( گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ چہارم )
یہ تاریخی اور زمینی سچائی ہے کہ بلوچ سرزمین پر پاکستان کی سیاسی پارلیمانی فوجی اور انتظامیہ حیثیت ایک قابض کی ہے یہ صرف میرا ذاتی نقطہ نظر نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے اگر ہم بلوچ قومی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں بغیر ڈر اور کسی خوف کے زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو غیر معمولی طور پر یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ بلوچ اور پاکستان کے درمیان کسی بھی زاویہ سے کوئی قدر مشترک نہیں اگراقوام عالم اپنے مفادات اور دلچسپیوں سے بالاتر ہوکر عالمی قوانیں اور قومی آزادیوں کے حوالہ سے اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی پاسدار رہ کر بلوچ قومی مسئلہ کا تاریخی اور سیاسی پس منظر جاننے کی زحمت کریں تو شاید وہ پاکستان کے بلوچ بارے گمراہ کن بیانیہ کو رد کرسکتے ہیں عمومی طور پر عالمی ادارے اور تنظیمیں جو کہ انسانی حقوق اور اقوام پر قومی جبر کے دفاع کی جو لائن آف ڈائریکشن دیتے ہیں ان کے منشور اور کنونشنز میں تواتر کے ساتھ ایسے مسئلہ زیر بحث ہوتے ہیں لیکن بلوچ قومی مسئلہ کے بارے میں اکثر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیونکہ ریاست پاکستان اور ان کے ماتحت دانشورز میڈیا اینکر پرسن اور سیاست دان جو کنفیوژن اور ابہام پھیلارہے ہیں وہ صرف عالمی و علاقائی رائے کو گمراہ کرنے کے لئے وہ بلوچ تاریخ اور بلوچ تحریک آزادی کو مسخ کرکے بلوچ قومی تحریک کے خلاف ایک صف پر ہوتے ہیں بلوچ قوم کی کے نزدیک آزادی انسانی وبین الاقوامی برابری کا نام ہے بلوچ قومی برابری کے حوالہ سے عالمی دنیا سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا لیکن غلامی کسی کی بھی ہو جتنی منصفانہ اور شاداب ہوبلوچ اس کے ساتھ مصالحت نہیں ہوسکتی بلوچ بحیثیت قوم اس بین الاقوامی انسانی زنجیر کا حصہ ہے ہم عالمی اقوام کے حوالہ سے ایک قومی اکائی ہوسکتے ہیں لیکن پاکستانی جہنم کا حصہ، اکائی یا صوبہ جیسے انتظامی حیثیت میں آلودہ نہیں ہونا چاہتے۔
غلامی کے خلاف نفرت اور جدوجہد کا ہمارا یہ موقف انتہائی فطری اور درست ہے یہاں جو الجھا ؤ اور کنفیوژن پھیلایا گیااس حوالہ سے ہم کوشش کریں گے کہ ریاست اس حوالہ سے جنگی جنون اور فوجی طاقت کے علاوہ کن کن ٹولز کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف ریاستی مشینری کے طور پر کس پیمانہ پر استعمال کرتے ہوئے بلوچ جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کرنے کی مزموم کوشش کرکے بدگمانیاں پھیلاتاہے زیر نظر مضمون کی طوالت کے لئے پیشگی معذرت کوشش کروں گاکہ 1948 سے لے کر اب تک کی تمام تاریخی حقائق کو سامنے لاکر پنجابی استعماری قبضہ و نو آبادیاتی نظام کو بے نقاب کرنے کی حتی الوسع قلمی کوشش کروں گا ۔
بلوچ قومی مسئلہ کنفیوژن، الجھاؤ اور کاؤنٹر پالیسی
اس میں کوئی دورائے نہیں ہونا چاہیئے کہ نو آبادیاتی نظام دراصل ایک سامراجی نظام ہے نو آبادیت اور سامراجیت سکہ کے دورخ اورایک دوسرے کااٹوٹ تسلسل ہے نو آبادیت ایک ملک کا دوسرے ملک پر بلجبر قبضہ کا وہ مکرو ہ حربہ ہے جو ایک ریاست کسی دوسرے ریاست کی سرحدی حد بندیوں اور آزادی و خودمختیاری کا احترام کئے بغیر فوجی طاقت کے زریعہ اس پر قبضہ کرلیتاہے تو یہاں ایک چیز سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سامراج” کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے بعد ” نو آبادیات” کے نام سے جانی گئی۔ نوآبادیات ایک ایسا سفاک اور استبدادی رویہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک طاقت ور ملک چھوٹے اور کمزور علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے اور ان کا سیاسی، سماجی، ثقافتی، تہذیبی اور مالی معاشی استحصال کرتاہے۔
فوجی قوت اور سیاسی سازشوں سے مقبوضہ قوم کے قومی اداروں زبان تاریخ شناخت اور ثقافت کو تباہ وبربادکرتاہے یہ زیر تسلط قومی و مقامی خطے کو ” سونے کی چڑیا” تصور کرتے ہوئے ان کے قومی و ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹتاہے۔ جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے اصل باشندوں پر قبضہ گیر اپنے قوانین، معاشرت،سیاست اور حکومت مسلط کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قابض اور نوآبادی مقبوضہ کے درمیان نا انصافی اور جبر پر مبنی ایک تعلق ہوتاہے اس کی بنیاد نوآبادی کے استحصال پر رکھی جاتی ہے بلوچستان پر قبضہ بھی نوآبادیاتی قبضہ ہے یہاں یہ کنفیوژن پھیلائی گئی ہے کہ پاکستان کوئی فیڈریشن،کثیر القومی یاکثیر السانی اسلامی ملک ہے یہ تیسرے درجہ کا جھوٹ، تاریخی معروضیت اور حقائق کی سراسرمنافی ہے۔
ہندوستان کی جبری تقسیم کی تاریخ کو اگر سامنے رکھاجائے تو پاکستان صرف بنگال اور پنجاب کانام تھا جو مشرقی و مغربی پاکستان کے نام سے جانا جاتا تھا 23 مارچ 1948 کو قلات پر فوجی کشی کی گئی اور بلوچستان کو بلجبر پاکستان میں شامل کردیا گیا اس طرح 6 جون 1947کو سندھ کو زبردستی شامل کیا گیا مرحلہ وار اسی طرح سرحد موجودہ خیبر پختونخواء کو نام نہاد ریفرنڈم کے زریعہ پاکستان میں شامل کیا گیا خان غفار خان اور جمیعت علمائے ہند نے اس کی بھر پور اور شدید مخالفت کی اور اس عمل کو زبردستی انضمام کا نام دیا ۔
جس سے یہ تاریخی صداقت آشکار ہوتی ہے کہ بلوچستان سندھ سرحد یا گلگت بلتستان یہ اس کی قبضہ اور توسیع پسندی کا ایک وسیع جال ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہوئے ریاست کا یہ جھوٹ بے نقاب ہوتاہے کہ پاکستان ایک کثیر القومی ملک یا فیڈریشن ہے اول تو یہ کہ پاکستان ایک قومی ریاست نہیں ایک کالونی ہے ریاستیں مذہب کے نام پر نہیں بنتے بلکہ قوموں کے نام پر بنائی جاتی ہے مسلم قوم کا تصورسرے سے ہی غلط ہے نہ اس کا سر ہے نہ پاؤں اگر مسلم قومیت کی کوئی حقیقت ہوتی تو دنیا کے دیگر مسلمان الگ الگ قومی ریاستوں میں کیوں جڑے ہوتے اگر ہندو مسلم تضاد کو مان کر کردو قومی نظریہ کے نام پرپاکستان بناتو پھر غیر مسلم بنگال بننے کا کیا جواز اور بنیاد تھی؟ اگر پاکستان بنانے کے لئے مسلمانیت جواز تھا تو پھر ہندوستان کے مسلمان اپنی تشخص ہندو قومیت سے کیوں متعارف کرواتے ہیں؟ ڈاکٹر زاکر نائیک جو بڑے مسلمان مبلغ اور عالم ہے لیکن وہ قومیت سرزمین کے حوالہ سے خود کو ہندو کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔
اسی طرح ہندوستان کے تمام مسلمان اکابر خود کو ہندو قومیت یا سینہ کھول کر ہندوستانی کہتے ہیں اگر ہندو مسلم تضاد کے نام پر پاکستان کی وجود قائم کی گئی تو دیکھنا پڑے گا کہ ہندوستان میں تو پاکستان سے زیاد
ہ آبادی کے ساتھ مسلمان رہتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان پر کئی سو سال تک مسلم عقیدہ سے تعلق رکھنے والوں کی حکومت رہی ہے ہندوستان میں مسلمان آج بھی مزہب حج روزے اور نماز ادا کرتے ہیں اسلام کے نام پر قومیت کا دعوی تاریخی فکری اور سائنسی حقائق سے روگردانی پر مبنی ہے۔
قومیت کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ نسلی تاریخی اور جغرافیائی حوالہ سے ہوتاہے دنیا میں دیگر مسلمان عرب مصری شامی۔ عراقی، فلسطینی افغان سب الگ الگ قومیں ہیں اس طرح دنیا میں جرمن فرانسیسی انگریز اور امریکی الگ اقوام ہے ایک ہی مذہب کے پیروکاری کی باوجود الگ الگ اقوام اور ریاستیں ہیں مسلم قومیت ایک خیالی اور خودساختہ نظریہ ہے جو قوم قومیت اور قومی ریاست کے شرائط،اہداف اور تقاضے پورا نہیں کرتا اگر مسلمان ہونے کے ناطے قومیت کا جواز ہے تو پھر مسلم ممالک کے بیچ مسلمانوں کی آمدرفت پر ویزے اور امیگریشن کی رکاوٹیں کیوں ہیں؟ مسلم ملکوں میں آج پاکستانی پاسپورٹ کیوں اتنی کیوں بے معنی کمزور اور کاغذ کے ایک پرزہ کے رہ گئی ہے جب کوئی بھی شخص پاکستانی پاسپورٹ پر باہر عرب ممالک جاتی ہے تو ایئر پورٹ پر اس کی سخت جامہ تلاشی لی جاتی ہے ان پر کڑی نگرانی اور آنکھیں چار کی جاتی ہے انہیں مسلم ہونے کے ناطے کیوں رعایت نہیں ملتی؟۔
لیکن اگر وہاں کوئی ہندوستانی پاسپورٹ پہ جاتاہے تو اس کے ساتھ باہمی احترام کے ساتھ سلوک کیا جاتاہے حتی کے دبئی کے برج خلیفہ پر ہندوستان کی یوم آزادی پر ترنگے کے ساتھ ہندوستان کا جھنڈا روشن کیا جاتاہے یہاں جو مغالطے پاکستانی دانشورز پھیلا رہے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے یا پاکستان اس وقت بنا جب ہندوستان پر محمد بن قاسم نے حملہ کیا یا یہ اس وقت بنا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوگیاتاریخ کا اس طرح حلیہ بگاڑ کر اسے مسخ کرنا دنیا میں صرف پاکستانی نوآبادیت کا خمیر اور شیوہ رہا ہے پچھلے کئی دہائیوں سے یہ جس طرح اپنی نصاب میں برصغیر کی تاریخ اور بلوچ قوم کی تاریخ کو تروڑ مروڑ کرکے پیش کرکے جتنی ہوشیار اور مکار بننے کی کوشش کررہے ہیں یہ اسی رفتار سے خود کو دنیا کے سامنے مضحکہ انگیز بنارہے ہیں ۔
اس طرح عربوں کی تاریخ کو انہوں نے مسلط کرکے اسلامی کہا اور عرب حملہ آوروں کو اپنا قومی ہیروبناکر اپنی نوآبادیاتی تاریخ کا حصہ بنایا جب اس کاکوئی فطری اور اخلاقی جواز نہیں پاکستانی ریاست خود ایک کالونی ہے جو برطانیہ سامراج کی کھوکھ سے جنم لی ہے جس کاخمیر نوآبادیت سے بنی ہے جسے برٹش قبضہ گیروں نے اس خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور فوجی و سیاسی اتھارٹی کے لے بنایااور آج تک یہ عالمی سامراج کے ایک رکھیل کے طورپر سروائیو کررہاہے۔
دوئم یہ کہ فیڈریشن یا وفاق کا عمومی تصور یہ نہیں جو پاکستانی دانشور ز کا زہنی اختراع ہے فیڈریشن مختلف خود مختیار ریاستوں کے مابین ایک اتحاد یا یونین ہوتاہے جو رضاکارانہ طوربرابری کے بنیاد باہمی رضامندی پر ایک وفاق تشکیل دیتے ہیں جو ایک ہی حکومت کے ماتحت کام کرتے ہیں جس طرح ریاستہائے متحدہ امریکہUSA))ایک فیڈریشن ہے یا یونائیڈڈ کنگڈم(UK) یا متحدہ عرب اماارات(UAE) یا ایک وقت میں سویت فیڈرریشن(USSR) تھی۔
دوسری جو مغالطہ ہے وہ کثیر القومی ریاست یا وحدانی ریاست کا تصور جسے اکثر بلوچ قوم دوستی کے نام پر سیاست کرنے والے جماعتیں پاکستانیت میں ڈھل کر اپنی جداگانہ شناخت اور حیثیت کو بھول کر استعمال کرکے اپنے بیانیہ اور پارٹی منشور کا حصہ بناتے ہوئے اور بعض اوقات مختلف فورمز پر اپنے گالوں کو سہلاتے ہوئے مجرمانہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان تمام قوموں کا مشترکہ وطن ہے یہ ایک غلط اور گمراہ کن اصطلاح ہے پاکستان کثیر القومی ریاست نہیں بلکہ عالمی سامراج کا ایک چراگاہ اور انگریزوں کا ایک مفتوحہ علاقہ ہے پاکستان نہ ایک وحدت ہے اور نہ کوئی وحدانی ریاست اور نہ ہی پاکستانی کوئی قوم ہے البتہ قوم کی اجزائے تراکیب کی رو سے اگر دیکھاجائے تو بلوچ ایک قوم ہے افغان ایک قوم سندھی ایک قوم ہے بلوچ خطے کی تاریخ ایک درخشان میراث کے طور پر موجود ہے کہ برٹش قبضہ گیر یت سے پہلے بھی بلوچستان ایک آزاد و خودمختیار ریاست تھی بلوچ کسی بھی اعتبار سے پاکستانی ریاست کا نہ تو صوبہ ہے نہ کسی نام نہاد فیڈریشن کا انتظامی یونٹ ہے نہ کسی کثیر القومی ریاست کا حصہ ہے بلوچستان مقبوضہ اور متنازعہ خطہ ہے ہمیں کسی کنفیوژن اور الجھاؤ سے نکل کر بلوچ قومی مسئلہ کے منطقی حل کے حوالہ سے اس دوٹوک موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے کہ بلوچ قومی مسئلہ1948کے پاکستانی ریاست کے نو آبادیاتی قبضہ کا خاتمہ اور بلوچ قومی ریاست کے بحالی ہے آزادی سے کم کوئی بھی موقف نہ صرف ریاستی غلامی کو قبول کرناہے بلکہ اس کا حصہ بن جانے کی مترادف ہے سب سے اول یہ کہ پاکستان کے ساتھ بلوچ قوم کا کوئی رضاکارانہ الحاق نہیں اور نہ ہی اس میں بلوچ قوم کی رضامندی شامل ہے۔
(جاری)
٭٭٭