یہ تحریر جون2013 کو سنگر میگزین میں شائع ہوا ہے۔ آج اسے دوبارہ شہید علی جان کی برسی کی مناسبت سے شائع کیا جا رہا ہے
جب ہم اسکول میں طا لبعلم تھے تو بینکنگ ذریعہ تعلیم نے ہما ری ذہنو ں کو اپنی ذات تک محدود کردیا تھا اسکول میں اسا تدہ کا رویہ اور معا شر ے میں بڑ وں کے رویے نے ہمیں معروضی حقا ئق کو جا ننے اور ایک انسا ن کی حیثیت سے سمجھنے کی صلا حیتوں سے محر وم کر دیا تھا قبضہ گیر اس پا لیسی پر کا ر بند ہو تا ہے کہ محکوم و مقبوضہ لو گوں کو حیو ا نیت کی سطح تک پہنچا سکے اگر ان کو انسان کی حیثیت سے آزاد چھوڑا جا ئے تو وہ ان تما م حقائق سے با خبر ہو تے ہیں جس کی وجہ سے وہ غلامی و محکومی کی گھٹا ٹوپ اند ھیر میں گم کیے گئے ہیں.
ہمیں بس ایک ہی خلش کھا ئے جا رہی تھی کہ کسی طر ح ڈگر ی لے کر بہتر ملازمت حاصل کر یں خوشحا ل زند گی گزار سکیں بقول اوشو انسان چھوٹا ہو تا رہتا ہے اور ڈگر یا ں بڑھتے رہتے ہیں یو ں انسان کی پہچان ایک ڈگر ی یا ملا زمت بن جا تی ہے اس کی زند گی خو اہشا ت کی تا بع ہو کر خوا بوں کی دنیا میں کھو جا تی ہے وہ قبضہ گیر کی تہذیب میں تحلیل ہو کر اپنی تمام شناخت کھو دیتی ہے یو ں قبضہ گیر کو ایک مو قع مل جا تا ہے۔
قبضہ گیر کی ادارو ں سے تر بیت پا نے والے ایک قوم کی تعمیر کر نے کی بجائے اس کی تبا ہی کا مو جب بن جا تے ہیں۔ قوموں کی تعمیر ان روایا ت کے بر عکس ذات کے بجا ئے اجتماعی سو چ کے تحت قر با ینو ں کی مر ہون منت ہے تا ریخ میں زند ہ ہو نا تا ریخ بنا نا اور خو د تا ریخ ہو نا غیر معمولی باتیں ہیں اس معیا ر پروہ انسان پورا اترتے ہیں جو اپنی خاندانی مفا دات قر بان کر کے قوموں کی اجتما عیت کیلئے امر ہو تے ہیں آج دنیا کی خو بصورت تا ریخ انہی شخصیات کے گر د گھومتی ہے جب بھی قوموں میں ایسے ا نسان پیدا ہو ئے انہوں نے قوموں کی تا ریخ کو ایک نیا مو ڑدیا۔قبضہ گیر کی تہذیب معدوم ہو جاتی ہے ایک نئے انسان کا جنم ہو تا ہے جو نہ ظالم ہو تا ہے نہ مظلوم۔ چو نکہ غلامی میں خوشحالی صر ف ایک ڈراؤنا خواب ہے اپنی ذات کی خا طر خوشحالی کی خواہش صر ف قبضہ گیر کی بقا ء کا ضا من ہے کیو نکہ غلامی میں نہ ذاتی خو شحا لی نصیب ہو تی ہے نہ اجتما عی۔
میں آپ کو ایک ایسا انسان سے ملانا چا ہتا ہوں جس نے بینکنگ ذریعہ تعلیم میں پڑھ کر بھی اپنی بے پنا ہ صلا صیتوں کے بل بو تے پر ایک فعال انسا ن کا کردار ادا کیا اپنی ذاتی خو اہشا ت کو قر با ن کر کے اجتما عیت کی خو شحالی کیلئے امر ہو گے اس عظیم انسان کا نام سنگت علی جان ہے جو ”جا ئے آہو“(جھاؤ) داروکو چک میں ایک ابد ی زندگی پا نے میں کا میاب ہو ئے۔
لیکن میں علی جان کو کب سے جا نتا ہوں۔یا د نہیں لیکن 2003ء کو میں بگا نی ذیلگ جا ئے آہومیں بطو ر میڈیکل آفیسر ڈیوٹی دے رہا تھا کسی سفر میں علی جا ن کو دیکھا دیکھتے ہی تعلیمی بحث چھیڑ ا پڑھا ئی کے طر یقہ کا ر پر اعتز اضا ت تنقید کا سلسلہ جا ری رہا آپ بینکنگ ذریعہ تعلیم سے سخت نا لاں تھے اس سے طا لب علموں کی ذہنی صلاصیت بہ نسبت ایک فعال کر دار کے مفلوج ہو تا ہے اور ذہنی صلاحیتیں مفقو د ہو جا تی ہیں یہ وہ وقت تھا جب نیشنل پارٹی بننے کے بعد چیر مین غلام محمد بلو چ کی سر براہی میں بی این ایم کا آرگنا ئز نگ با ڈی تشکیل دیا گیا تھا۔لیکن جا ئے آہو(جھاؤ) مقامی سر داروں وگما شتہ پا رٹیوں جنر ل ضیا ء اور جام غلام قا در کے پر ورش کر دہ میر مجید بیز نجو کی گھٹ جوڑ سے شدید احسا س محر ومی اور نفسیا تی دبا ؤ کا شکا ر تھا
اُس صورتحال میں بلو چ قومی جہد اور بی این ایم کیلئے مو بلائز یشن مشکل کام تھا،جا ئے آہو میں 1973ء کے دوران جنگ آزادی کو ختم کر نے کی خا طر ذولفقا ر علی بھٹو نے میر عبد الکریم اور میر آدم کو ششک تحر یک کے نا م پر خصوصی ٹاسک دیا تھا۔جھنوں نے ہتیچک میں حملہ کر وا کے میر غلام رسول تمبراڑی کو شہید کر کے بندوق اپنے ساتھ لا یا اسی طر ح احمد بر امی کے مقا م پر حملہ کر واکے کئی بلو چ فر زند وں کوشہید کر دیا تھا جس میں خو اتین سمت کئی فر زند شہا دت کے عظیم رتبے پر فا ئز ہو ئے تھے کئی ما ل مو شیا ں ہلا ک ہو گے تھے کئی گھروں کو جلا یا گیا تھا۔1984میں شہید غلام رسول کے بھا ئی اشرف نے میر عبد الکریم اور آدم کو اپنے بھا ئی کے بند وق کے ساتھ دیکھا تواُس نے ان دونوں کو ما ر دیا ان دونوں کی ہلا کت کو جا م غلام قا در جنر ل ضیا ء اور پا کستان خفیہ ایجنسیوں نے ششک تحر یک کے نام پر قر با نی کا لیبل لگا دیا۔
1985 کے انتخابات میں مجید بیز نجو کو پا کستانی ایجنسیوں اور مقا می گما شتوں نے مذکررہ واقع کو جو از بنا کر کا میاب کر وایا جس نے اپنی آقاؤں کی خوشنودی کی خا طر احسا س غلامی کو ختم کر نے اور مصلحت پر ستی کی نفسیا ت کو فر وغ دینے میں اہم کر دار ادا کیا ایسے علاقے میں بلو چ جہد آزادی کی خا طر ذہن سا زی کر نے کیلئے ایک بہتر حکمت علمی کی ضرورت تھی ظاہر ہے ایسی حکمت عملی علی جا ن جیسے مدبر محقق ہی تر تیب دے سکتے تھے آپ کی رہبر ی میں ہم نے ایک سماجی تنظیم رژن کے نا م پر تشکیل دی جس کے پلٹ فا رم پر علی جا ن نے با قی دوستوں کے ساتھ مل کر جا ئے آہو میں عوامی مو بلا ئزیشن کیلئے دن رات کا م کیا عبد الکریم وآدم کی حقیقی چہر ے کو طشت از بام کر نیکی خا طر کئی تا ریخی اور تحقیقی کتا بوں کو کنھگا لا اور عوام کے سامنے اپنی تحر یروں کے ذریعے واضح کر دیا کہ دراصل اُن کی قتل غلام رسول کے بھا ئی نے اپنی بھا ئی کے بدلے میں کیا ہے اور وہ بلو چ تحریک آزادی کے خلاف پا کستانی ایجنسیوں کی خا طر ایک ٹول کے طو ر پر کا م کرتے رہے ہیں اس تحقیق نے مجید بیز نجو کو سیخ پا کر دیا اور اُس نے اپنی بندوں کی ذریعے علی جا ن کو ڈرایا اور مر اعا ت کی پیشکش کی لیکن علی جا ن جیسا عا لم ان گیدڑ بھبکیوں سے مرعوب نہیں ہو ئے اور نہ مر اعا ت کی پیش کش نے آپ پر کو ئی اثر ڈالا سماجی مسا ئل کو آپ نے اپنی تحقیقات سے اُجا گر کیا
اور یہ واضح کر دی کہ ان سماجی مسا ئل کو جنم دینے میں ریا ست اور اس کے گما شتہ شریک ہیں آپ کی ان محنتوں نے جا ئے آہو میں احسا س غلامی کو بیدار کر نے میں ایک اہم کر دار کیا سما جی تنظیم جا ئے آہو کی سطح پر تو مو بلا ئز نہ ہو سکا مگر علی جان نے کو ہڑو میں ایک اور تنظیم کی تشکیل کر کے با قی دوستوں کے سا تھ مل کر ایک لا ئبریر ی انگلش میڈیم سکول کاکا م کر کے عوام میں اعتما د پید ا کیا علی جان نے لا ئبریر ی کی خا طر بنفس نفیس مز دوری کی گدھا گا ڑی پر خو د مٹی لا یا۔آپ کو کتا بوں سے انتہا ئی محبت تھا ہر وقت مطا لعہ میں مشغول تھے ہر معاملہ میں انتہا ئی با ریک بینی سے تحقیق کر تے تھے،جس کیلئے لا ئبریری کا ہو نا انتہا ئی ضروری تھا اس لئے آپ نے لا ئبریری اور اسکول کیلئے با انتہا محنت کی آپ جس دوست کو دیکھتے اُس سے صرف ایک ہی مطا لبہ کر تے تھے کہ مجھے کتا ب چا ہئیے۔
آپ کو صر ف کتا ب چا ۂیے تھا اور کو ئی چیز آپ کی ضروریا ت میں شامل نہیں تھا اگر چہ اس دوران آپ دو اور دوستوں کے ساتھ بی این ایم کے ممبر تھے لیکن آپ نے اسی حکمت عملی کے تحت کام کو تر جیج دی آپ نہ صر ف ایک سیاسی اور سما جی کا رکن تھے بلکہ انتہا ئی روایا ت پر ست مہما ن نو ار تھے آپ کے گھر پر اکثر دوستوں کا مجمع تھا طنزو مزاح کے دلدادہ تھے آپ اپنی مجلس میں بو ر ہو نے نہیں دیتے 19مئی 2009 کو واجہ با غ جا ئے آہو میں شہدائے احمد بر امی نام پر ایک جلسہ ہو ا غا لباََ ایک ہفتہ کا مہلت دیا تھا لیکن آپ نے جلسہ کو کا میا ب کر نے کیلئے دن رات ایک کر دیا اسٹیج کے لئے ڈائس آپ نے 40کلومیڑ کے فا صلہ سے ایک دوست کے ساتھ کندھوں سے لا یا مگر خو د اسٹیج پر نہیں آیا آپ ہمیشہ پیچھے رہ کر کا م کر نے کے عادی تھے ذاتی نمود و نمائش سے دور بھا گتے تھے انتہا ئی کا میا ب جلسہ ہو ا بی این ایف کے اکثر مر کزی لیڈر جلسہ میں شریک تھے عوام کی بے پنا ہ شر کت نے اس با ت کو ثا بت کیا کہ اب جا ئے آہو میں علی جان اور دوسرے دوستوں کے شانہ بشانہ اور محنت احساس غلامی کو بیدار کیا ہے آئی ایس آئی اور اس کے گما شتوں کے لئے یہ کا میا بی نا قابل بر داشت تھا 25اگست 2009 کو شہید الطا ف بلو چ کی بر سی کے سلسلہ میں ہڑتال کے دوراں انہی گما شتوں کے غنڈوں نے حملہ کر کے علی جان سمیت کئی دوستوں کو زخمی کر دیا بعد میں چیر مین خلیل بلو چ سنگت ثنا ء بلو چ کے جائے آہو کے دورہ پر علی جا ن کے حوصلے مذید بلند تھے۔ 16دسمبر 2009کو کو رک میں ایک اور جلسہ شہدائے احمد بر امی کے نا م ہو ا جس میں علی جا ن نے سخت محنت کر کے نہ صر ف جلسہ کو کا میا ب کیا بلکہ پہلی دفعہ خو اتین کی بڑی تعداد جلسہ میں شر یک ہو ئی,2004میں علی جان کے ساتھ صر ف دو دوست تھے
مگر 16دسمبر 2009 کو بی این ایم ایک قوت بن چکی تھی انقلابی ضروریا ت کو پیش نظر رکھ کر آپ نے پارٹی اداروں کو علمی سر کلز کا پا بندبنا یا تھا تما م ذیلی اداروں کا خو د دورہ کر تے تھے ہمہ وقت ایک انقلابی کا رکن کی حیثیت سے اپنا فر ض نبھا یا۔2009کو آپ دمگ آرگنا ئز نامزد کئے گئے آواران میں تنظیم کا ری کیلئے پو رے علاقے کا دورہ کر تے رہے اور بی این ایم آواران و جا ئے آہو کی بہتر کا رکر دگی کی بد ولت ہی اکتوبر 2010ء میں بی این ایم کا کو نسل سیشن جا ئے آہو میں منعقد ہو ا تا ریخ میں اتنہا ئی خو بصورت و کا میاب کو نسل سیشن ہو ا۔
علی جا ن بی این ایم کے مر کز ی کمیٹی کے رکن منتخب ہو ئے اپنی کا میا بی سے لے کر شہا دت تک ایک بھی میٹنگ سے غیر حا ضر نہیں رہے پا رٹی نے آپ کو جد ھر بھی ذمہ داری دی آپ نے بغیر ہچکچا ہٹ کے قبو ل کیا اور اس ذمہ داری کو احسن طر یقے سے نبھا یا بعد میں آپ بی این ایف کے مرکزی کو نسلر منتخب ہو ئے،بی این ایف کو مضبو ط کر نے کیلئے آپ نے سخت محنت کی بی این ایف کی مٹینگ میں شرکت کیلئے تشریف لا ئے مجلس کے دورا ن ایک ذمہ دار دوست نے آپ حدواللہ کے ہٹ لسٹ پر ہیں اس پر صرف علی جا ن نے مسکر ایا 9اپر یل 2013کو کو لواہ میں شہدائے مر گا پ کی بر سی کے سلسلے میں منعقد جلسے میں آپ شر یک تھے جس جلسے میں چیر مین خلیل بلوچ نے کہاکہ مجھ سمیت تما م دوست اپنی آخر ی سا نس تک جد وجہد کر کے شہا دت کو تر جیح دیں گے۔19اپر یل 2013کو علی جان نے چیر مین خلیل بلوچ کی دعوے کو درست ثابت کر کے دکھا دیا آپ نے دشمن کے ساتھ مقا بلہ کر تے ہو ئے شہا دت کے عظیم رتبہ پر فا ئز ہو کر ہمیں مذید حو صلہ دیا کیو نکہ آزادی کی جد و جہد علی جا ن جیسے دوستوں کی قر نیوں کے بعد ہی پر وان چڑھتے ہیں۔ دشمن نے علی جان کو شہید کر کے یہ سمجھ لیا کہ وہ کا میاب ہو چکا ہے اُسے معلوم نہیں کہ علی جان کی شبا نہ روز محنت علمی سر کلز کی وجہ سے پا رٹی ایک ایسی قوت بن چکی ہے کہ جسے شکست دینا نا ممکن ہے۔