بلوچ قومی مسئلہ کا حل کیا ہے؟ زمینی و تاریخی حقائق | رامین بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
13 Min Read

(حصہ اول )

بلوچ قومی مسئلہ دیومالائی افسانہ یا ”متھ“نہیں ہے یہ ایک پیچیدہ اور مشکل سبجیکٹ نہیں ہے کہ کسی کی سمجھ سے بالاتر ہو بلکہ اس کی جڑیں زمینی اور تاریخی ہیں۔ یہ کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں بلکہ بلوچ مملکت کے کروڑوں دیس وادیوں کی آزادی کا مسئلہ ہے ان کی خوشحال آزاد اور باوقار مستقبل کا مسئلہ ہے۔ 1947سے اب تک زیر سطح یا منظر عام پر جو تحریک خون سے ایندھن لے کر ایک اٹوٹ تسلسل کے ساتھ قربانیوں کے سمندر سے گزرتے ہوئے آج اس مقام تک پہنچاہے جہاں سے واپسی کے تمام راستے آزادی کی راہ تک رہے ہوں اگر پھر بھی کوئی اس موقف میں ابہام اور پیچیدگی پیدا کررہاہو تو وہ منافقانہ اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔چائے وہ قبضہ گیر کے کیمپ سے ہے یا مقبوضہ قوم کے کسی فرد یا جماعت سے ہو، کوئی بھی ہواور سماج میں اس کی کوئی بھی حیثیت اور منصب ہو وہ تاریخ کے کٹہرے میں بلوچ قوم کو جواب دہ ہے۔

ہر قومی جہد کار کی طرح میرا بھی بلوچ نیشنلزم اور قومی آزادی کی جدوجہد پر غیر متزلزل یقین ہے کہ جہد آزادی کی کامیابی اور کامل فتح کے لے بلوچ قوم ایک نسل سے دوسرے نسل اور پھر تیسری نسل تک اپنے جانوں سے گزرکر جو سنگ میل عبور کررہی ہے یقیناً ایک وقت اور ایک عہد ایسا بھی آئے گا جہاں بلوچ آزاد اور خوشحالی کی زندگی بسر کررہی ہوگی۔ ایک غلام خطہ میں کھبی آزادی کا سر اٹھاتا ہوا پرچم ضرور بلند ہوگا ۔یہاں ایک نقطہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ قبضہ گیر ریاست کے ساتھ بلوچ قومی غلامی کو مضبوط کرنے میں وہ جماعتیں اور افرادبرابر کے شریک ہیں جنہوں نے بلوچ قومی مسئلہ کو زمینی حقائق کے بر خلاف پیش کرکے جو تاریخی بے ایمانی کی وہ تاریخ کے احتساب سے بری الذمہ نہیں۔ زیر نظر مضمون میں جو چیدہ چیدہ نکات ضبط قلم لائی گئی ہیں وہ بلوچ قومی مسئلہ کے حل کے حوالہ سے مختلف ادوار میں ریاست کی گمراہ کن پروپیگنڈے اور بلوچ کٹھ پتلی قوم پرستوں کے کردار و سیاست اور بیانیہ کے حوالہ سے ایک تنقیدی جائزہ ہے۔

میں اب تقریباً چالیس سال کا ہوچکا ہوں ،عمر کے اس حصہ تک پہنچتے ہوئے میر ا تعلق نہ صرف لٹریچر سے رہاہے بلکہ میں لکھتا اور پڑھتارہاہوں ۔میرے چھوٹے سے کتب خانے میں بلوچ قومی آزادی اوردنیا بھر کے آزادی کی تحریکوں کے بارے میں کتابیں اور جدوجہد کے احوال، داستانیں واقعات میرے مطالعہ کا حصہ ہے ۔میں دعویٰ نہیں کرتا کہ میں کوئی بڑا لکھاری یا دانشورہو ں یا مجھے قلم اور لکھنے پر اتنی گرفت ہے ۔بس جو محسوس کرتاہوں یا جو زمین پر دیکھتاہوں وہی حقائق قلم کے سپرد کرتاہوں بغیر کسی مصلحت دباؤ یا گھٹن یا سنسر شپ کو خاطر میں لاکر اپنے خیالات الفاظ جملے پیراگراف اور بنتے ٹوٹتے ایک کالم کی شکل میں سامنے لاتاہوں۔

بیس سال سے زائد کاعرصہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے کہیں بلواسطہ اور اور کہیں بلاواسطہ جڑی رہی ۔ہر وژنری ساتھی کی طرح نظریاتی شعوری اور فکری بلوغت کو پہنچتے ہوئے طویل وقت درکار ہوتاہے ارتقاء سے تبدیلی کے لے ایک بحر بیکران جدوجہد سے سامنا ہوتاہے۔میں جب سولہ سال کا تھا تو بی ایس او کے ممبر شپ میں رہ کر اپنی سیاسی کیریئر کا آغاز کیا ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او کا بلوچ قومی تحریک میں کردارنرسری یا مدر آرگنائزیشن کا ہے جو کیڈروں کو ایک ایک اور دو دو کرتے ہوئے جیتتے ہوئے ان کی تربیت اور ذہن سازی کرتی ہے ۔ان کی فکری اور سیاسی نشود نماء کرتی ہے لیکن بدقسمتی کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے لئے بھی شروع سے ایک آزاد و خودمختیار ادارہ کے طور پرپھلنے پھولنے کے مواقع مسدود کردیئے گئے ۔اس کی بڑی وجہ ریاست کا اس ادارہ کی نظریاتی قوت سے خوف تھا جو بی ایس او کے پلیٹ فارم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ بی ایس او کو پارلیمانی پارٹیوں کے لئے سٹپنی اور پاکٹ کا کردار ادا کرنے کے لئے گراؤنڈ تیار کیا گیا، بلوچ نوجوانوں کو ان کی منزل اور اہداف سے ہٹانے کے لئے تقسیم کیا گیا ،نوجوانوں میں انتشار پیدا کیا گیا۔

بظاہر بلوچ قوم پرستی کے نام پر بننے والے پاکستانی فیڈریشن کے دھارے میں شامل پارٹیوں کو ایک منظم ایجنڈا کے تحت یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ بی ایس او کو آزاد و خود مختیار ادارہ کے طورپررہنے دینے کے بجائے اسے ان پارٹیوں کی جھنڈا برداری اور ان کے نعرے اور ان کے تھیسز کے لئے استعمال کیا جائے اور بی ایس اور کو بلوچ قومی آزادی کی راہ سے الگ کرنے کے لئے حتی الامکان کوشش کی گئی اور یہ فرسودہ سوچ آج بھی بی ایس اور کے مختلف دھڑوں کی شکل میں حاوی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قبضہ گیر ریاست اور بشمول کٹھ پتلی قوم پرست دونوں نے ہر دور میں بی ایس او کو نو آبادیاتی فارمولے کے تحت توڑا اور تقسیم کیا گیا اور یہاں تک تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے رائے عامہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ ریاست پاکستان ایک کثیر القومی اور کثیر الثقافتی فیڈریشن یا ریاست ہے اور اسے بی ایس او کے بیانیہ میں شامل کیا گیا۔

معلوم تاریخ کے مطابق بی ایس او کی بنیاد 1962 میں جنرل ایوب خان کے زمانہ میں رکھی گئی۔ اس وقت سیاسی جدوجہد پر مکمل بین تھی جس کی وجہ سے اس میں حکمت عملی کے تحت لفظ ایجوکیشنل کے اضافہ کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایاگیا۔اس میں کوئی ابہام نہیں کہ بی ایس او کا بنیادی نصب العین حق خودارادیت یا دوسرے معنوں میں آزادی کا تھا لیکن اس وقت کے بی ایس او کے سنجیدہ قیادت ایک میکنزم کے تحت معروضی حالات کے پیش نظر قومی آزادی کی موقف کو درست حکمت کے تحت عارضی طور پر پس منظر میں رکھاگیا تاکہ قابض ریاست ان کی سیاسی سر گرمیوں کے لئے فوری طور پر رکاوٹ پیدا نہ کرسکے اور انہیں بلا رکاوٹ سخت گیر لائحہ عمل کے لئے مناسب موقع مل سکے تاکہ وہ اس دورانیہ میں اس پلیٹ فارم کے ذریعہ سے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کو منظم و یکجاء کیا جاسکے بلکہ ان کی سیاسی و فکری و ذہنی تربیت کرکے تنظیم کو ناقابل تسخیر قومی قوت کی بنیادپر رکھا جائے۔

ابتدائی چھ سالوں میں تنظیم کاری کا عمل صرف کراچی تک محدود رکھاگیا ۔جب کہ باقی ماندہ بلوچ علاقوں کے نوجوان بی ایس او کے پروگرام لائحہ عمل سے اس قدر باخبر نہیں تھے کیونکہ تنظیمی سر گرمیاں صرف کراچی کے گرد نواح تک محدود تھے لیکن آہستہ ہستہ تنظیم کے ریکرومنٹ کادائرہ وسیع پیمانے پر آگے بڑھاتے ہوئے تنظیم کے مخلص باشعور اور سنجیدہ قیادت نے فیصلہ کیا کہ تنظیم کے پلیٹ فارم کو بلوچستان بھر میں منظم و مشترک کیا جائے تاکہ بلوچ نوجوانوں کی وسیع کھیپ اس پلیٹ فارم کا حصہ بنے ۔اس سلسلے میں بی ایس ای اوکی قیادت نے مکران سٹوڈنس فیڈریشن کے نام سے قائم طلباء تنظیم کے ساتھ رابطہ سازی کا آغاز کرکے بلوچ مملکت کے کونے کونے میں بلوچ نوجوانوں کے ساتھ رابطہ کی۔ا س مثبت پیش قدمی اور نوجوانوں کی الگ الگ پلیٹ فارم سے کام کرنے کے حوالے سے اشتراک و انضمام کی کوششیں کی گئیں جو نتیجہ خیز ثابت ہوئیں جبکہ بعد کے چھ سال کی ان تھک اور مسلسل تنظیم کاری کے بعد26 نومبر1967 کو بی ایس او کے اولین کونسل سیشن میں تنظیم کا با ضابطہ نام بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن رکھ دیا گیا اور تنظیم کے منشور میں قومی حق خود ارادیت کی حصول کے لئے جدوجہدکا ایجنڈا نمایاں طور پر شامل کیا گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی ایس او بحیثیت ادارہ ایک طلباء تنظیم سے بڑھ کر بلوچ سماج میں ایک درسگاہ کا کردار ادا کرتے ہوئے بلوچ قوم دوستی کے نظریات کو ہر اول دستے کے طور پر ابھارنے کی کوشش کرکے بلوچ نوجوانوں کی فکر ی اور نظریاتی معیار و طاقت میں اضافہ کا باعث بنی ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بی ایس او کو ایک آزاد وخومختیار اور مضبوط ادارہ کے طورپر کام کرنے کے لئے ابتداء ہی سے مختلف چیلنجوں کا سامنارہا ۔اپنے اولین کونسل سیشن کے بعد بی ایس او کی قیادت اختلافات کا شکار ہوئی اور بی ایس او پرو اور اینٹی سردار دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ایک گروپ نے اپنی الگ شناخت کو عوامی کے نام سے برقرار رکھا ۔دونوں گروپوں کا جھکاہو الگ الگ پارلیمانی جماعتوں کی جانب تھا ۔ ایک گروپ نے نیشنل عوامی پارٹی کی حمایت کی اور دوسرے دھڑے نے پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور کیچڑ اچھالی گئی۔ المیہ یہ ہے کہ اس دوران بی ایس او کے بعض کیڈرزنظریاتی زوال پذیر ی کا شکارہوکر اپنی رائیں جدا کر چکے تھے اور ان میں سے کچھ قوم دوستی کی سیاست اور بی ایس او کے حلف نامہ کو روندھ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔لیکن 70 کے دہائی میں ایک دفعہ پھر تنظیم کو نئی اور تازہ دم قیادت میسر ہو ا۔

تنظیم کی روح اور اساس کو ایک نئی طاقت اس وقت ملی جب بی ایس او کی قیادت میر عبدالنبی بنگلزئی کے ہاتھوں میں آئی ۔جنہوں نے قیادت کو عمومی طور پر ایک فیشن سمجھنے کے بجائے بی ایس او کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کر کے ایک سخت گیر ڈسپلن اور مرکزیت کے ساتھ تنظیم سے فکری و نظریاتی ابہام کو ختم کرکے قومی آزادی کے حوالہ سے فیصلہ کن موقف اپنایا ۔ انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ نوجوانوں کو منظم و متحرک کیا ۔یہ وہ دہائی تھے جب بھٹو نے بلوچستان میں فوجی جارحیت کا آغاز کیا اور مری بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنایا، ہزاروں مری بلوچوں کا قتل عام کیا گیا، بچے اور خواتین کو نشانہ بنا یا گیا۔ مری علاقوں پر ہزاروں ٹن بارود گرائے گئے۔ اس پیمانے کی ماس کلنگ کے خلاف بی ایس او نے بھر پور احتجاج کیا جس کے بعد ریاست نے بی ایس او اور بلوچ آزادی پسند راہنمائوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جس سے بابائے بلوچ خیر بخش مری ہزاروں مری اور دیگر بلوچ دوستوں کے ہمراہداری میں جلاء وطنی اختیار کرکے افغانستان چلے گئے۔اور بی ایس او کے بعض رہنماء بھی نواب مری کے ہمراہی میں جلاء وطن ہوگئے اور بعض نے زیر زمین رہ کر کمیوفلاج کے طور پر بلوچ نوجوانوں کو سخت ترین حالات میں منظم و یکجا کیا۔ 

(جاری ہے)

٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment