“بلوچستان کی “سمی | ڈاکٹرجلال بلوچ

0
202

چلتنی بالاد، سوچ و خیالات کی وسعت بحرہ بلوچ کی مانند، خوبصورتی ایسی جی چاہتاہے اسے بولان سے تشبیہ دوں، نظریہ و فکر کی پختگی دیکھ کر دور دور تک پھیلے سنگلاخ پہاڑوں کی یاد آتی ہے، بہادری اور مستقل مزاجی بیبو، بانڑی، حانی اور گل بی بی کے زمان میں لے جاتی ہے۔ کتنی ارواح اس میں سرایت کرچکی ہیں کہ اس کی للکار سے وقت کا فرعون  لرزیدہ ہے۔


چودہ سال قبل جب وہ فقط دس برس کی تھی تو کون گمان کرسکتا تھا کہ یہ معصوم بچی تاریخ رقم کرنے جارہی ہے، ایسی تاریخ جس کی نظیر ماضی کے اوراق پلٹنے سے قارئین کو میسر نہیں ہوگی۔


سمی! میں سمی کی بات کررہا ہوں۔۔۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک دس سالہ بچی محکوم قوم کی آواز بنے گی۔۔۔نہیں یہ سوچ سے بالا تر ہے کیوں کہ اب تک تو انسانی تاریخ میں ایسا ہوا ہی نہیں کہ کوئی سمی بن جائے۔ سمی منفرد ہے سب سے منفرد۔۔۔


ان کی کہانی اپنے والد ڈاکٹر دین جان بلوچ کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی سے شروع ہوتی ہے اور پھر سمی کو ہم سڑکوں پہ سراپا احتجاج دیکھتے ہیں۔۔۔ دس سال کی عمر میں تو اس کی سوچ یہی ہوگی کہ مجھے میرا بابا چاہیے۔۔۔کہتے ہیں نا کہ وقت سب سے بڑا استاد ہوتا ہے اور جب مادرِ وطن میں دشمن کی جارحیت بڑھتی گئی، جنہیں سمی قریب سے دیکھ رہی تھی تو وقت نے اس کی سوچ بھی بدل ڈالی اوراب سمی فقط ڈاکٹر دین جان کی سمی نہیں رہی بلکہ وہ بلوچستان کی سمی بن چکی ہے، ہر مظلوم کی سمی، جہاں ظلم کے ستائے ہوئے اسے بالاچ سمجھ کر دہائی دے رہے ہیں کہ آ اب تو ہی بیرگیر ہے، تم ہی تو ہو جو عفریت کے اس دیو کو اس کے انجام تک پہنچا سکتی ہو، تم ہی امید ہو ان سب کا جن کے لیے زندگی یلدا بن چکی ہے اور اس لیل سے اگر روشنی کا مینار نظر آئے گا تو وہ بھی تیرے ہی دم خم سے ممکن ہوگا اور جب تک وہ صبح طلوع نہ ہو تو تم خود ہی ہم ظلمتوں کے ماروں کے لیے روشنیوں کا مینارہ ہو۔ ہر زبان پہ یہی ورد سنائی دیتی ہے کہ تمہیں دیکھ کر ہی جینے کی امنگ جاگ اٹھی ہے ورنہ تو جگر کا ٹکڑا کھونے کے بعد لاش بن چکا تھا۔۔۔ہاں لاش اور ان مردوں میں پھر سے جو روح پھونک دی گئی ہے اس کا سہرا بھی تمہارے ہی سر جاتا ہے۔


بلوچستان جو جاگ اٹھا ہے وہ تیرے ہی استقلال کی وجہ سے کہ تیرے پاس زندگی بخشنے کی جو تریاق ہے وہ ہر زہر کا اثر زائل کرتی ہے۔۔۔اب دیکھو! ناں فرعونِ وقت نے ہلاہل دے کر اس قوم کا کام تمام کرنا چاہا لیکن اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ سمی کا عہد ہے جو ہر بالاچ کے لیے اذہان کا کام کرتی ہے۔


اگر چہ یہ بات بھی درست ہے کہ تاریخ کے نقوش پر یہ حقیقت واضح طور پر آشکار ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ انمٹ کردار ادا کرنے کے باوجود بھی سیاسی اور سماجی انقلاب میں خواتین کے کردار کو اجاگر نہیں کیا گیا اور اگر اجاگر کیا جاتا تو بلا جھجک قارئین کہہ اٹھتے کہ تاریخ تو دراصل عورتوں کی تاریخ ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض کردار ایسے ہوتے ہیں کہ پدرسری نظام کا غلبہ ہوتے ہوئے بھی مورخِ وقت انہیں جھٹلا نہیں سکتے کہ وہ اپنے کردار اور عمل سے خود کی ایسی پہچان بناتے ہیں جو ایک نئے عنوان کا عکس لیے سامنے آتے ہیں۔ جیسے سمی! ایک محکوم قوم کی سمی! بلوچ مزاحمت کی پہچان بن چکی ہے۔


مادرِ وطن کی ایسی بیٹی جو جب کبھی خاک سرفروشاں پہ گام رکھتی ہے تو ماں پکار اٹھتی ہے کہ اے سمی تیرے نقش پاء کو میں اپنے سینے کی زینت بناکے رکھوں گی، تیرے کردار کی میں گواہ رہوں گی اور یہ کہتی رہوں گی کہ ایک سمی وہ بھی تھی جووطن کے ہر دودا اور بالاچ کے لیے لڑتی رہی۔ لوگ سنیں گے، پڑھیں گے تیری کہانی۔۔۔یہی کہانی تا ابد تجھے مرنے نہیں دے گی اورآخری بشر تک “بلوچستان کی سمی” کے نام کے گیت گنگنانے والے جنم لیتے رہیں گے اور ان سریلی گیتوں کی آواز ہمہ وقت ،
بولان ، ماران، مکران میں۔۔۔
چٹوک، لوس، زامران میں۔۔۔
باتیل، ساہیجی، سراوان میں۔۔۔
رخشان، شاشان، کوہ سلیمان میں۔۔۔۔
جنگل، بازار، بیابان میں۔۔۔
اور
وطن کے ہر کوچہ، گدان میں۔

گونجتی رہے گی۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here