قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔5
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن
”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)
(پانچویں قسط)
بحیثیت ِ قائم مقام سینئیر وائس چیئرمین:۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تقسیم کے بعد حالات اس نہج پہ پہنچ چکے تھے کہ بلوچ نوجوان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔اور اکثر ان کے درمیان لڑائیاں ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے بلوچ قوم کوایک اذیت ناک دور سے گزرنا پڑا۔کہور خان کے بی ایس او سہب بننے کے بعد آپ (شہید غلام محمد) تنظیم کے قائم مقام مرکزی سنیئروائس چیئرمین کے فرائض انجام دیتے رہے۔اس گمبیر صورت حال میں آپکی سیاسی اپروچ اوربلوچ عوام وبلوچ طلباء سے فکری نظریاتی وابستگی نے آپ غلام محمدکو چیئرمین کے لقب سے نوازا۔ آپ جہاں بھی جاتے لوگ آپ کو آپکے نام سے کم اور چیئرمین کے نام سے زیادہ پکارتے تھے۔چیئرمین کا یہ لقب آپ کے لیے زبانِ زدِ عام ہوگیا اورآپ کو آخر وقت تک بلکہ جب آپ بلوچستان نیشنل موومنٹ کے صدر منتخب ہوئے تب بھی آپ کو اکثر دوست چیئرمین کہہ کر پکارتے تھے اور آج جب آپ کی شہادت کو ایک عشرہ ہوچکا ہے تو بھی لوگ آپ شہید کو چیئرمین غلامحمد کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔
آپ کی سیاسی بصیرت، قومی تحریک میں انتھک محنت، تحریک کو نئے خطوط پہ استوار کرنا جہاں آپ نے بلوچ سیاسی تاریخ میں پہلی مربتہ شخصیات کے بجائے اداروں کو فیصلہ سازی کا اختیار دیا اور مخلصانہ کردار اور عمل کی بدولت چیئرمین کا یہ لقب بلوچ نوجوانوں اور مہربا ن بلوچ قوم کی جانب ایک تحفے کی شکل اختیار کرتے ہوئے آپ کی پہچان بن گیا۔جورہتی دنیا تک آپ کے اسم گرامی کے ساتھ منسلک رہیگا۔
بی ایس او سہب کے بننے کے بعد جب حاالات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے تو آپ (چیئرمین)نے بحیثیت سنیئر وائس چیئرمین تنظیم کو اس نازک دور میں منتشر ہونے سے بچانے کے لیے دن رات سر جوڑ کوششیں کیں تاکہ بلوچ نوجوان ان حالات کا شکار نہ ہوں جس سے ریاستی خواہشات پوری ہوں۔
ان حالات میں ایک جگہ بیٹھ کے کام کرنا یقیناً ممکن نہیں تھا۔ جہاں عوام اور بلوچ نوجوان مایوسی کا شکار تھے۔لہذا عوام اور کارکنوں کو حقیقت سے روشناس کرانے کے لیے آپ (شہید) نے بلوچستان سمیت سندھ کا دورہ بھی کیا۔آپ کی اس محنت سے قوم کے سامنے بی ایس او سہب کے بننے کی اصل محرکات آشکار ہوگئے جس کی وجہ سے عوام اور بلوچ نوجوانوں میں مایوسی کی وہ کیفیت جو کچھ عرصہ پہلے تھا اب ختم ہورہاتھا۔
بی ایس او سہب نے اس دوران حتی الوسع کوشش کی کہ بلوچ انقلابی پارٹی کے قیام کا عمل ممکن نہ ہو۔ میں نہیں جانتا کہ ان کا اختلاف شہید فدااحمد بلوچ کے ساتھ تھا یا بلوچ سرداروں کے ساتھ، حالانکہ شہید فدا نے بعد میں جس پارٹی کی بنیاد رکھ دی اس کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ پارٹی نوجوانوں پہ مشتمل ہوگا۔ اس میں سردار یا دیگر طبقات کا کام ہی کیا۔ ہاں البتہ اگر بلوچ قومی تحریک کو اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے کوئی سردار بھی آگے لے کے جائے تو اس میں ا عترازاور مخالفت کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔کیونکہ پارٹی کے ہوتے ہوئے کوئی فرد اپنی من مانی کر ہی نہیں سکتا۔ بلوچ قوم کی بد بختی کہ انہوں نے پارٹی سیاست کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی اور کہور خان اور اس کے حواریوں پہ بھی اسی روایتی سیاست کے اثرات تھے جہاں وہ اب تک مایوسی کا شکار تھے یا دوسری وجہ کہ وہ واقعی ریاستی اداروں کی ساجھے داری کررہے تھے۔بحرحال حقیقت جو بھی ہو80 ء کی دہائی میں کہور اور اس کے حواریوں کی وجہ سے بلوچ قوم کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اپنی محنت اور دور اندیشی کی بنیاد پہ بہت جلد اس کا سابقہ مقام دلانے میں کامیاب ہوئے۔جہاں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک منظم شکل اختیار کرگیا۔
بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کا قیام:۔
کہور خان اور اس کے ہمنواوں کے ہزار اختلاف اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو دولخت کرنے کے باوجود بھی شہید فدا بلوچ نے بلوچ طلباء تنظیم(BSO) کے دوستوں جن میں شہید غلام محمد بلوچ پیش پیش تھے کے تعاون سے جنوری1987ء میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کی بنیاد رکھ دی۔انہی دنوں میں بھی عربوں کی غلامی چھوڑ کے واپس بلوچستان میں آچکاتھا اور اس ساری صورتحال کا بخوبی مشاہدہ کررہاتھا۔ پارٹی پروگرام کے حوالے سے میں بذاتِ خود اس میٹنگ کا حصہ تھا جس میں پارٹی کے قیام کی تاریخ کا فیصلہ کیا گیا۔ اس میٹنگ کی صدارت شہید فدا بلوچ کررہے تھے جہاں آپ کے پہلو میں شہید غلامحمد بلوچ بھی بیٹھے تھے۔یہ میٹنگ مند میں بہرام خان بلوچ کے گھر میں منعقد ہوا۔میٹنگ میں ڈاکٹر حئی اور ڈاکٹر مالک بھی موجود تھے جو اس وقت شہید فدا کو یہ یقین دلاچکے تھے کہ ہم وطن کی آزادی تک جدوجہد کرتے رہینگے۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ عمل سے عاری لوگ وقت آنے پر اپنے مفادات کسی اور سے وابستہ کرسکتے ہیں چاہے اس میں انہیں مادرِ وطن کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ مالک اور حئی کا کردار بھی آج بلوچ قوم کے سامنے ہے جنہوں نے ذاتی مراعات کی خاطر وطن عزیز اور بلوچ قوم کو اغیار کے ہاتھوں یرغمال بنایا اور ساتھ ہزاروں بلوچوں کے خون سے بھی ان کے ہاتھ رنگے ہیں جہاں وہ بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف ریاست کے شانہ بشانہ اپنے تشکیل کردہ کرائے کے سپائیوں کے ساتھ بلوچ قوم کے خلاف مسلح کاروائیوں میں مصرفِ عمل ہیں۔
بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے پہلے اجلاس میں بلوچ قومی حق خوداراریت بشمول علیحدگی کے پروگرام کو واضح انداز میں پیش کیا گیا اوراس میں یہ واضح کیا گیا کہ ہمارا مقصدپاکستانی پارلیمنٹ میں جانے سے کبھی حل نہیں ہوگا اسی لیے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ غیر پارلیمانی سیاست کے ذریعے جدوجہد کا اعلان کرتی ہے۔شہید فدا احمد بلوچ نے اس اجلاس میں جس کی صدارت کررہے تھے کہا کہ یہی پارٹی کے اغراض و مقاصد ہیں۔انہوں نے مزید یہ کہا کہ کام مشکل ہے، پر ناممکن نہیں۔ اس راہ میں ہزاروں مصیبتوں کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا لیکن کامیابی ہمارا مقدر بنے گی بشرطیکہ ہم ثابت قدمی سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
نو تشکیل شدہ قومی پارٹی کے نظریہ نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین میں بھی مقبول ہورہاتھا جہاں انہوں نے عملی طور پر پارٹی کے پروگراموں میں باقائدہ حصہ لینا شروع کیا جو ایک بڑی پیش رفت تھی۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ میں اپنا مستقبل دیکھ چکے تھے لہذا وہ کھل کر شہید فدا احمد بلوچ اور اس کی تشکیل کردہ پارٹی کی نہ صرف حمایت کرنے لگے بلکہ عملی طور پہ پارٹی کے جلسوں اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرنے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشنکے کارکنان کے اس عمل کی بدولت اس وقت بلوچ طلباء تنظیم ایک قومی انقلابی تحریک کی شکل اختیار کرچکا تھا۔نوجوانوں اور بلوچ قوم میں مقبولیت کے پیش نظرتنظیم کے جھنڈے کا لوگو(Logo) یعنی مشعل اور ستارہ کے طرز کے کپڑے بازاروں میں سرِعام فروخت ہونے لگیں اور اکثر بلوچ بچے ایسے کپڑے زیب کرنے لگے تھے۔اورخواتین نے اس مقدس بیرک کو چادر بنا کراُڑھنا شروع کیا تھا۔اس کے علاوہ شہید غلام محمد سے عوام کی محبت کے باعث مارکیٹوں میں چیئرمین کے نام سے منسوب زنانہ بلوچی کپڑے بننے لگے تھے۔اس سے عوام میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور شہید غلام محمد کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ ان سے کس حد تک محبت کرتے تھے۔
آپ (شہید غلام محمد) اور شہید کامریڈ فدا جان کی سیاسی قابلیت اور مخلصانہ قیادت میں بلوچ خواتیں بھی قومی تحریک میں شامل ہونے لگیں تھے جو کہ بلوچ سماج میں ایک بڑی تبدیلی تھی۔بلوچ خواتین بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے جلسوں اور ریلیوں میں حصہ داری کو اپنے اولین فرائض میں شامل کرچکے تھے اور وہ سیاست کے میدان میں عملی طور پر حصہ لے کر بلوچ عوام اور دنیا کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ اس جدید دور میں جہاں دنیا کے خواتین تبدیلی اور انقلابی عمل میں سب سے اہم کردار ادا کرسکتی ہے تو بلوچ خواتین اس دورِ جدید میں کیونکر کسی سے پیچھے رہ سکتی ہے۔ بلوچ خواتین کا سیاسی عمل میں شمولیت اس بات کا ثبوت تھا کہ بلوچ اب انقلاب کے لیے تیار ہیں اور اپنے عمل سے خواتین نے ہر موقع پہ یہ ثابت بھی کیاکہ ہم اس جدید دور میں اپنی قوم کو غلامی کے اندھیروں میں نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ بلوچ کسی غیر قوم کی غلامی میں زندگی گزاریں۔
اسی سال1987ء میں بلوچ سٹوڈنتس آرگنائزیشن اور بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ نے مکران کے علاقہ ”مند ”میں ناموربلوچ شعراء ملافاضل اور ملا قاسم کی یاد میں ایک عوامی جلسے کا انعقاد کیا۔جلسے سے قبل ملا فاضل اور ملا قاسم کے مزاروں کی از سرِ نوع تعمیر ہوئی۔ اس جلسے میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے بلوچ عوام نے شمولیت کی جن بلوچ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اس دور میں بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں اس طرز کا پہلا جلسہ تھا جس میں بلوچ خواتین کی ایک بڑی اکثریت نے حصہ لیا۔ اور اپنی شمولیت سے انہوں نے اس جلسے کو بلوچ تاریخ میں ایک منفرد مقام عطاء کیا۔ قائدین کے استقبال کے لیے عوام کا غوطے مارتا سمندر ٹوٹ پڑا جو اپنے قائدین سے ان کی بے پناہ محبت کا اظہار تھا۔شرکاء نے ”دوکوپ” سے سابقہ مڈل سکول مند سورو تک جو کہ12 کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے پر جوش نعروں سے جلسے کے رنگ کو دوبالا کردیا۔یہ چونکہ شہید غلام محمد بلوچ کا آبائی علاقہ ہے لہذا شہید غلام محمد بلوچ کا اس جلسے میں نام ہر بلوچ کی زبان پہ تھا جہاں ہر کوئی چیئرمین غلام محمد بلوچ کو اس کامیاب جلسے کے انعقاد پہ خراج تحسین پیش کررہاتھا۔
غلامحمد بلوچ(سنیئروائس چیئرمین) اب لوگوں کی آزادی کی امید بن چکا تھا۔عوام کو اب یہ یقین ہوچلا تھا کہ بلوچ آزادی کی تحریک کی آج بنیاد رکھ دی گئی ہے۔اس جلسے میں ایک اور بڑی تبدیلی جو دیکھنے میں آئی وہ بلوچ کم سن بچوں کا بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بیرک کے طرز کے کپڑے تھے جو انہوں نے زیب تن کیے تھے اور بلوچ خواتین کے وہ چادر جو بلوچ طلباء تنظیم کے مشعل اور ستارہ سے مزیں تھے قابل تحسین عمل تھا۔ وہ یقیناً ایک ناقابلِ فراموش دن تھا جسے آج تیس سال سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن آج بھی جب میں اس دن کو یاد کرتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب سے کچھ لمحے قبل یہ جلسہ منعقد ہوا تھا۔ان لمحات کو شاید کوئی کافر ہی بھول سکتا ہو جہاں بلوچ خواتین نے قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنے دوپٹے جن پہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشنکا مشعل اور ستارہ آویزاں تھے لہراتے ہوئے آزادی کے جوش نعروں کے ذریعے باہر سے آنے والے مہمانوں اور قائدین کا استقبال کررہی تھیں۔
اس عوامی جلسے کی صدارت شہید کامریڈ فدا احمد بلوچ کررہے تھے۔سٹیج پہ آپ(شہید چیئرمین) موجود تھے۔آپ (واجہ شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ) اورشہید کامریڈ فدا بلوچ نے جلسے میں پراثر تقاریرکرکے جلسے میں موجود بلوچوں میں نئی روح پھونک دی اور بلوچ قومی حق خوداراریت بشمول حق علیحدگی کے فلسفے اور پروگرام کابلوچ عوام کے سامنے آسان لفظوں میں وضاحت کیا۔جس کی وجہ سے عوام میں آزادی کی تڑپ مزید بڑھ گئی اور جلسہ گاہ آزادی کے نعروں سے گھونج اٹھا۔آپ شہید غلام محمد بلوچ نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ بلوچ قوم جب تک پاکستان کی غلامی میں رہیگا وہ کبھی بھی دنیا کے ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ نہیں کرپائے گا لہذا آنے والی نسلوں کو ایک روشن مستقبل دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بلوچ وطن کی حقِ خودرادیت اور حقِ علیحدگی کے نظریے کے تحت اپنی جدوجہد کو آگے بڑھاتے رہیں۔آپ نے یہ کہا کہ یہ راستہ بڑا کھٹن اور صبر آزامء ہے کیونکہ آزادی قوموں کو چند نعروں یا عوامی اجتماعات کے انعقاد سے نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے اپنے آپ کو عملی جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہوگا۔شہید غلام محمد بلوچ نے اس جلسے میں بلوچ قوم پہ اس بات کو واضح کیا کہ ہمیں پاکستانی پارلیمنٹ سے امیدیں نہیں باندھنی چاہیے وہ فقط بلوچوں کے لیے زیرِ قاتل ہوگا۔ کیونکہ جب غلاموں نے اپنے آقاؤں کے آگے سرجھکانے کو ترجیح دی وہ صفحہ ہستی سے ہی مٹتے گئے۔ اس پاکستانی پالیمان میں جس کے لیے بعض بلوچ پر تول رہے ہیں ان پہ میں واضح کرنا چاہونگا کہ یہ فقط ہمارے لیے موت کا سامان ہی مہیا کرسکتی ہے نہ کہ ہمیں زندگی دے سکتی ہے۔ اس سے انفرادی طور پہ تو خوشحالی کی امید لگائی جاسکتی ہے لیکن اجتماعی طور پہ پاکستانی پارلیمان ہمارے لیے قبر کے اندھیروں سے بھی گہری تاریکی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
اس جلسے سے ڈاکٹر حئی اور مالک نے بھی خطاب کیا مجھے آج تک ان کے وہ الفاظ یاد ہیں جہاں انہوں نے کہا کہ ہمیں ووٹ نہیں خون چاہیے اور ہم خون کے آخری قطرے تک جدوجہد کرینگے۔۔ لیکن آج انہوں نے دشمن کا پھولوں سے استقبال کرکے یہ ثابت کردیا کہ اس وطن پہ اگر خون بہے گا تو وہ فقط بلوچ کا اور اسے ہم ہی بہائیں گے۔یہ سرکار کے زرخریدآج تحریک ِ آزادی کے ہزاروں بلوچوں کے قاتل ہیں۔بہر حال یہ تاریخ ہے اور تاریخ کسی کو معاف نہیں کرسکتا ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہوگا۔
شہید فدااحمد بلوچ کی شہادت:۔
آج کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شہید فدا احمدبلوچ کی شہادت کے محرکات بیان کرنا یقیناً آسان ہوگا۔جہاں شہید فدااحمد بلوچ کی تشکیل کردہ پارٹی بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے وہ اراکین جو آج پاکستانی یوانوں میں براجماں ہیں۔ جن میں موجودہ نیشنل پارٹی کے قائدین پیش پیش ہیں۔ یہی لوگ اس وقت بظاہر شہید کے حواریوں میں سے تھے۔جن میں ڈاکٹر مالک اور ڈاکٹر حئی قابلِ ذکر ہیں۔
شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت سے چند روز قبل یعنی 27 اپریل1988ء کے دن کراچی میں بلوچستان نیشنل یوتھ موونٹ کے سینٹرل کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر مالک اور اس کے ہمنواؤ ں کے کہنے پر طلب کیا گیا۔اس اجلاس سے قبل ہی انہوں نے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے کچھ اراکین کو پارلیمانی سیاست کے حوالے سے قائل کرچکے تھے۔ جب کہ پارٹی کی اکثریت ان کی اس سوچ سے اختلاف رکھتے تھے۔اس اجلاس کے منعقد ہونے سے قبل بھی انہوں نے اس اجلاس کے مقاصد کے حوالے سے ماسوائے اپنے چند حواریوں کے دیگر کسی کو خبر تک نہیں ہونے دی۔ اجلاس شروع ہونے سے قبل ان مفاد پرستوں نے اجلاس کے ایجنڈے میں پارلیمانی سیاست کا موضوع بھی ڈال دیا۔جہاں وہ اس بات پہ زور دے رہے تھے کہ بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کو پارلیمانی سیاست میں جانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ لیکن چونکہ پارٹی کے منشور میں یہ شامل تھا جس کا اظہار پارٹی قائدین بھی کرچکے تھے کہ بلوچ اور بلوچستان کے مسئلے کا حل پاکستانی پارلیمانی سیاست میں نہیں۔اور نہ ہی پارٹی کبھی اس بارے میں سوچ بھی سکتا ہے۔لہذا پارٹی بلوچستان کے مفادات کو داؤ پہ نہیں لگاسکتا۔شہید فدا احمد بلوچ نے اس اجلاس میں اس بات کی ایک بار پھر وضاحت کی کہ ہماری پارٹی ہمیشہ پاکستانی پارلیمان کی مخالفت کرتارہیگا اور جب تک بلوچ اپنی ریاست کے مالک نہیں ہونگے ہماری پارٹی کبھی بھی اس استحصالی نظام کا حصہ نہیں بن سکتا جو گزشتہ چالیس سالوں سے بلوچوں کا خون چوس رہا ہے۔ لہذا یہ پارٹی کا حتمی فیصلہ ہے کہ ہم پارلیمانی سیاست کی کبھی حمایت اور حوصلہ افزائی نہیں کرینگے۔لیکن جب مالک اور اس کے ہم خیال افراد کی ضد ااور انا زور پکڑ چکا تو آپ شہید فدا احمد بلوچ اور دیگر نظریاتی ارکین نے اجلاس سے واک آوٹ کیا۔اس اجلاس میں شہید غلام محمد بلوچ بھی موجود تھے جو ان دنوں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرمین تھے۔جب شہید فدا احمد بلوچ نے اجلاس سے واک آو ٹ کیا تو آپ شہید نے بھی شہید فدا احمد بلوچ کی پیروی کی۔
اس کے فوراً بعد شہید غلام محمد بلوچ نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے دوستوں سے رابطہ کرکے انہیں اس گھناؤنے کھیل کے بارے میں بتایا۔آپ نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے دوستوں کواس بات پہ قائل کرنے کی کو شش کی کہ پارلیمانی سیاست میں جانے کا مطلب بلوچ قوم کی غلامی کو مزید دوام بخشنا ہے لہذا ہمیں ہر اس عمل کی مخالفت کرنی چاہیے جو بلوچ قوم کی بربادی کا پیش خیمہ ہو۔
اس اجلاس کی کاروائی سے ایک بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ڈاکٹر مالک،ڈاکٹر حئی اور ان کے دیگر مفاد پرست ساتھی یہ جان چکے تھے کہ فدا کے ہوتے ہوئے ہم کبھی بھی پارلیمانی سیاست کی جانب قدم نہیں اٹھاسکتے۔ اگر ہم شہید فدا احمد کی شہادت کا واقعہ دیکھے تو وہ اس اجلاس کے پانچ دن بعد پیش آتا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل میں انہی عناصر کا ہی ہاتھ تھا جنہوں نے شہید فدا احمد بلوچ کو راستے سے ہٹادیا۔ اس کے علاوہ بعد میں رونماء ہونے والے واقعات کو دیکھتے ہوئے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ انہی عناصر کی شۂ پر ہی ریاست نے شہید فدا احمد بلوچ کو شہید کیا جو اس جانب اشارہ ہے کہ یہ مفاد براہ راست اس کھیل کا حصہ تھے۔
اس دوران جب شہید فددا احمد بلوچ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو شہید فدا احمد بلوچ کے ساتھ منصور بلوچ جو کہ بعد میں بی ایس او کا مرکزی چئیرمین بھی بنا۔ ان کا نام شہیدفدا احمد بلوچ کے کیس کے گواہوں میں شامل تھا۔ لیکن انہوں نے گواہی کیوں نہیں دی؟ کیا ان مالک اور اس کے ہمنواؤں کی دھمکیوں کی وجہ سے؟ جہاں آج اسی منصور کو ان کی پارٹی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور وہ ایک بار نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے تحصیل ناظم بھی رہ چکا ہے اور پاکستان کے حالیہ انتخابات مین صوبائی اسمبلی کا امیدوار بھی تھے۔
دوسری بات۔۔آیا ڈاکٹر مالک اور ڈاکٹر حئی اس وقت بھی ریاستی اداروں میں اتنی بڑی حیثیت کا مالک تھے کہ انہیں یہ معلوم تھا کہ اب پاکستان میں نام نہادجمہوری دور آنے والا ہے۔ یعنی ضیاء کا خاتمہ اب قریب ہے۔
آخری بات جب1989ء میں بلوچستان نیشنل یوتھ موونٹ کا کونسل سیشن منعقد ہوا تو سب سے پہلے انہوں نے اور ان کے ساتھ شامل دیگر مفاد پرستوں نے پارٹی کا نام تبدیل کرنے کے ساتھ پارلیمانی سیاست کو پروان چڑھانے کی کوشش کی یعنی سوچ، فکر اور نظریے کا قتل کیا گیا۔
ایک بار ”سالا ر میگزین” منظور بلوچ کی رہنمائی میں کوئٹہ سے شائع ہوتا تھا اس میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ڈاکٹر حئی70ء کی دہائی میں بھی ریاستی اداروں کے لیے کام رہاتھا۔یہ مضمون جس میں اس امر کی جانب نشادہی کی گئی تھی غالباً 90 ء کی دہائی کے آخر یا 2000ء میں شائع ہوئی تھی۔
ان کے اس گھناؤنے کھیل میں اس وقت کے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین ڈاکٹر یاسین بھی ان مفاد پرستوں کا ہمنواء تھا۔جہاں اجلاس کے بعد شہید فدا احمدبلوچ اورشہید غلام محمد بلوچ کو منانے ڈاکٹر یاسین مکران بھی گئے لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
یکم مئی1988ء کو تربت میں شہید کامریڈ فدا احمد بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے مزدور ڈے کی مناسبت سے عوامی جلسہ منعقد کیا جس میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سینئر وائس چیئرمین شہید غلام محمد بلوچ اپنے نظریاتی دوستوں کے ساتھ شریک تھے۔اس جلسے میں بھی شہید فدا احمد بلوچ اور شہید غلام محمد بلوچ نے پاکستانی پارلیمانی سیاست کی کھل کر نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس کے اثرات پہ بھی روشنی ڈالی۔
اسی دن جلسے کے اختتام پہ شہید غلام محمد بلوچ اپنے آبائی علاقہ مند چلے گئے۔انہیں کیا معلوم کہ اگلے دن2 مئی 1988ء کوبلوچ قوم اور بلوچ وطن ایک عظیم ہستی سے محروم ہونے والا ہے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ منافقین اپنے عزائم کو آخری شکل دے چکے ہیں۔ جہاں وہ اتنی صفائی سے یہ کام کرگئے کہ بلوچ قوم کو ایک عرصے تک ان پہ شک کا گمان بھی نہیں ہوا اور وہ تین دیگر بلوچ دشمن عناصر کو اصل قاتل گردانتے رہے۔جورازق، جالب اور کہور خان ہیں۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ افراد بھی اس گھناؤنے کھیل میں شامل ہوں لیکن اس کھیل کے اصل کھلاڑی ڈاکٹر مالک اور اس کے حواری ہی تھے جو آج تک بلوچ آزادی پسندوں کی نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ ریاست کے ساتھ ملکر اپنے بلوچ کش فورسز(ڈیتھ سکواڈ) بھی تشکیل دے چکے ہیں۔جنہوں نے آج تک ہزاروں بلوچوں کو آزادی کی راہ سے ہٹانے کے لیے شہید بھی کیے ہیں۔
اور یوں 2مئی جہاں مکار اپنے عزائم کو کامیاب بناتے ہوئے شہید فدا احمد بلوچ کو راستے سے ہٹاتے ہوئے انہیں ان کے کتابوں کی دکان پہ جہاں وہ اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے پہ حملہ کرکے شہید کرتے ہیں اور یوں بلوچستان اور بلوچ جہدِ آزادی پہ ایک بڑے عرصے تک تاریک بادل چھا جاتے ہیں۔
یہ دل خراش خبر جب شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے سنا تو چکراگئے اور بہتے ہوئے آنسووئں کے ساتھ کہتے رہے کہ سازشی ٹولہ اپنا کام کرگیا۔شہید غلام محمد بلوچ کو یہ یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ شہید فدا احمد بلوچ کو قتل کرنے والے مالک اور حئی ہوسکتے ہیں اکثر بلوچوں کی طرح وہ بھی بی ایس او سہب کو شہید فدا احمد بلوچ کا اصل قاتل تصور کررہا تھا۔ لیکن ایک سوچ جو اسے ایک عرصے تک چین سے بیٹھنے نہیں دیا وہ یہ تھا کہ اس میں ڈاکٹر مالک اور اس کے حواریوں کا ہاتھ ضرور ہوگا کیونکہ انہی دنوں شہید فدا کے سوچ کی مخالفت کرنے والوں میں یہ عناصر پیش پیش تھے۔
اسی دن آپ شہید فدا احمد بلوچ کے آخری دیدار کے لیے تربت گئے اور شہید فدا حمدبلوچ کو ہزاروں سوگواروں کے ہجوم میں مادرِ وطن کے حوالے کیا۔
شہید فدا جان کی شہادت کو آج تک یہ عناصر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے آپسی انتشار سے ماخوذ کرتے ہیں۔ لیکن آج
حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ شہید فدا احمد بلوچ کے اصل قاتل یہی سازشی عناصر تھے جو آج تک بلوچ قوم کا لہو پانی کی طرح بہارہے ہیں۔۔
شہید غلام محمد بلوچ کے یہ الفاظ کہ بلوچ دشمن عناصر چاہے جتنے فدا ماریں لیکن وہ ہم سے فدا کو نظریاتی حوالے سے
کبھی بھی جدا نہیں کرسکتا اور شہید فدا احمد بلوچ کا نظریہ اور اس کے کارواں کو ہم منزل کی جانب لے کے جائینگے۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ کامیابی ہماری ہوگی۔آپ واجہ چیئرمین کے یہ الفاظ آپ کی سوچ کی مکمل ترجمانی کررہاتھا اور اسی سوچ کو لیکر آپ نے بلوچوں کو ان کی اصل راہ دکھا دی۔
اس واقعے کے بعد آپ شہید غلام محمد بلوچ ہر اجلاس میں ڈاکٹر مالک اور حئی سے شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کے
حوالے سے سوال پوچھتے رہے اور جب انہوں نے پاکستانی پارلیمان میں جانے کا فیصلہ کیا تو آپ نے اس وقت بھی ان کے اس فیصلے کو شہید فدا احمد بلوچ کے نظریے سے متصاد م قرار دیااور آخر کار جب آپ اس نتیجے پہ پہنچے کہ بلوچ قومی آزادی کا حصول ان کے ساتھ رہتے ہوئے ممکن ہی نہیں تو آپ نے ان سے اپنی راہ جدا کیا۔
شہید غلام محمد بحیثیت سیکرٹری جنرل:۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مرکزی کونسل سیشن بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں منعقد ہوا۔کونسل سیشن میں وحید بلوچ چیئرمین جبکہ آپ شہید غلام محمد بلوچ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔آپ اور آپ کے نظریاتی دوستوں نے شہید فدا احمد بلوچ کے مقدس نظریہ اورفکرو فلسفے کادفاع کرتے ہوئے پاکستانی پارلیمنٹ کی مخالفت جاری رکھا۔اس دوران آپ (شہید غلام محمد بلوچ)نے تنظیم کو بلوچ قوم پرستی اور آزاد بلوچ وطن کے نظریے کی جانب لے جاکے اسے مذیدمنظم ومستحکم کرکے ایک سیاسی قوت بنانے میں کامیاب ہوئے۔آپ (شہید چیئرمین واجہ غلام محمد) کی سیاسی قابلیت،نظریہ اور فکری کرداروعمل کی وجہ سے آج آپ عظمت کی بلندیاں چھو رہی ہیں جہاں بلوچ قوم کے معمار آپ کی طرح بننا چاہتے ہیں یعنی کہ لوگ آپ کو رول ماڈل تصور کرتے ہیں جو کسی بھی انسان کی عظمت کو ظاہر کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
بلوچ قوم پرستی کے دعویدار پاکستانی پارلیمنٹ میں:۔
آپ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان کو نظریہ قوم پرستی کے فکر کے ساتھ آگے لے جانے کی کوششیں کرتے رہے۔ آپ کی کوشش تھی کہ بلوچ شہید فدا احمد کے فلسفے کو پناتے ہوئے پاکستانی پارلیمانی سیاست سے دور رہیں۔ لیکن بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشنکو اس وقت سب سے بڑا دھچکا لگا جب آپ کے ہزار سمجھانے کے باوجود بھی شہید فدا کی دوستی اور نظریے کا دم بھرنے والے ڈاکٹر مالک اور ڈاکٹر حئی نے1988ء میں پارلیمانی سیاست کی کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کا حصہ بھی بن گئے۔ 1988ء کے پاکستانی الیکشن کے لیے ڈاکٹر مالک اور ڈاکٹرحئی نے نواب اکبر خان بگٹی سے الائنس کرکے تشکیل دی۔اور یوں چند مراعات کی خاطر قوم کے ان سوداگروں نے شہید فدااحمد کے نظریے کو ان کی شہادت کے چند مہینے گزرنے کے بعد دفن کردیا۔
شہید فدا احمد بلوچ کو راہ سے ہٹانے میں یہی عناصر ہی ملوث تھے۔ یہاں ان کے اس عمل سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے جہاں انہوں نے شہید کی شہادت کے فوراً بعد پاکستانی ایوانوں میں جانے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنایا۔ شہید فدا احمد بلوچ کو راہ سے ہٹانے کے بعد اب انہیں اس گھناؤنے عمل سے جہاں انہوں نے بلوچ قوم اور وطن کو اغیار کے ہاتھوں فروخت کرنا تھا، روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ اسی لیے انہوں نے کھل کر پاکستانی پارلیمان کی حمایت کی اور آج تک وہ اسی ڈگ پہ چل رہے ہیں۔ان کی یہ دیرینہ خواہش اس وقت پوری ہوگئی جب وہ قبضہ گیر کے نوآبادیاتی نظام کومزید مضبوط بنانے کے لیے بلوچ قوم کو اس کاحصہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ حالانکہ اس ضمن میں شہید فددا احمد بلوچ نے سالہاں سال محنت کی جہاں انہوں نے پورے بلوچ سماج سے اپنا ایک رابطہ جوڑا تھا اور انہیں بڑی حد تک اس بات پہ قائل بھی کرچکا تھا کہ پاکستانی قبضہ سے نجات ہی بلوچ قوم کو دنیا میں منفرد مقام عطاء کرسکتی ہے۔
شہید غلام محمد بلوچ اور چند دیگر نظریاتی دوستوں کے اختلاف کے باوجود ڈاکٹر مالک، ڈاکٹر حئی اور ان کے ہمنواؤ ں نے بلوچ قوم کے ارمانوں کا قتل کرکے پاکستانی ایوانوں کا حصہ بن گئے۔انہوں نے وہاں پناہ لی جہاں غوث بخش بزنجوں نے جو کہ پہلے پہل تو بلوچ اور بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے نہیں تھکتا تھا لیکن جب عمل کرنے کا وقت آیا توغوث بخش بزنجو نے اسی آزادی کے نظریے کو کوڑیوں کے دام بیچ ڈالا تھا۔شہید فدا احمد کی شہادت کے بعد غوث بخش کے ان حواریوں نے بھی وہی عمل دھرایا اور چند مراعات کی خاطر انہوں نے قوم کو دوزخ کی راہ دکھا دی۔
الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد حئی، مالک اور اس کے ہمنواء آپ(شہیدواجہ غلام محمد بلوچ)کے پارلیمانی سیاست کے حوالے سے اختلافات کودور کرنے کیلئے پارٹی اجلاسوں اور میٹنگوں میں ہمیشہ آپ واجہ چیئرمین کو قائل کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے اور ساتھ میں آپ کو بھی اس عمل کا حصہ بنانے کے لیے مکر و فریب سے کام لیتے رہے۔مگر آپ شہید غلام محمد بلوچ، بلوچ قوم پرستی کے نظریے، فلسفے اور شہید فدا جا ن کی سوچ اور فکرجو آپ کی روح مین سرایت کرچکا تھا آگے لے کر بڑھتے گئے۔
آپ شہید واجہ چیئرمین اس قسم کی پارٹی سیاست سے جو سیاسی مداری فروغ دے رہے تھے ہمیشہ اختلافی نظریہ رکھتے اور کھل کر پارٹی کے پاکستان نواز سوچ کو تنقید کا نشانہ بناتے۔ آپ شہید چیئرمین دوستوں کو ہمیشہ یہ درس دیا کرتے کہ اصولی موقف کو پامال کرنے والوں کا کبھی دفاع مت کرنا کیونکہ ایسی سوچ کے دفاع سے ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک ردِ انقلابی سیاسی سوچ کی بنیاد رکھنے والے قومی مجرموں کے دائرے میں شمار ہونگے جنہیں نہ ہی قوم اور نہ ہی تاریخ معاف کرسکتی ہے۔آپ اصولی تنقید کو ہمیشہ انقلاب اور انقلابی عمل کی روح سمجھتے تھے اس لیے آپ نے تنظیم میں اصولی تنقیدی سوچ کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔اختلافات کے سدِ باب کے لیے آپ نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشنمیں اداروں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی اور ہمیشہ کارکنان کو یہ درس دیتے تھے کہ اختلافات فطرت کا وطیرہ ہے اور ان کے سدِ باب کے لیے اداروں کا ہونا لازمی ہے اگر ادارے نہیں ہونگے تو اختلافات جو کہ کسی بھی پارٹی یا تنظیم کا حصہ ہوتے ہیں ان سے پارٹی یا تنظیم کے وجود کو ہی نقصان پہنچ سکتا ہے لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ایک سیاسی کارکن وہ کہلایا جاسکتا جو اس ضمن میں اداروں سے رجوع کریں اور اگر ادارے کمزور ہوں تو انہیں مضبوط بنانے میں کردار اد کریں۔۔اسی نظریے اور فلسفے کی بنیادپر آپ شہید چیئرمین ان منحرفین اور سازشی ٹولے مالک اینڈ حئی کمپنی سے ناطہ جوڑتے ہوئے شدید اختلافات کے باوجود ایک طویل عرصے تک ان کے ہمسفر رہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ کہ ان کے ساتھ اب بھی ایسے کارکنان تھے جو نظریاتی موقف رکھتے تھے لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ یا بلوچ قوم میں شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کے بعد دیگر کسی انقلابی پارٹی کے وجود کا نہ ہونا تھا۔جہاں ان کارکنا ن اور آپ شہید غلام محمد بلوچ پارٹی کو ریاستی پالیمانی سیاست سے الگ اور خالص انقلابی راستے پہ جس کادرس شہید فدا احمد بلوچ دیا کرتے تھے واپس لاتے۔ آپ اسی سوچ کے حامی تھے اور اس کے لیے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہے۔ لیکن اس دور میں شہید فدا کا کوئی نعم البدل بھی نہیں تھا اور آپ بنیادی سیاست (طلباسیاست) کررہے تھے۔لیکن آپ کو یہ امید تھی کہ ایک دن بلوچ قومی حقوق کے یہ سودا گر اپنے انجام کو ضرور پہنچے گے۔
جاری ہے۔۔۔