوب (موجودہ نواب نوروزخان) اسٹیڈیم کوئٹہ میںپی۔ این اے کی صوبائی قیادت کا احتجاجی جلسہ ہوا۔ جلسہ سے سردار خیربخش مری نے بھی خطاب کیا ان کی تقریر اتنی سخت تھی کہ پی این اے کے مولوی تقریر کے دوران بار بار کھڑے ہوکر اسلام زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ خیربخش کا کہنا تھا کہ بلوچستان ایک علیحدہ ریاست (ملک)تھا نہ کہ پاکستان کا حصہ۔انہوں نے حکومت کو تنبہہ کی کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی سے بازآجائے دوسری صورت میں عوام حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے بھٹو کو ہٹلر سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو سُرخ جھنڈے کے مقابلے میں سرخ جھنڈا کھڑا کرکے دلالی کا کام کررہے ہیں۔انہوں نے بلوچستان کے پشتونوں سے گلہ کیا کہ آپ کیسے بھائی ہیں ہم لڑرہے ہیں گھاس کھا رہے ہیں آپ اپنے کاروبار کو چمکا رہے ہیں۔
اس دوران نیپ کی خاتون ممبر اسمبلی مس فضیلہ عالیانی جس نے پارٹی کی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے سینٹ کے انتخابات کے موقعہ پر اپنے بھائی چنگیز عالیانی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا تھا۔ اس کے ردعمل میں کے بی نے مس فضیلہ عالیانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا ، گائے گھاس تو ادھر کھائے اور دودھ کہیں اور جاکر دے۔ انہوں نے فضیلہ عالیانی کی دورہ امریکہ کی سرکاری دعوت قبول کرنے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ (خیربخش اصول پرست سیاست کے قائل ہیں اور انہی خدشات کے پیش نظر وہ کہتے ہیں کہ میں پارلیمنٹ کے خلاف نہیں ہوں ۔لیکن لوگ اپنے اصولوں پرنہیںٹھہرتے اور ہم انہیں روک بھی نہیں سکتے)
بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابند ی لگا کر اس کے دفاتر سربمہر کردئیے اورنیپ کی قیادت پر ملک دشمن، علیحدگی پسند، مملکت پاکستان کے خلاف کام کرنے، گریٹربلوچستان اور آزاد پختونستان کے نام سے آزادریاستیں قائم کرنے کے سنگین الزامات لگا کرنیپ کی مرکزی وصوبائی قیادت سمیت ہزاروں کی تعدادمیں پارٹی کارکنوں اور طلباءکو گرفتار کرلیا۔ حتیٰ کہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو ووٹ دینے والے عام شہریوں کو بھی پکڑ کر ان سے پوچھ گُچھ کی گئی۔ نیپ کی قیادت کے خلاف حیدرآباد سازش کیس قائم کیا جس کے تحت خصوصی ٹریبونل کی عدالت میںا ن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔
خیربخش کو چارسال تک حیدرآباد جیل میں خصوصی ٹریبونل کے سامنے شدید الزامات اور سوال وجواب کا سامنا رہا۔ ا ن کا کہنا تھا کہ فورتھ انٹرنیشنلسٹ کمیونسٹ، ملحد، ملک دشمن، غدار، ہٹ دھرم اور انتہا پسند ایسے کتنے الزامات ہیں جن سے میری ذات آلودہے۔ کتنی مکروہ اور مضحکہ خیز کہانیاں ہیں جن کا میں مرکز ہوں۔ جب میں ان کے بارے میںسوچتا ہوں تو مجھ پر حیرت اور کرب کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود میں عوامی حقوق کی خاطر ہرآزمائش سے گزرنے کے لئے تیارہوں ۔
جیل میں اپنے ساتھیوں کی جانب سے بھی انہیں سخت دباﺅ کا سامنا رہا۔ بالخصوص پارٹی کے سربراہ ولی خان کی طرف سے باربار یہ سوال اُٹھایا جاتا رہا کہ نیپ ایک جمہوریت پسند سیاسی جماعت ہے جس کا آئین اور پروگرام ہے جو پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کے تاریخی، ثقافتی، لسانی، آئینی اور جمہوری حقوق کے لئے کوشاں ہے۔ جبکہ بلوچستان میں نیپ کے نام پر مسلح مزاحمت ہورہی ہے۔ نیپ کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے،یہ لڑائی بھٹو کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ لیکن کے بی نے مزاحمتی عمل کا دفاع کیا( ان کا کہنا تھا کہ دشمن دشمن ہوتا ہے۔ دشمن کے ساتھ ہر محاذ پر لڑو سیاست کا ایک زاویہ درست نہیں ہوتا)
میرغوث بخش بزنجو بھی ان کے اس عمل سے نالاں تھے اور باقاعدہ اس کی مخالفت کرتے تھے۔ اور یہیں سے ولی خان اور بزنجو کے ساتھ ان کے اختلافات کی ابتداءہوئی۔ خیربخش آپس کے اختلافات کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے ساتھیوں سے مل کر کئی دنوں تک بحث کی مگر مجھے رسپانس نہیں دیا گیا۔ وہ خیربخش اور ان کے حامیوں کو لے کر ایک ساتھ نہیںچل سکتے۔ انہوں نے گلہ کیا کہ جیل میں میرصاحب سے ایرانی پارلیمنٹ کے رکن حاجی کریم بخش سعیدی اور کراچی کے محمودہارون خصوصی اہتمام کے ساتھ گھنٹوں ملاقاتیں کرتے رہے۔ یہ ملاقاتیں بلوچستان کے ایک اسیر رہنما سے کرنا رازونیاز کی غمازی کرتی ہیں۔ میرصاحب کے بیانات جیل سے نکل کر محمود عزیز کرد اور ان کے توسط سے شائع ہوتے ہیں۔ رہائی کا منصوبہ کیسے تیار ہوتاہے۔ ہمیں مکمل طورپر لاعلم رکھا جاتا ہے۔ میرصاحب اور ولی خان کے بلوچ رہنماﺅں کی فہرست میں میرا نام نہیں ہے۔ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور اب جبکہ نیپ کالعدم ہوچکی ہے اور میرے ساتھی کسی تنظیم میں شامل نہیں ہیں۔
شیربازمزاری اور احمد نوازبگٹی نے اپنے مطلب کے بیانات دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
شیربازمزاری اور اس گروہ کے دیگر عناصر مجھے بدنام کرنے کی منظم مہم چلارہے ہیں۔
5جولائی1977ءکو جنرل ضیاالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر پاکستان میں فوجی مارشل لاءلگا دیا اور خوداقتدار پر قابض ہوگئے اور بلوچوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرکے نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت پر ملک توڑنے کے سارے الزامات سے دستبردارہونے کا اعلان کیا اور حیدرآباد سازش کیس ختم کرکے ٹریبونل توڑ کر نیپ کی قیادت کو غیرمشروط طورپررہا کردیا اور بلوچستان میں جاری چارسالہ طویل فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
حیدرآباد سینٹرل جیل سے نیپ کی لیڈرشپ جب رہا ہورہی تھی تو اس موقع پر پارٹی کے قائد ولی خان نے کہا کہ حکومت سب کو رہا کرنے کے لئے تیارہے سوائے خیربخش مری کے۔ یہ بات ولی خان نے اپنے دورہ جنرل ہیڈ کوارٹر(GHQ)سے واپس حیدرآباد جیل آنے پر اپنے رہائی پانے والے دوستوں کو بتائی۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ جیل سے صرف خیربخش کی لاش ہی جاسکتی ہے۔ جب اس بات کا انکشاف ہواتو نیپ کی قیادت نے اس وقت تک رہائی سے انکار کیا جب تک خیربخش ان کے ساتھ رہا نہیں ہوجاتے۔
جب میرغوث بخش اور سردار مری رہائی کے بعد بولان میل کی ایک ہی بوگی میں حیدرآباد جیل سے سفرکرکے کوئٹہ آئے تو اس وقت تک بلوچ عوام ان کے اختلافات سے لاعلم تھے اور جب کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پرریل کی بوگی سے باہرنکلے تومیرغوث بخش بزنجو اور مرحوم میرگل خان نصیر کو ان کے حامی جلوس کی شکل میں ریلوے سوسائٹی مینگل ہاﺅس لے گئے۔ جبکہ بلوچ طلباBSOاور پرجوش کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ریڈیکل بلوچ رہنما سردار خیربخش مری اور شیرمحمد مری کو لے کر کوئٹہ کی اہم شاہراﺅں پرگشت کرتی ہوئی BSOکے دفتر کے سامنے جمع ہوگئی جہاں دفتر کی چھت پر کھڑے ہوکر خطاب کرتے ہوئے کے بی نے کہا کہ وہ چارسال بعد جیل سے باہرآئے ہیں اور اب حالات کا جائزہ لیں گے اور حالات سے واقف ہونے کے لئے عوام اور ساتھیوں سے ملیں گے۔
جس کے بعد یہ طے کریں گے کہ سیاست میں کیا رویہ اختیارکریں، چاربرس کی سیاست میں تبدیلیاں آئی ہے۔ اس موقعہ پر زیادہ بات نہیں کرسکتا۔ ان چارسالوں کے دوران کچھ نئے تضادات ابھر ے ہیں جن پر بات کرنے سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے عوام اور طلباءکا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ان کی مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ تھا۔بعدمیںجلوس ارباب کرم خان روڈ پر مری ہاﺅس جاکر منتشر ہوگیا۔کئی دنوں تک مری ہاﺅس میںسیاسی رہنماﺅں، کارکنوں، میرومعتبرین اور عوام کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
قید سے رہائی کے بعد خیربخش کسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے نہ اپنی سیاسی جماعت بنائی ۔وہ ایک روشن خیال مفکر ہیں۔سیاسی حالات کا ادراک رکھتے تھے۔ اپنے کاز کے ساتھ پُرعزم تھے۔ اس لئے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے کوئٹہ میں عبدالستار روڈ پر فیصل ہاسٹل میں بلوچ طلباءسے اسٹڈی سرکل لینے لگے اور سیاسی کارکنوں کو اپنے قریب رکھا۔
1977ءمیں خان عبدالولی خان نے مینگل ہاﺅس کوئٹہ میں خیربخش مری سے ملاقات کی اور انہیں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ مگر خیربخش نے این ڈی پی میں شمولیت کرنے سے معذرت کی کیونکہ وہ این ڈی پی کو دوسرا جال سمجھتے تھے۔ فروری1978ءکو سردار عطااللہ مینگل نے کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے کارکنوں کا کنونشن مینگل ہاﺅس کوئٹہ میں طلب کیا۔ جس میں سردارمری نے بھی شرکت کی ۔
مری نے اس موقع پر سخت جذباتی تقریر کی اور اعلان کیا کہ وہ آخردم تک بلوچ حقوق کے لئے لڑتے رہیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو اس بار وہ خود بندوق اُٹھا کر پہاڑوں کا رُخ کریں گے۔ انہوں نے اس موقع پر بلوچوں کی سیاسی انقلابی پارٹی کے قیا م کے لئے زور دیا۔ ان دنوں خیربخش کو بلوچ عوام میں قبائلی سردار کی حیثیت سے زیادہ بے مثال سیاسی مقبولیت حاصل تھی۔ اس لئے بلوچ سیاسی کارکُن کے بی کو ایک انقلابی رہنما کے طورپردیکھتے تھے۔ ان کے خیال میں بلوچ قیادت میں کے بی ہی وہ واحد رہنما ہیں جو عمل کے غازی ہیں جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں وہ اپنے قول فعل میںہم آہنگی کے پیکر ہیں۔ ان کی جرا¿ت ، بہادری سے کارکنوں اور نوجوانوں کو حوصلہ ملتا ہے۔ رہنمائی کی ساری خصوصیات ان میں موجود ہیں۔
اپنی ان صلاحیتوں کے باعث قوم کی قیادت کے لائق ہیں۔ اس نے بلوچ نیشنلزم کو سائنسی فکر دی اور فکر کو عمل میںلے گئے۔ کارکن انہیں بلوچستان کی قومی سیاست کا محور اور بلوچ عوام کا مسیحا سمجھتے تھے۔ کیونکہ کے بی ایک باصول سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک باصلاحیت گوریلا کمانڈر بھی ہیں۔ کے بی کے کردارپر جہاں سیاسی کارکنوں کی یہ ذہنی کیفیت تھی وہاں ان کے ناقدین کو یہ اعتراض تھا کہ خیربخش قید سے رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں نظرنہیں آتے۔ سیاست کے بدلتے حالات میں ان کا موقف سامنے نہیں آرہا ہے۔ عملی سیاست سے تھک گئے ہیں۔ اب ان کا سب سے بڑا مشغلہ مُرغ لڑانا رہ گیا ہے۔
دراصل کے بی قید سے رہائی کے بعد پاکستان کی سیاست سے مایوس ہوچکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایک طبقہ چھوٹی قوموں کو سیاست میں حصہ لینے سے روکتا ہے ا س لئے میں وقتی طورپر سیاست سے کنارہ کش ہورہا ہوں۔ بلوچستان سے باہر جانے سے چند روزقبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مری نے کہا کہ میں آئندہ پاکستان کی بے اصول سیاست کا حصہ نہیں بنو ں گا۔ اس کے بعد آپ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لندن، فرانس او ر پھرافغانستان چلے گئے۔ خیربخش کے تیوربدلے بدلے سے تھے اب وہ بلوچ اور بلوچستان کے لئے دوسرے راستے کا انتخاب کرچکے تھے۔ سردار مری نوری نصیر خان کے بلوچستان یعنی صرف بلوچ وطن کی با ت کرنے لگے اور یہ کہ بلوچ چاہے جہاں ہو بلوچستان ہی اس کا اصل وطن ہے اور برابری کا حقدار ہے۔
سردار مری قلات اسٹیٹ کے ایوان بالا اور ایوانِ زیریں میں1947ءکو پاس کی گئی قراردادوں کو اہمیت دیتے تھے اور بلوچ قومی بقاءکی تحریک کو شہید خان محراب خان کی شہادت سے جوڑتے ہیں۔ ان کے قول وفعل میں صرف بلوچیت ہی رچ بس چکی ہے۔ اس سوچ وفکر کے حامل خیربخش پاکستانی حاکموں کی نظروں میں انتہائی خوفناک دہشت گرد، ملک دشمن اور کمیونسٹ ٹھہرے(قبضہ گیر سامراجی طاقتوں نے اپنی قبضہ گیری کے خلاف آوازاُٹھانے والے عوامی ہیروز کو ہمیشہ ایسے ہی القابات سے نوازہ ہے) خیربخش پاکستانی حاکموں کی فطرت کا ادراک رکھتے تھے کہ پاکستانی حاکموں کو بلوچوں کی نہیں بلکہ بلوچ سرزمین کی ضرورت ہے جو تاحیات ان کی معاشی واقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیتوں سے بھرپور اور پُرکشش ہے۔
یہ بلوچو ںکی نسل کشی تک بھی جاسکتے ہیں۔ لیکن ان کے ہمسفر ساتھی اس ادراک سے عاری تھے یا مصلحتاًاس عمل کی طرف مائل تھے جو درمیانی یا مبہم راستہ قراردیا جاتا ہے۔ اس عرصہ میں بالادست حکمران قوتوں نے 1973ءکی چارسالہ جنگ کے تجربہ کی روشنی میں بلوچستان میں مستقبل کی اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی جس کے تحت بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی گہما گہمی، اقتدار اور پارلیمنٹ کا فریب دے کر آسانی سے بلوچستان کی بلوچ آبادی والے علاقوں میںشہروں کے قریب عسکری قلعے قائم کرلئے ۔ جگہ جگہ FC کی چیک پوسٹیں قائم کیں، سارے بلوچستان میں تھانوں کا جال پھیلا کر پولیس اور لیویز کی نفری میںا ضافہ کردیاگیا۔ سولہ نئے ایئرپورٹ، سینکڑوں ہیلی پیڈز، سبی، خضدار اور مکران میں نئی چھاﺅنیاں تعمیر کیں اور خفیہ ایجنسیوں اور مخبروں میں مقامی آبادی سے بھرتیاں کرکے انہیںبلوچ علاقوں میں پھیلا دیا گیا۔ اس طرح بلوچستان کو اپنے شکنجے میں لے لیاگیا۔ واحد رہنما خیربخش تھے جن کی بلوچستان کے حالات کے پس منظروپیش منظر پرگہری نظرتھی ، دشمن کے منصوبوں کے مقابلے میں جو حکمت عملی اس نے ترتیب دی آج سب کے سامنے ہے۔
خیربخش اپنے اصولوں پرقائم رہتے ہوئے تاآخری سانس پاکستانی سیاست کا حصہ نہیں بنے۔ نواب نوروز خان کے بعد سردار خیربخش وہ دوسرے سردار ہیں جو اپنے اصولوں پرکاربند ہیں ۔ نوروزخان روایتی تھے جبکہ خیربخش انقلابی فکری اصول پرست ۔
70ءکی دہائی میں لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں مری قبیلے کی ایک بڑی تعدادنے افغانستان ہجرت کی تھی۔ کے بی لندن سے فرانس چلے گئے اور پھر1982ءمیں افغانستان آئے اور اپنے قبیلے اور تنظیم کے ساتھیوں سمیت بارہ برس تک افغانستان میں رہے۔(ان دنوں افغانستان میں ڈاکٹرنجیب کی حکومت تھی)جہاں بابو شیرمحمد اور میرہزارخان بجارانی مری کے خیربخش کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ بی پی ایل ایف کا تنظیمی ڈھانچہ منتشر ہوچکا تھا۔ لندن گرو پ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ بدلتے حالات نے خیربخش کو شدید مشکلات میں ڈال دیا۔ اس نے تنظیمی کام کاازسرِ نو جائزہ لیا اور تنظیم نوپر جت گئے۔ لیکن افغانستان کے ناموافق سیاسی حالات نے ساتھ نہیں دیا۔ وہاں ردانقلابی سامراجی قوتیں اپنے مقامی گماشتوں کی معاونت سے انقلاب کو کچلنے کی سازشوں میں مصروف تھیں اور صورتحال سخت خراب ہونے کی وجہ سے تنظیمی کام میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ بابوشیرمحمد مری اور میرہزار خان مری کی سرپرستی میں قبیلے (تنظیم ) کا ایک دھڑا الگ ہوگیا۔ لیکن کے بی ان حالات سے مایوس نہیں ہوئے اور اپنے کام کو حالات کے ساتھ ساتھ جاری رکھا۔ ان کی سرگرمیوں پرISIکی کڑی نظرتھی۔
ISIنے ایک خفیہ منصوبہ کے تحت خیربخش کو راستے سے ہٹانے کی مذموم سازش تیارکی اور اس پر عمل درآمد کے لئے ان کے اپنے قبیلے کے لوگوں اور چند دیگر افراد کے ذریعے خیربخش کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے ان کے کیمپ کی طرف مارچ کیا۔ لیکن افغان انٹیلی جنس اور ان کی تنظیم کے سپاہیوں نے بروقت مشترکہ کارروائی کرکے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ افغان مجاہدین جوISIکی سرپرستی میں افغان انقلاب کو ناکام بنانے اور بالآخر اس کے خاتمے کے لئے لڑرہے تھے۔ سوویت یونین کی افواج کی افغانستان سے انخلاءکے کچھ عرصہ بعد افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا( کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں حالات کی خرابی کے کارن ڈاکٹرنجیب نے ان کو پیغام بھیجا کہ میری حکومت تحلیل ہونے والی آپ کسی طرح اپنے وطن چلے جائیں، جواب میں خیربخش نے کہا کہ جب ہم مصیبت میں تھے تو آپ نے ہمارا ساتھ دیا اور اب آپ مصیبت میں ہیں تو ہم آپ کو کیسے چھوڑ کرجاسکتے ہیں) اور ان کی جگہ مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی۔ مجاہدین نے کے بی اور اس کے قبیلے کے افراد کو کابل چھوڑنے کے لئے مجبورکیا۔ مجاہدین خیربخش کی رہائش گاہ کے باہر کھڑے ہوکر دروازے پر دستک دینے لگے اور ان سے کہا کہ تمہارے جسموں کے کپڑے اور پیروں کے جوتوں کے سوا اس سرزمین پر تمہارا کچھ بھی نہیں۔ سب کچھ چھوڑ کر جتنی جلدی ممکن ہوسکے افغانستان سے نکل جاﺅ۔
ان حالات میں کے بی اور ا ن کے قبیلے کا افغانستان میں مزید قیام کرنا کسی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ خیربخش کی زندگی خطرے میں تھی ۔ خیربخش اور ان کے ساتھیوں کی سلامتی کے بارے میں بلوچ عوام میں سخت تشویش بڑھ گئی ۔ نواب بگٹی صورتحال کو سمجھ گئے، فوری طورپر قوم پرست سیاسی جماعتوں اور BSOکے نوجوانوں کو متحد کیا ۔ سردارمری اور ان کے قبیلے کی بحفاظت واپسی کے لئے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ مظاہرے کئے اور ان کی بحفاظت واپسی کے لئے حکومت پر دباﺅ ڈالا۔ آخر کار حکومت پاکستان اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ ہوئی اور 26وزراءاور سیاستدانوں پر مشتمل جرگہ تشکیل دیا اور C-130جہازمیںکابل روانہ کردیا۔ کابل میں حالات اتنے خراب تھے کہ پاکستانی سفارت خانہ کے سیکنڈ سیکریٹری خود گاڑی لے کر شیرمحمد مری کی رہائش گاہ پرپہنچ گئے اور شیرمحمد مری کو بحفاظت وہاں سے نکال کر ہوائی اڈے پہنچادیا۔ خیربخش مری کی وطن واپسی ومراجعت بھی انہی حالات میں ہوئی۔ جس دن خیربخش کی واپسی طے تھی۔
اسی دن مجاہدین نے مری اور ان کے ساتھ مقیم افراد کو ذاتی استعمال کے کپڑے اور جوتوں کے سواکوئی چیز ساتھ لے جانے سے منع کیا۔ حالات اس قدر خراب تھے کہ مجاہدین ان کے نیچے بچھی ہوئی دریاں بھی کھینچ رہے تھے۔ جرگہ کے اراکین فضائیہ کےC-130طیارے کے ذریعے کابل پہنچے طویل مذاکرات کے بعد خیربخش کے ساتھ سات گاڑیاں مجاہدین سے لے کر پاکستانی سفارتخانے کی تحویل میں دے دی گئیں باقی سارا سامان مجاہدین کے قبضے میں چلاگیا۔ صرف چند مُرغے ساتھ لے جانے کی اجازت دی گئی۔ مری کے لوگ بڑی مشکل سے چند لڑاکا مُرغے اور معمولی سامان اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے۔ مگرراستے میں جلال آباد کے مقام پر بعض افغانیوں نے اس قافلے کو لوٹ لیا اور ان کی گاڑیوں پر قبضہ کرلیا۔
اس موقعہ پر جلال آباد کے گورنر نے بڑی مشکل سے ان کی گاڑیاں وہاں سے کراس کرائیں۔ کہا جاتا ہے کہ13 برسوں تک مختلف حکومتوں نے اپنے ذرائع سے مری کو پاکستان واپس لانے کی کوششیں کیں۔ لیکن کے بی مسلسل انکارکرتے رہے۔ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت قائم ہونے کے فوراً پاکستانی سفارتی ذرائع نے ان سے رابطہ قائم کیا اور انہیں پاکستان واپس آنے کے لئے کہا۔ لیکن مری آمادہ نہیں ہوئے۔ تاہم آخری بارجب بلوچوں پرمشتمل جرگہ انہیں لانے کابل پہنچا تو خیربخش واپسی کے لئے آمادہ ہوئے۔ اس طرح سردار خیربخش بمعہ اپنے اہلخانہ کے پاکستانی فضائیہ کےC-130طیارے میں 16جون1992ءکو کابل سے کوئٹہ ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے۔ لیکن کوئٹہ ائیرپورٹ پرزبردست ہجوم اور نظم ونسق میں خلل کے باعث ان کا طیارہ ائیرپورٹ پراُترنہیں سکا اور واپس اسلام آباد چلا گیا۔ کے بی اسلام آباد میں قیام کرنا نہیں چاہتے تھے۔ انہیں اس بات کے لئے آمادہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں موجود بلوچستان ہاﺅس بھی بلوچستان کا حصہ ہے جس پر وہ آمادہ ہوئے اور ایک شب بلوچستان ہاﺅس میں قیام کیا۔
17جون بروز منگل ان کا طیارہ اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچا۔ ان کا طیارہ جب کوئٹہ ائیرپورٹ پر اُترا تو فضاءبلوچستان زندہ باد ، خیربخش زندہ بادکے نعروں سے گونج اُٹھی ۔اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قابو نوجوانوں نے ائیرپورٹ پسنجر لاﺅنج کے شیشے توڑ ڈالے جب خیربخش ائیرپورٹ سے باہرآئے تو باہر کھڑے ہزاروں کی تعدادمیں موجود عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ کے بی70ءکے خیربخش نہیں لگ رہے تھے۔
سراور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے۔ داڑھی کافی بڑھ چکی تھی، کمرمیں تکلیف کے باعث لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے۔ ہزاروں گاڑیوں میں35ہزار افراد کا پُرجوش جلوس کئی گھنٹے مسافت کے بعد رات 9بجے ان کی رہائش گاہ واقع ارباب کرم خان روڈ پر پہنچا ،راستے میں جگہ جگہ ان پر گل پاشی کی گئی ۔ لوگوں کے اصرار پر خیربخش نے لینڈ کروزر گاڑی کے سن روف سے اپنے مختصر خطاب میں پُرجوش استقبال کرنے پر عوا م کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کا پیار اور خلوص دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ یہ بلوچ عوام کا اپنے وطن سے محبت اور عقیدے کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس فکرمیں تھا کہ ہم سے جو کمزوریاں ہوئیں ہیں اور ناکام، بے مقصد ہوکر لوٹے ہیں۔ عوام ہمارا احتساب کریں گے، ہمیں کٹہرے میں کھڑا کر ہم سے حساب کتاب کا تقاضہ کریں گے اور گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے ہمارا استقبال کریں گے۔ اس موقع پر ان کے حق میں زبردست نعرہ بازی ہوئی۔ ان کی رہائش گاہ سے سریاب روڈ (بلوچستان چوک) پر ایک کلومیٹر تک میلے کا سماں تھا جو ہفتہ بھر جاری رہا۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب سے ان کے عقیدت مندوں اور چاہنے والوں کا ایک ماہ تک ان کی رہائش گاہ پرتانتا بندھا رہا
۔ کے بی کو اپنے ان جانثار ساتھیوں کی بھی فکرتھی جو سینکڑوں کی تعدادمیں افغانستان کی بلوچ آبادی والے علاقوں ہلمند اور لشکرگاہ سے براستہ نوشکی بلوچستان کے سرحدی علاقہ سرلٹّ کے مقام پر جمع ہورہے تھے۔ اس دوران خیربخش اور حکومت کے درمیان تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب ریاستی فورسز نے انہیں بلوچستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔ خیربخش ، سردار عطاا للہ مینگل کو ساتھ لے کر نوشکی چلے گئے۔ حکومت کا اصرارتھا کہ افغانستان سے آنے والے اپنے ساتھ لایا ہوا اسلحہ اور سازوسامان حکومت کے حوالے کریں اور پھر سرحد عبورکریں۔ کے بی نے ہتھیار جمع کرانے سے انکار کیا۔ حکومت اور خیربخش کے درمیان یہ تکرار طول پکڑتی گئی۔ ایف سی اور لیویز نے سارے علاقے کو گھیرلیا۔ کے بی نے اپنے ساتھیوں سے اسلحہ نذرآتش کرنے کے لئے کہا اس طرح سارا اسلحہ جلا دیا گیا۔
خیربخش جب افغانستان سے آئے تو بلوچستان کے سیاسی حالات نے ان کے لئے مُرغوں کی لڑائی کے میلوں میں شرکت کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔ اب ان کا شوق صرف شوق رہ گیا تھا۔ اب اس فلسفے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان پر تنظیمی کام کا بوجھ کافی بڑھ چکا تھا ۔ اپنا سارا وقت سیاسی سرگرمیوں میں دینے لگے۔ جو تنظیمی کام افغانستان میں ادھورا چھوڑ آئے تھے اس کی تکمیل کی فکرمیں تھے اس نے بدلتے حالات اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے افغانستان سے آنے والے قبیلے(تنظیم) کے افراد میں کچھ کو کوئٹہ شہر کے مغرب کوہ چلتن کے دامن میں آباد کیا۔ قبیلے کو کوہستان مری سے نکال کر بلوچستان کے مختلف شہروں میں پھیلا دیا تاکہ وہ بلوچستان سے واقف ہونے کے ساتھ دیگر بلوچ قبائل کے ساتھ بھی قربت پیداکرسکیں۔ جس کے مستقبل میں قومی تحریک پرمثبت اثرات مرتب ہوسکیں گے۔
اس نے تحریک کو ایک نئی جہت دینے کے لئے نئے لوگوں کو رابطے میں رکھا۔ خاص طورسے نوجوانوں کو ترجیح دی۔ اپنی رہائش گاہ کے سامنے والے خالی پلاٹ پر روز سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کے اجتماعات کرکے جمہوریت، نیشنلزم ، مارکسزم سمیت سیاسیات اور دیگر موضوعات پر بحث ومباحثہ کرنے کا اہتمام کرتے۔ جس میں وہ خود بھی حصہ لیتے تھے۔ اور کئی ہفتوں تک اس مشق کو جاری رکھا۔ کوئٹہ کے سیاسی حلقے جو خیربخش کی سرگرمیوں پرنظر رکھتے تھے۔ طنزاً اسے خیربخش کا ”ہائیڈ پارک“ قرار دیتے تھے۔
ارباب کرم خان روڈ پر جب بھی کسی کا گزر کے بی کے گھر کے سامنے سے ہوتا تو کے بی چند نوجوانوں کے ساتھ سامنے پلاٹ کے درخت کے سائے تلے بیٹھے کتاب کے صفحات اُلٹتے پلٹتے نظرآتے۔ پھر اس نے اپنے اس طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ روزانہ اپنے گیراج نما اوطاق(بیٹھک) میں بیٹھ کر بلوچستان کے قومی تحریک کے نشیب فراز، ماضی، حال اور مستقبل کی سیاست اور نظریاتی امور کے متعلق اظہار خیال شروع کیااور جلد ہی اس نے ان نشستوں کو بلوچ ”حق توار“سرکل کا نام دے دیا ۔ وہ خود بیٹھک کے دروازے کے ساتھ بیٹھتے اور ساتھیوں کو گدیلوں پر بٹھاتے۔ وہ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے منشور اور پارٹی پروگراموں کا تحریری مواد اکٹھا کرکے ان میں درج نکات، قیادت کے کردار اور بلوچستان کے معروضات پربحث کرتے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ بلوچ حق توار کے نام سے ایک نیم سیاسی پلیٹ فارم بناکر عوامی رابطہ مہم چلا کر اس بات کا ”پٹّ و پول“ کریںکہ آج کا بلوچ اپنے حق حاکمیت اور اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔
اس نے حق توار کے توسط سے ایک تحریری پروگرام بھی مرتب کرنے کی کوشش کی جو پایہءتکمیل نہ تک نہ پہنچ سکی۔ بلوچ حق توار کے نشستوں کے دوران جب ایک ساتھی نے ان سے سوال کیا کہ بعض مقامی اخبارات میں آپ کی سیاست سے ریٹائرہونے کی خبرچھپی ہے تو اس پر سخت برہم ہوئے اور کہاکہ میں کوئی سرکاری ملازم ہوں جو ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی ہے۔ ان کا چہر ہ سرخ ہوگیا اور کہنے لگے کہ چند دن پہلے بھی کسی دوست نے مجھ سے یہی سوال کیا تھا خیال آیا کہ اس سے کہہ دوں کہ میں کسی کے باپ کا ملازم ہوں جو میں ریٹائرہوگیا ہوں۔ معنی خیز خاموشی کے بعد دھیمی آوازمیں کہنے لگے میری خاموشی کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ میں سیاست سے ریٹائرہوچکا ہوں۔ جب ان سے درخواست کی گئی کہ ”بلوچ حق توار“ کے اجتماعات میں بلوچستان کے محنت کشوں کی نمائندہ تنظیم بلوچستان لیبرفیڈریشن کے مطالبات پرمشتمل بینرز آویزاں کئے جائیں توا س پرانہوں نے برجستہ کہا کہ اگر بلوچ لیبرفیڈریشن نام کی مزدوروں کی کوئی تنظیم ہے تو اس کی اجازت ہے۔ اس نے انتہائی معصومیت کے ساتھ آہ بھرتے ہوئے کہا جہاں تک میری حدنگاہ ہے مجھے صرف بلوچ نظرآئے(خیربخش کے ان جملوں سے اپنے وطن اور بلوچ سماج کے بارے میں ان کے احساسات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے)
کے بی بلوچ حق توارکی میٹنگوں اور اجتماعات کے اہتمام کے ساتھ ساتھ کوہ چلتن کے دامن میں جسے مری کیمپ(نیوکاہان) کے نام سے منسوب کیا تھا میں مقیم اپنے قبیلے کے پاس بھی جاتے جہاںپر انہوں نے ایک جرگہ ہال تعمیرکیا گیا ہے۔ جمعہ کے علاوہ باقی دنوں میں صبح کے وقت کچہری لگا کر قبائلی اور تنظیمی مسائل پر تبادلہ خیال اور فیصلے کرتے( جس دن مری کیمپ قائم ہوا، تب سے حکومت نے مری کیمپ پر سُرخ لکیر کھینچ کر اسے ریڈ زون قراردے دیا تھا تب سے ہی مری کیمپ چُغل خوروں اور پولیس چھاپوں کی زد میں ہے)
خیربخش جب افغانستان سے آئے تو اس سے پہلے ہی آپ کی سوتیلی ماں وفات پاچکی تھیں اور سوتیلی ماں کا سایہ سرسے اُٹھ جانے کے بعد وہ سبّی میںاپنے رشتہ دار اور دیرینہ رفیق کار دوست علی خان مری کے پاس جانے اور ان کے ساتھ ان کی کچّی حویلی میں رہائش اختیارکرتے۔ وہاں انہیںاپنے لوگوں سے ملنے، حال احوال کرنے، کھانے، پینے اور اُوڑھنے ، بچھونے کے لئے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا۔ ایک موقعہ پر اپنی گاڑی میں سبّی سے کوئٹہ آرہے تھے تو ڈرائیونگ حیربیار کررہے تھے۔ حیربیار راستے میں قائم ایف سی کی چیک پوسٹ پر نصب چین توڑ کر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے آگے نکل گئے ایف سی کے مسلح اہلکاروں نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا اور مری کیمپ پہنچ کر کیمپ کو گھیر لیا۔ اس واقع سے کیمپ میں ہلچل مچ گئی اور مری قبیلے کے افراد نے چابک دستی سے ایف سی کے گرد گھیرا ڈال دیا۔
اس واقع کی اطلاع جب کوئٹہ انتظامیہ کو ہوئی حکام فوری طور پر مری کیمپ پہنچے اور معاملے کو رفع دفع کردیا۔ اس واقع سے پہلے بھی ایک مرتبہ جب وادی بولان کے مقام پر ایف سی چیک پوسٹ پر ایف سی کے اہلکاروں نے سردار مری کی گاڑی کو روک لیا تھاا ورگاڑی کی تلاشی لینے کے لئے خیربخش کو گاڑی سے اُترنے کے لئے کہا تو خیربخش اُترے نہیں تھے کہ اُس موقع پرلاپتہ اصغربنگلزئی جو خیربخش کے ساتھ تھے غصے میں آگئے اور ایف سی کے اہلکار پر پستول تان لیا۔
کوئٹہ سریاب روڈ پر ڈاکٹر حکیم لہڑی نے سردار خیربخش مری اور سردار عطا اللہ مینگل کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ اس موقع پر خیربخش نے خطاب کرتے ہوئے بلوچوں کے حقوق کے حوالے سے کہاکہ صرف نوکریاں یا چھوٹی چھوٹی ذاتی مراعات کا مطلب یہ نہیں کہ بلوچستان کے حقوق مل گئے ہیں اور یوں جن کو یہ مراعات مل جاتی ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ کو حقوق مل گئے ہیں اور جن کو نوکریاں، ٹیوب ویل نہیں ملتے وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کو حقوق نہیں ملے اس طرح ہم ظلم اور جبر کے خلاف منظم جدوجہد نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ایک پشتون سیاسی جماعت کی جانب سے بلوچستان کی تقسیم کے دعوﺅں کی مذمت کی اور کہا کہ پشتون ہمارا بھائی نہیں بلکہ ہمارا ہمسایہ ہے اس طرح ایران سے آیا ہو اہزارہ بھی ہمارا بھائی نہیں ہے۔ یہ ایران سے آکر ہماری سرزمین پر قابض ہورہا ہے۔ خیربخش کے ا ن سخت جملوں کو متنازعہ بنایا گیا چونکہ یہ ان کا سیاسی موقف تھا انہوں نے کبھی اس کی تردید نہیں کی اس دوران کوئٹہ میں خیربخش بلوچوں کے گھرگھر گئے اور ان کی داڑھیاں پکڑ پکڑ کر ان کی منتیں کرتے رہے کہ اپنی مادر وطن کی زمینیں غیرو ں میں فروخت نہ کریں۔
خیربخش پارلیمانی طرزسیاست کے سخت مخالف ہیں اس کے لئے وہ متعدد جواز پیش کرتے ہیں لیکن1993ءکے عام انتخابات میں ان کے دوبیٹوں جنگیز مری اور گزّین مری نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے پلیٹ فارم سے حصہ لیااور وزارتوں پرفائزہوئے۔1997ءکے انتخابات میں ان کے بیٹے حیربیارنے آزادامید وارکی حیثیت سے حصہ لیا اور کامیاب ہوکر وزیربن گئے ۔ وزارتوں کے دوران ان پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات لگے اس حوالے سے ان کے والد کے بی سخت تنقید کا نشانہ بنے۔10اکتوبر2000کے انتخابات میں ان کے ایک اور بیٹے شہید بالاچ مری نے آزادحیثیت سے حصہ لیا اور کامیاب ہوکربلوچستان اسمبلی کے ممبر بن گئے۔ اس نے اسمبلی میں حلف نہیں اٹھایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا حلف لے کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے۔بالاچ2004میں پہاڑوں پرچڑھ گئے اور گوریلا جنگ کا حصہ بنے اور20نومبر2007کو وطن پر قربان ہوگئے۔
پاکستانی حاکموں کو کے بی کی پُراسرار مخفی سرگرمیاں پسندنہیں تھیںلہٰذا ان کی گرفتاری کے لئے ایک سازش تیارکی گئی جس کے تحت چیف جسٹس آف بلوچستان احمد نوازمری(بجارانی) کے قتل کے الزام میں11جنوری2000کو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ گرفتاری کے وقت ان کے قتل کے احکامات تھے یہ انکشاف سردار عطااللہ خان مینگل نے اخباری نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس افسر کا جو کوڈ بنایا گیا تھا وہ آئی جی بلوچستان کا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے سابقہ آئی جی کو جلدی میں تبدیل کردیا گیا۔
ان کی گرفتاری کا فیصلہ انتہائی اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیاجس کے بعد رات گئے ضلعی انتظامیہ کو ان کی گرفتاری کے لئے ہدایات جاری ہوئیں۔ ایس ایس پی کوئٹہ اور ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں بی آرپی انسداد دہشت گردی فورس اور ایف سی کی بھاری جمیعت نے رات گیارہ بجے ارباب کرم خان روڈ کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ جہاں سردار خیربخش مری کا ذاتی گھر ہے۔ پولیس جب انہیں گرفتار کرنے گئی تو اس وقت خیربخش مہمانوں( دوستوں) کے ساتھ اپنی بیٹھک میں محوگفتگو تھے۔پولیس نے انہیں بتایا کہ آپ کو چیف جسٹس بلوچستان احمد نواز مری کے قتل کے الزام میں گرفتارکیا جاتا ہے۔ان کی گرفتاری کے بعد پولیس نے مری کیمپ پرچھاپہ مارا اور اسلحہ برآمدکرنے کا دعویٰ کیا ۔13جنوری 2000ءکو خیربخش مری کو دس دنوں کے ریمانڈ پر CIA کی تحویل میں دے دیاگیا۔
انہیں ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں رکھا گیا۔ چندپیشیوں کے بعدانسداد دہشت گردی کی عدالت سینٹرجیل کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ جہاں ان کو عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ پیشی کے دوران خیربخش جج کی آمدپر کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ اپنی گرفتاری پراپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خیربخش نے کہا مجھے بھائیوں کے سامنے ظالم اور برادرکُش ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور پابند سلاسل کرنے کا مقصد بلوچ وطن کی معدنی دولت کو بے رحم نوآبادیاتی جبر کے تحت لوٹنا ہے۔ اگرحکومت مجھے غداری کے الزام میں گرفتار کرتی تو میرے لئے باعث فخر ہوتا۔ لیکن مجھے برادرکُشی کے الزام میں گرفتار کرکے دراصل اپنے ہم وطنوں اور بھائیوں کے سامنے ظالم اور برادرکُش ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک تحقیقات کا دائرہ اختیار ہماری جدوجہد، افغانستان ہجرت کرنے اور بلوچستان کی قومی سیاست تک محدود کردیا گیا ہے۔ جبکہ احمد نوازمری کے قتل کے حوالے سے کوئی تحقیق بھی نہیں کی جارہی ہے اور مجھے میرے وکیل سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے۔
خیربخش کو 18ماہ تک سینٹر جیل کوئٹہ میں قید رکھا گیا۔ ان کے لئے باقاعدہ قیدیوں کی بیرک خالی کرائی گئی۔ قید کے دوران ان پر مری علاقے سے تیل وگیس او ردیگر معدنیات نکالنے کے سلسلے میں تعاون کے لئے مسلسل دباﺅ ڈالا گیا۔اس دوران سبی میں خیربخش کی آٹے کی چکی بجلی کے سرکٹ کے ذریعے جلادی گئی۔
جیل میں متعدد بار اعلیٰ حکومتی حکام ان سے کوہلو اور بمبور علاقے سے تیل نکالنے کے لئے باضابطہ معاہد ہ کرنے اور جلاوطنی کے ایام میں افغانستان میں ان کی سرگرمیوں اور افغان حکومت کے ساتھ رابطوں کی نوعیت کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔ لیکن خیربخش مسلسل یہ کہہ کر ان کی بات ٹالتے رہے کہ میں قتل کے مقدمہ کا قیدی ہوں اخلاقی طورپر نہ آپ کے پاس ا س کا کوئی جواز ہے کہ آپ قتل کے الزام میں ملوث ایک قیدی کے ساتھ مذاکرات اور معاہدات کریں۔ نہ میں اس پوزیشن میں ہوں کہ ایک کمزور قیدی کی حیثیت سے آپ سے مذاکرات اور معاہدات کروں۔ قید کے دوران کسی کو ان سے ملنے نہیں دیا گیا۔ حکومت نے انہیں زیرکرنے کی لاکھ کوشش کی مگر مضبوط اعصاب کے باعث حکومت کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہونے نہیں دیا ۔
29جون 2001ءکو کوئٹہ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ”سالار“ کے رپورٹر کے مطابق جیل میں کسی طرح سے ان کے ہمدرد بلوچ افسروں اور رشتہ داروں نے ان سے ملاقات کی اور حکومت کی جانب سے مذاکرات کرنے کے لئے کہا۔ تو اس موقع پر سردار مری نے کہا چونکہ اس وقت سرکار کے مقابلے میں ان کی پوزیشن کمزور ہے اور کمزور سے طاقتور کے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہیں پنجابی حکمرانوں سے انصاف کی توقع بھی نہیں ہے۔ اس لئے ان کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ سرکار کے دربار میں ہاتھ جوڑے داخل ہوں۔
ایک دوسرے بلوچ قبائلی شخص نے بھی ان سے ملاقات کی اور کمال سادگی سے کہا ان (سردار مری) کے مطالبات کیا ہیں۔ جبکہ انہیں (خیربخش مری) کے کسی قسم کے مطالبات کا علم نہیں ہے۔ مطالبات تو سرکارکے ہوسکتے ہیں۔ خیربخش نے اس امر پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ انہیں جسٹس نوازمری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ ان سے تیل وگیس کے حوالے سے مذاکرات کے لیے رابطہ کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجابی سرکار ان سے مل کر ان کی نبض شناسی کرنا چاہتی ہے۔ بعدازاں ان سے منیرآفریدی نے بھی ملاقات کی پھر ان کے ایک اور رشتہ دار نے ان سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں میں ایک بلوچ افسر محی الدین مری بھی شامل تھے۔خیربخش کا کہنا تھاکہ انہیں پاکستان کی سرکار کالونیل سوسائٹی کی پنجابی انتظامیہ سے قطعاً یہ توقع نہیں کہ وہ ان سے بلوچ عوام کے مفاد کی بات کریں ۔ انہوں نے کہا کہ تعجب خیز بات یہ بھی ہے کہ دوران تفتیش جسٹس احمد نواز کے قتل کی دس فیصد تفتیش بھی نہیں کی گئی بلکہ اس کے برعکس یہ دریافت کیا گیا کہ افغانستان کیوں گئے؟ اسلحہ کتنا ہے؟ وغیر ہ وغیرہ۔اسی طرح ان کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حکومت کا خیال یہ تھا کہ شاید اس طرح سے وہ (خیربخش) سرنڈر کرجائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس مرحلے پرتیل وگیس کی تلاش کے حوالے سے مذاکرات نہیں کرسکتے۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا انہوں نے حکومت سے بات چیت کے لئے دروازے بند کررکھے ہیں۔ اس پرانہوں نے جواب دیا کہ نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ اس موقعہ پر خود کو اور بلوچ قوم کو حکمرانوں کی دھوکہ دہی سے بچا نا چاہتے ہیں۔
بلوچ عوام خاطر جمع رکھے کہ وہ ان کے وسائل پر ہرگز سودابازی نہیں کریں گے۔انہوں نے اس امر پربھی حیرانگی ظاہر کی کہ بلوچ حلقے سیندک کے ملازمین کی برطرفی پر شور مچارہے ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ صرف چند ملازمتوں کی خاطر بلوچ قومی دولت غیروں کے ہاتھوں میں ہے جب بلوچ قوم کوان وسائل سے فائدہ نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ یہ پروجیکٹ بند رہے ۔ انہوں نے کہا کہ سوئی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں سے پنجابی حکمران گیس سے استفادہ کرنے کے باوجود بلوچستان کو کچھ دینے کے لئے تیارنہیں ہیں۔ اس سے قبل پنجابی حاکموں کا نوروزخان اور آغاعبدالکریم خان احمد زئی کے ساتھ جو رویہ رہا وہ بھی اہل بلوچستان کے سامنے ہے۔خیربخش مری نے کہا کہ کوئلہ بھی ایک اہم معدنی دولت ہے۔
لیکن پنجابی حاکم اسے خشت سازی کے کام میں (استعمال ) کررہا ہے۔ اگر اس اہم معدنی دولت کا اختیار بلوچ عوام کے پاس ہو اور جدید ٹیکنالوجی بروئے کارلائی جائے توا س سے پورے بلوچ قوم کی معیشت سنواری جاسکتی ہے۔
ایک سوال پر اسیر بزرگ قوم دوست رہنما نے کہا کہ ان مسائل پر سردار مینگل اور نواب بگٹی سے رابطہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔تاکہ مل بیٹھ کر متفقہ لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔ اسلحہ مہم کے حوالے سے ان کی رائے یہ تھی کہ اگر بلوچ قوم نے حکومت کے کہنے پر اپنے ہتھیار جمع کرائے تو یہ بلوچ معاشرہ میں ان کے لئے طعنہ کاباعث بنے گااور وہ عزت سے جینے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ اسلحہ رکھنا بلوچ قوم کی روایت ، ثقافت اور تاریخ کا حصہ ہے۔ اسلحہ مہم کا مقصد معاشرے کو اسلحہ سے پا ک کرنا نہیں ہے بلکہ اس کامقصد پنجابی اقتدار سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کو غیرمسلح کرنا ہے۔ جوکسی وقت بھی پنجابی حاکموں کی مزاحمت کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ خیربخش کا کہنا تھا کہ آج پنجابی حکمران تہذیب، شرافت اور امن کے داعی بن کر اسلحہ جمع کروارہے ہیں کل تک انہیں پنجابی حاکموں نے افغان جنگ میں ہیروئین، افیون اور کلاشنکوف اپنا کر سارے معاشرے کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس وقت ان کی تہذیب کہاں سورہی تھی۔ سردار مری نے کہا کہ اس مہم کا مقصد بلوچ قوم کو غیرمسلح کرنا ہے۔ کیونکہ بلوچ قوم طویل عرصہ سے پنجابی حکمرانوں کی زیادتیوں کا شکار ہے۔ اس پر متعدد بار فوج کشی بھی ہوچکی ہے۔ خیربخش مری نے لوگوں سے کہا کہ وہ اسلحہ مہم کے حوالے سے ایک دوسرے کی مخبری سے گریز کریں اور حکومت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آسانی سے اسلحہ اکھٹا نہیں کرسکے گی اسے گھروں کا تقدس پامال کرنے کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت ایک جانب سے یہ پروپیگنڈہ بھی کرتی ہے کہ اسلحہ کے زور پر لوگوں نے ریاست میں اپنی ریاستیں بنا رکھی ہیں حالانکہ وہ یہ بھول جاتی ہے کہ اس ریاست کے اندر سب سے بڑی ریاست پنجابیوں نے بنا رکھی ہے ۔ یہی پنجابی حکمران ٹولہ بین الاقوامی سامراج کا آلہ کار ہے۔ اس نے افغان جنگ میں ایجنٹ کے طور پر کام کیا ، کرپشن کے بادشاہ بن بیٹھے اور اس کے عیوض خود بھی کرپشن کی اور علاقے میں اپنے سب ایجنٹس کو بھی کرپٹ کیا اور آج وہ کرپشن اور اسلحہ سے نالاں ہیں اور اب عرصہ دراز کے بعد ان کو ہوش آیا ہے کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہونی چاہیے۔ کرپشن اور اسلحہ سے پاک معاشرہ ہونا چاہیے۔
قیدکے دوران انہیں ذہنی طورپر مسلسل ٹارچر کیا گیا کبھی ان کے کمرے کے اندر چھت کے راستے پانی چھوڑا جاتا تھا۔ کبھی ان کے گھر سے آیا کھانا روک دیا جاتا۔ایک مرتبہ ان کی خدمت پر مامور مشقتی نے ان کے کمرے کا دروازہ اگلے دن صبح گیارہ بجے تک بند رکھا اور جوازیہ پیش کیا کہ انہیں وقت پر دروازہ کھولنا یادنہیں رہا۔بعض اوقات رات گئے انہیںنیند سے جگا کرمذاکرات کے لئے مجبور کیا جاتا تھا۔ معروف قیدی( ودودرئیسانی) کے مطابق سردار مری بلی کا پیچھا کرتے ہوئے اچانک اپنے بیرک سے نمودارہوئے وہ بلی کو پنجابی کا بچہ کہتے ہوئے اس کا پیچھا کررہے تھے ان کا کہنا تھا کہ بلی کبھی ان کھانا خراب کردیتی ہے ۔کبھی موقعہ پاتے ہی ان کا دودھ گرادیتی ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب شام کے وقت قیدیوں کو ان کے بیرکوں میں بند کیا جاتا تو کے بی مقررہ وقت پر دیگر قیدیوں کے ساتھ سب سے پہلے بیرک میں چلے جاتے۔
پیشاب اور دانت میں تکلیف کے باعث ان کی طبیعت مسلسل خراب رہتی تھی۔ ان کی رہائی کے لئے کوئٹہ شہر اور کوئٹہ چھاﺅنی پرمسلسل راکٹ فائر ہوتے رہے۔ بالآخر حکومت دس لاکھ روپے کی ضمانت پرانہیں قیدسے رہا کرنے پر مجبور ہوئی۔ رہائی کے ساتھ ہی حکومت نے ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی۔ عدالت میں پیش نہ ہونے کے باعث عدالت نے انہیں اشتہاری قراردیا۔ خیربخش علاج کی غرض سے کراچی چلے گئے راستے میں ٹریفک حادثہ میں ان کی ایک ٹانگ پر چوٹ آئی تب سے وہ کراچی میں اپنے داماد جاوید مینگل کی رہائش گاہ واقع ڈیفنس میں آخری سانس تک مقےم رہے ۔
اب خیربخش میں کافی تبدیلی آچکی تھی وہ حالیہ تحریک کے اُبھار پر بھی پرمُسرت نظرآتے تھے اب وہ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے سامنے آکر اپنے خیالات اور نظریات کا پرچار کھل کر کرتے تھے۔ واضح اور صاف لفظوں میں اپنے اہداف پربولتے ا ور تصویر بنوانے سے نہیں کتراتے ،نہ اعتراض کرتے ۔ ان کے واضح موقف، اصول پرستی اور سیاسی بصیرت نے بلوچ سماج میں ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا ہے۔ حکومتی جاسوس جدید معلوماتی آلات کے ذریعے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے۔ ان سے ملنے والوں میں بھی حکومتی چُغل خور موجود ہوتے ہیں۔لیکن کے بی ایک ذہین، تجربہ کار رہنما تھے ۔ وہ ہرنئے ملنے والے کو سرتا پا دیکھ کر پہچان لیتے او رباتوں اور باڈی لینگوئج سے ان کی نفسیات کو سمجھ جاتے ۔
اپنے گھر،اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے سینکڑوں کلومیٹر دُورسندھ دھرتی کے درالحکومت کراچی میں جلاوطنی کی زندگی بسرکرنے والے عظیم رہبر،انقلابی نظریہ دان خیربخش مری بلوچ نے تنظیم اور ساتھیوں کے فیصلے کے تحت اپنے وطن سے دُور پردیس میں مہاجر کی زندگی قبول کرلی ہے۔
کراچی میں وہ خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ۔(سامراج نے ہردورمیں اپنے علاقائی گماشتوں کے توسط سے سامراج دشمن عوام دوست انقلابی ،راستوں پرچلنے والے مقامی رہنماﺅں کو راستے سے ہٹانے کے لئے ان کا قتل کروایا ہے ۔گنی بساﺅ آزادی کے رہبر امیلکار کبرال کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں جلسہ کے دوران قتل کردیا گیا۔ کبرال کے رفیق موزمبیق کی آزادی کے بانی اور سوشلسٹ رہنما مامورا ماشیل کو جنوبی افریقہ کے حدودمیں زمین سے فضا میں میزائل مارکران کے جہاز کو نشانہ بنایا گیا جس میں وہ مارے گئے۔ فلسطینی رہنما یاسرعرفات کو زہر دے کر ان کی زندگی کا خاتمہ کردیاگیا حماس کے مقبول رہنما یاسین کو فضاسے زمین پر میزائل داغ کر قتل کردیاگیا)
غاصب حکمران کسی وقت بھی موقع پاکر اپنے زرخرید آلہ کاروں کے ذریعے انہیں کسی نقصان سے دوچار کرسکتے ؟ کیونکہ کے بی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک ذہن فکر تحریک کا نام ہے بقول ان کے دشمن قوتیں آزادی اور انقلاب کے سپاہیوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ اس ذہن کے خاتمہ کے بھی درپے ہوتی ہیں جو ان انقلابی سپاہیوں کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔ بلا آخر6جون 2014ءکو اچانک انکی طبےعت خراب ہوئی اور انھےں لےاقت ہسپتال کراچی کے انتہائی نگہداشت مےں منتقل کےا گےا۔ڈاکٹروں نے بےرونی ملک کے لےے رےفر کےا مگر پاکستانی رےاست اور ہاستین کے سانپوں نے اےسا نہےں ہونے دےا۔10 جون 2014ءکی رات بابائے بلوچ رہبر انقلاب خےربخش مری کے وفات کی خبر نے جنگل مےں آگ کی طرح پوری بلوچ قوم مےں اداسی پھےلا دی۔
رےاست نے انکی لاش کو تحوےل مےں لے کر کوئٹہ ملٹری ہسپتال پہنچانے کے ساتھ انکی جسد خاکی کو کوہلو منتقل کرنے کی کوشش کی مگر آزادی پسند تنظےموں اور عوام کی ہزاروں کے مجمعے نے رےاستی ارداوں کو زمےن بوس کر دےا۔کوئٹہ ہاکی گراﺅنڈ سے بلوچ قوم نے اپنی محبوب قائد کے جنازے کو آزاد بلوچستان کے فلگ شگاف نعروں و آزاد بلوچستان کے پرچم تلے ،نےوکاہان شہداءبلوچستان کے قبرستان مےں سرزمےن کے حوالے کردیا۔
٭٭٭