اداریہ ماہنامہ سنگر – جون
بلوچستان میں ڈنک واقعہ پرریاست کیخلاف شروع ہونے والاشدیدعوامی احتجاج اب پاکستان کے دیگر صوبوں سندھ، خیبر پختونخوااور پنجاب سمیت دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔اورغم و غصے میں سڑکوں پرسراپا احتجاج ہے اورانصاف و حقوق کیلئے مطالبہ کر رہی ہے۔
ڈنک واقعہ پرسوشل میڈیانے بلوچستان کے پھسے ہوئے عوام کی ریاستی پنجوں میں دھبی ہوئی آوازکو زبان بخشا اورریاستی سرپرستی میں ڈنک ایسے گھناؤنے گھٹناکواقوام عالم کے سامنے پیش کرنے میں ایک ایسا نمایاکردار نبھایا جو عوامی احتجاج وغم وغصے کی شدت میں اضافہ کرگیا۔اور آج یہ احتجاج جسے بالکل سیاسی کندھے کا سہارا بھی حاصل نہیں ہے پھر بھی ایک منظم اور
Organic
شکل میں جاری ہے جو یقینا ریاستی جبر کے شکارعوام کے صبر کی لبریزپیمانے کاعکس ہے۔
بلوچستان میں ڈنک ایسی گھٹنائیں روز کا معمول ہیں لیکن آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں پر ریاستی قدغن جیسے اقدامات اس طرح کے ہزاروں دلخراش اور اندوہناک واقعات کومنظر عام پر آنے میں روکنے پر کامیاب ہوئے۔اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔لیکن شاید بہادربلوچ ماں ملک ناز کی مزاحمت ہی بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں اور آزادی اظہار پر لگائی گئی ریاستی قدغن میں شگاف ڈالنے میں کامیاب رہی ہے جس کی وجہ سے آج پورا بلوچستان انصاف وحقوق کیلئے عالمی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
25مئی کو پاکستانی فوج وآئی ایس آئی کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ اور جرائم پیشہ گروہ کے دو بندوک بردار افراد ایک گھر میں چوری و ڈکیتی کے غرض سے گھس گئے۔لیکن گھر میں موجود باہمت و بہادرعورت جو بالکل نہتی تھی،ان ڈکیتوں کے سامنے دیوار بن گئی اورمزاحمت کی مثال بن کرجام شہادت نوش کر گئی۔
اس گھٹنا میں بہادر و باہمت بلوچ ماں ”بی بی ملک ناز“تو شہید ہوگئی لیکن اس کی چار سالہ بیٹی ”برمش“ زخمی ہوگئی۔جو آج اسپتال میں زیر علاج ہے اور پوری دنیا اس کی اور اس کی ماں کی بہادری و ہمت کو سلام پیش کرتے ہوئے اظہار یکجہتی کر رہی ہے۔
تربت ڈنک واقعہ نے پاکستانی فوج و آئی ایس آئی کے چہرے پر نقاب اتار دیا ہے۔گذشتہ پندرہ سال کے زائد عرصے سے وہ اپنی جنگی جرائم، خونی فوجی آپریشز،لوٹ مار، قتل وغارت گری،جبری گمشدگی، اغوابرائے تاوان اورگھروں کو نذرآتش کرنے سمیت کئی سیاسی وسماجی برائیوں کوکنٹرول میڈیا اور اظہار آزادی و سیاسی سرگرمیوں پر لگائے گئے اقدامات کی وجہ سے چھپانے میں کامیاب رہی تھی۔ لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ انکی لے پالکوں کی معمولی ڈکیتی ایک ایسا وبال پیداکرے گی کہ جس سے اس کے چہرے پر نقاب اتر جائے گا۔
ڈنک واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت پاکستانی فوج و آئی ایس آئی کے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے طور پرہوئی جوبلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر خزانہ ظہور بلیدی کے سرپرستی میں کام کر رہی ہے جس کا کمانڈر سمیر سبزل نامی شخص بتایا گیا ہے جبکہ باسط اور الطاف نامی دو دہشتگردجنہوں نے بی بی ملک ناز کو قتل اور ز ننھی برمش پر گولیاں چلائیں گرفتار کر لئے گئے ہیں لیکن ابھی تک ان کی ایف آئی آرکا اندراج ممکن نہ ہوپایا۔ لیکن متاثرہ فیملی کی جانب سے اس واقعہ کی مقدمہ کے اندراج کیلئے لکھی گئی درخواست میں یہ بات واضع ہے کہ ڈکیتی و قتل میں ملوث افراد پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکار ہیں اور یہ بات مجرمان نے خود دوران گرفتاری اقراربھی کیا تھا۔
اس واقعہ میں شہید بی بی ملک ناز بہادری، ہمت اور مزاحمت کی مثال بن گئی۔ڈیتھ اسکواڈکے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ گرفتار الطاف اور باسط نے کہا کہ”ہمیں یہ قطاًاندازا نہیں تھا کہ ہم گولی چلائینگے لیکن بی بی ملک نازکی بہادری، ہمت اور مزاحمت کے سامنے ہم ایسے لاچاروبے بس ہوگئے کہ ہمارے ہاتھ سے وہ اسلحہ بھی چھینے میں کامیاب ہورہی تھی جس پرہم نے خود کو بچانے کیلئے گولی چلائی، اگر ہم گولی نہ چلاتے تووہ ہم پر بھاری پڑجاتی۔“
اس واقعہ نے پہلی بار پوری بلوچستان کو مربوط رکھا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کے وفادارکاسہ لیس جمالی و جام کے سلطنت جو بلوچ عوام پر ریاستی ظلم و جبرپرہمیشہ عالم سکوت میں تھاشہیدبی بی ملک ناز اور برمش کی لہونے وہاں بھی ارتعاش پیدا کی اور لوگ پہلی بار اس طرح کی کسی گھٹنا پر اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں جویقینا ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔
بلوچستان میں سیاسی و آزادی اظہارکے اس عالم سکوت میں کسی کی بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اس واقعہ پر اتنی بڑی عوامی ردعمل سامنے آئے گا۔اس حوالے سے پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور اس کے لے پالک ڈیتھ اسکواڈو دوسرے مذہبی شدت پسند گروہ سمیت بلوچستان کی آزادی پسند حلقے اورپارلیمانی پارٹیاں بھی اس عوامی ردعمل کی امید کھو چکے تھے لیکن یہ بات بالکل سچ ہے کہ بلوچ عوام میں ریاستی ظلم و بر بریت کو لیکر ایک لاواپک رہا تھا جسے بس ایک چنگاری کی ضرورت تھی اور وہ چنگاری برمش و ملک ناز کی مزاحمت کی شکل میں وقوع پذیر ہوئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق واقعہ ڈنک،نواب بگٹی، غلام محمد، شیر محمدبلوچ، لالہ منیر، بالاچ مری، نواب خیر بخش مری کی شہادت کے دوران رونما ہونے والے عوامی ردعمل سے آج کے اس خوف کے ماحول کی مناسبت سے زیادہ موثر ہے۔
اس بات میں بالکل دورائے نہیں کہ اس واقعہ نے بلوچستان میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی پھیلائی گئی خوف و ڈر کے سناٹے کو چیر دیاہے۔جس کی وجہ سے بلوچستان کا ہر فرزند شہید ملک ناز اور برمش کیلئے ناصرف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے بلکہ سوشل میڈیا پر فوگرافکس اور ویڈیو فوٹیج کے ذریعے اظہار یکجہتی کر رہا ہے جو یقینا ریاستی اداروں کی ایوانوں میں ایک شگاف پڑنے کے مترادف ہے۔جس کی واضع مثال عوامی ردعمل کی شدت کو زائل کرنے کیلئے اپنی پاکستانی میڈیا کا سہارا لے رہی ہے جو اس واقعہ کو غلط رنگ دینے میں مصروف ہے۔
اگرشدیدعوامی غم وغصے کا یہ ردعمل ہنوز جاری رہا تو کوئی بعیدنہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی ظلم وبربریت،خونی فوجی آپریشن،جبری گمشدگیو ں اور قتل جیسے گھناؤنے عمل اور خوف و ڈر کے ماحول کا اَنت ہوگا۔اور اس اَنت کا سہرا یقینا شہید ملک ناز و برمش کے سر پرسجے گا۔