شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ-ایک قسط وار س- قسط ۳

ایڈمن
ایڈمن
33 Min Read

شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط ۳
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(تیسری قسط)

باب دوم
(سیاسی زندگی کا پہلا مرحلہ)

سیاسی زندگی کا پہلا مرحلہ:۔


وقت گزرتا گیاآپ (شہید) نے دورِ غلامی کے اندھیروں میں بچپن سے جوانی میں قدم رکھا۔جہاں قوم تاریک راہوں کا مسافر تھا جسے جو جہاں چاہتا وہاں اسے اپنی ڈیرھ انچ کی مسجد کی پاسداری سونپتا۔ نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی قومی سطح پہ کسی نے پلیٹ فارم فراہم کرنے کی زحمت کی۔ اس دوران بھٹو امریت اپنے عروج پہ تھا جہاں تسلسل کے ساتھ بلوچوں کی نسل کشی جاری تھا۔ بھٹو آمریت میں قوم پہ ہونے والا ظلم نہ قابل بیان تھا، دشمن کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی کا یہ دور بلوچوں کے دلوں میں عہدِ نوشیروان کی یاد تازہ کردی۔ اس اندھیر دور میں جہاں ایک جانب قوم کا قتل عام ہورہا تھا تو دوسری جانب قوم کی بے حسی حتیٰ کہ دشمن چادر و چار دیواری کی پامالی اپنی جگہ بلوچ خواتین کو بھی اپنی جبر کا نشانہ بنارہاتھا۔لیکن بلوچ روایات کا نعرہ لگانے والے بلوچ سرداروں اور زرداروں کو جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔لیکن آپ کو دیگر قوم دوست اور وطن محافظوں کی طرح بلوچ ماؤں اور بہنوں کے بہتے ہوئے آنسوؤں نے بے چین کردیا تھا۔اس وقت آپ فقط بارہ (12) سال کے تھے۔اس چھوٹی سی عمر میں آپ(شہید) نے اپنی ماں کو وہ عظیم نظم سنایا جس نے آنے والے دنوں میں آپ کو ایک عظیم شخصیت کارتبہ عطاکرتے ہوئے انسانی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔
ماتی منی ساہء بدل پنتے چی آماتاں بزور
لجانی دیمپاں اِش کت آنت بچ تنگوھیں شیرء مزار

بھٹو آمریت میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن عوامی اپنے عروج پہ تھا۔ عوامی سطح پہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ہردلعزیزی بھٹو حکومت کے لیے ناقابل برداشت صورت اختیار کرچکا تھا۔ جس سے خوفزدہ ہوکر حکومت نے بی ایس او (عوامی)کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کریک ڈاون شروع کردیا۔لاکھ کوشش کے باوجود حکومت بلوچ طلباء تنظیم کے نوجوانوں کو ان کے پروگرام سے دستبردار کرنے میں مکمل ناکام ہوگیا۔اسی دوران 1974۱ء میں شہید فدا جان بلوچ کارکنان کی سیاسی تربیت کے لیے جب مند کا دورہ کررہے تھے تو آپ(شہیدغلام محمد بلوچ) شہید فدا جان کی رہنمائی میں بی ایس او کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاکرتاتھا۔ آپ شہید کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تنظیم نے آپ کو مند زون کازونل جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری سونپ دی۔


یہ وہ دور تھا جہاں قابض ریاست (پاکستان) مقبوضہ بلوچستان میں خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔کوہستان مری اور جہالاوان میں ریاستی کاروائیاں اپنے عروج پہ تھیں جہاں ہر روزبلوچ ریاستی جبر کا نشانہ بن رہے تھے۔
ایک جانب ریاستی کاروائیوں کا نشانہ کوہستان اور جہالاوان کے عوام بن رہے تھے تو دوسری جانب مقبوضہ بلوچستان میں ہر طرف بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان ریاست کے نشانے پہ تھے۔ لیکن آپ ریاستی ظلم و جبر کو خاطر میں لائے بغیر اپنے کام میں زیادہ دلچسپی لیتے گئے۔ کیونکہ ان حالات میں قوم کو ریاست کے خلاف متحرک کرنا تھا لہذا آپ (شہید) بی ایس او کی سرگرمیوں کو مزید وسعت دینے کی کوشش کرتے رہے۔ سیاسی سر گرمیوں کی باعث بھٹو دور حکومت میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنوں پہ گھیرا تنگ کیا جارہا تھا۔ان حالات میں بھی آپ(شہید) شہید فدا احمد کی رہنمائی میں تنظیم کاقومی پروگرام بلو چ عوام تک پہنچانے کے لیے دن رات تندہی سے کام کرتے رہے۔


تنظیم کے اس دور کی کارکردگی کو اگر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ شہید فدا احمد جیسے زیرک لیڈر کی رہنمائی میں بی ایس او (عوامی) ایک طلباء تنظیم نہیں بلکہ ایک قومی سیاسی جماعت تھی کیونکہ وہ اس قدر فعال اور متحرک ہوا کہ وہ ایک حقیقی انقلابی قومی پارٹی کی شبیہہ پیش کرنے لگا تھا۔دوسری جانب حکومتی ظلم جبر بھی بڑھتاگیا۔ہر جگہ بھٹو آمریت کے سفاک صفت انسان بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان اور لیڈروں کی گرفتاری کیلئے دن رات چھاپے مارتے تھے۔

اسی دوران آپ(شہید غلام محمد)بھی سرکار کے نشانے پہ آگئے جہاں آپ کے نام کا گرفتاری وارنٹ جاری کیا گیا۔اسی لیے آپ اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ روپوشی کی زندگی گزاررہے تھے۔ اچانک ایک دن صبح سویرے مند کے کوسٹ گارڈ کے اہلکاروں اور لیویز فورس کی آنکھوں سے خود کو بچا کر آپ گھر پہنچ گئے تو اماں نے آپ(شہیدغلام محمد) کو دیکھ کر گلے لگایا۔اور گلوگیر آواز میں کہا کہ بیٹا میں آپ کی ماں ہوں اور ایک ماں سے بیٹے کی یہ تکلیفیں برداشت نہیں ہوتی۔ ایک تم ہو کہ ریاست سے جان بچانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہو اور دوسرا آپ کا بھائی یوسف ہمیں چھوڑ کر دیارغیر میں دربدر کی زندگی گزاررہے ہیں اورآپ کا چھوٹا بھائی عبدالرزاق کی عمر ہی کیا ہے۔اب اگر تمہیں ریاست نے گرفتار کرلیا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کے تم یہ سب کچھ کررہے ہو۔سرکاری سپاہی ہر روز گھر آکے تمہارا پوچھتے ہیں۔ تمہاری وجہ سے انہوں ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے یہ سپاہی تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ تمہارا بیٹا غلام محمد بڑا لیڈر بن چکا ہے اور پاکستان کوتوڑنا چاہتا ہے لیکن میں جانتی ہو اور میرا دل یہ کہتا ہے کہ تم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ لیکن پھر سوچ میں پڑجاتی ہوں کہ اگر تم نے کوئی جرم ہی نہیں کیا ہے تو کیوں یہ اس قدر تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔بیٹا خیال کرنا ایسی کوئی حرکت مت کرنا جس سے تمہاری ماں کو تکلیف پہنچے کیونکہ کوئی ماں اولاد کا غم برداشت نہیں کرسکتی۔تو آپ (شہیدغلام محمد) ماں کی باتیں سن کر مسکراتے ہوئے کہا کہ ماں میں نے کوئی جرم نہیں کیا بس فقط وہ کام کررہاہوں جس سے آپ کی شان بڑھے گی۔ خود کو پریشان مت کرنا اورمسکراتے ہوئے کہا کہ جلدی سے مجھے دودھ والی چائے پلادو۔


چائے پینے کے بعد آپ نے ماں سے کہاں کہ ماں دنیا میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جو فقط اپنی ذات یا اپنے ارد گرد بسنے والے گنتی کے چند لوگوں کے لیے جیتے ہیں وہ بھی ان کے لیے جن کے ساتھ سے ان کے ذاتی مفادات وابسطہ ہوں ایسی زندگی کو ہی وہ زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ لیکن میں ان کی طرح بننا نہیں چاہتا کیونکہ جب میں سوچتا ہوں کہ میں بھی ان کی طرح بن جاؤں تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے اور چیخ چیخ کر مجھ سے کہتا ہے کہ کیا تم اپنے ہی قوم کو اندھیری رات کا مسافر بنانے کی کوشش کررہو؟۔ماں آپ نے کہا کہ کیوں یہ سب کچھ کررہے ہو؟ اور کیوں مجھ سے میری آنکھوں کی بینائی چھیننے کی کوشش کررہے ہو؟۔ ماں میں جاتنا ہوں کہ ایک ماں کے حقوق اور ایک بیٹے کے فرائض کیاہیں۔

لیکن ماں اس وقت ہم سب کی ماں یہ دھرتی ہے جس کی آغوش میں ہم سب کو جانا ہے۔ جس نے لاکھوں،کروڑوں بچوں کو جنم دیا، ان کے اولاد اسی دھرتی ماں کا سینہ چیر کے اپنے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے رہے ہیں،کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے اگر دھرتی سلامت رہی تو۔۔۔ ماں اب بتا ان حالات میں جب دھرتی ہی غیروں کے قبضے میں ہے اور وہ اپنے ہر فرزند کو پکاررہی ہے کہ مجھے ان درندوں سے آزادی دلادو۔ تو بتا ماں ان حالات میں میں گھر میں بیٹھ کے آپ کا سہارا بنوں یا کوئی ایسا کام کروں جس سے میری دھرتی ماں کو آزادی اور اس کے ہر فرزند کو ان کے حقوق ملیں،اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔چاہے تو مجھے جیتے جی سولی پہ لٹکا دو یا ایک عظیم مقصد کے لیے میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرو۔ماں اکثر لوگ بچپن میں زندگی کی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے کچھ کرنے، کچھ بننے اور کچھ دکھانے کے لیے آنکھوں میں کچھ خواب سجاتے پھرتے ہیں۔ اور تیرے اس لال نے بس ایک ہی خواب دیکھا ہے کہ غلامی کے خلاف جدوجہد ایک ایسی جدوجہد جو بلوچ قوم کے لیے خوشی کی نوید لے کے آئے۔اس وقت میں رہوں یا نہ رہوں بس اس خواب کی تعبیر ممکن ہو۔میرا خواب اورمیری زندگی کا مقصد یہی ہے۔


اس کے بعد آپ نے ماں سے کہا کہ ماں میرا یہ نظم سن لو، نہ جانے پھر زندگی میں ایسا موقع ملے گا بھی کہ نہیں۔پھر آپ ترنم کے ساتھ اپنی شاعری سنانے لگے۔

دستونک

تو پہ منی واہ ء ِ پدء َ مرواردیں ارساں مہ گوار
واھگ منی جند ء ِ نہ انت ھست اِنت تئی زرد ء ِ کرار

تلکاریں ھونانی نشان اَرسیگیں کاڈانی گُشان
ڈوبا ر انت بالاد ء َ منی لیٹ انت دل ء َ چو سیاہ مار

ماتی منی ساہ ءِ بدل پنتے چہ آ ماتاں بہ زیر
لجّانی دیمپان اِش کت انت بچ ّ تنگوھیں شیر ء ُ مزار

شیراں منارا پہل کن دست ءَ سرا ایرمال منی
دیم ءِ تہاری ءَ لپاش مھرءِ تُشے پر من سر ار

ڈساں مناں ننگ ءِ بدے ھالو ھلو ساڑا مناں
کار بند بلوچی زھرگ ء َ باھند گوں تیر ء ُ سگار

ساہ ءَ منی دلجم بہ بئے مرگ ءِ لوار ءِ کُشت نہ کنت
من کہ نباں بازین بنت آ شادھاں گوں تو ھوار

نی تو بُگش من چی کناں ھرنیمگ ءَ لوٹ انت منی
یک نیمگے جوریں بد اَنت یک نیمگے راج ءِ توار

(یہ نظم آپ کی پہلی باقائدہ شاعری تھی جسے آپ نے بارہ (12) سال کی عمر میں لکھا تھا)

آپ کی پر اثر باتیں اور شاعری سنتے ہی ماں نے آنسوں بھری آنکھوں سے آپ کو اپنی باہوں میں لیکرگلے لگاتے ہوئے کہنے لگی غلام جان بیٹا آج میں فخر سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ تو نے میرے دودھ کی لاج رکھ دی، مجھے ناز ہے تم پہ، آج تو نے اپنی ہی نہیں اپنی ماں کی شان و شوکت میں بھی اضافہ کیا۔ آج میں سر اٹھا کے یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں غلام محمد کی ماں ہوں اور مجھے میرے بیٹے پہ فخر ہے جو اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر قومی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے کمربستہ ہے،جا بیٹے جا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو کرنا ہے کرلو۔ میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تمہیں اپنی حفظ وامان میں رکھے اور مقصد کی کامیابی میں ربِ کریم تمہاری مدد کرے۔ ماں کے یہ الفاظ سن کر آپ (شہیدغلام محمد) تشکر کے آنسوؤں کے ساتھ ماں کے ہاتھ چھومتے ہوئے یہ کہہ کر ان سے رخصت لی کہ ماں میری دعا ہے کہ اللہ ہر بلوچ ماں کے حوصلے آپ کی طرح بلند رکھے اور جس دن ایسا ہوا اسی دن ہماری کامیابی ممکن ہوگی۔

گھر والوں سے رخصت لیتے ہوئے آپ پھر اپنے تنظیمی دوستوں کے ساتھ تنظیم کے کاموں میں سرگرم ہوگئے۔اس دوران مقدس سیاسی عمل کو چھوڑ کرمیں 1970 ء میں عربوں کی غلامی کرنے خلیج چلاگیا۔لیکن اس عظیم کام کی ذمہ داری آپ بہتر طریقے سے نبھاتے رہے۔میں جو کرنا چاہا وہ میں نہیں کرسکا شاید میرے حوصلے اتنے بلند نہیں تھے یا میری سوچ میں اتنی پختگی نہیں تھی۔یقیناً میری اپنی کمزوریاں تھی جس کی وجہ سے میں اپنے وطن سے دور اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کی بجائے غیروں کی غلامی کرنے لگاتھا۔لیکن آپ عظیم تھے، آپ کی سوچ، فکر اور نظریہ مضبوط تھا جس کی وجہ سے آپ نے اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پہ لی۔ جب1975ء میں میں خلیج سے چھٹی پہ واپس گھر آیا تو علاقے میں آپ (غلام محمد) کی تنظیمی کارکردگی اورسر گرمیاں دیکھ کر بے انتہاء خوش ہوا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی لاحق ہوئی کہ کہیں یہ آمرانہ حکومت آپ کو نقصان نہ پہنچائے کیونکہ کہ ہر طرف بھٹو آمریت کے پالے ہوئے کرایے کے سپاہی قومی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف پوری طرح سرگرم تھے جس کی وجہ سے گھروں پہ حکومتی فورسز کے چھاپے روز کا معمول بن چکا تھا۔میرے اندر کا جو خوف تھا جس کی وجہ سے میں آپ کے لیے ڈرنے لگا تھا یہ بھی میری کمزوری ہی کہا جاسکتا ہے۔آج جب میں ماضی کے ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو بے اختیار منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ عظیم لوگ بنائے نہیں جاتے بلکہ وہ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں۔ ان کے حوصلوں کو پست کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، چاہے ان کی راہ کتنی ہی پُر خارکیوں نہ ہو۔

اس دوران جب ماں سے آپ کی آخری ملاقات کے بارے میں سنا تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیا اس وقت مجھے کتنی خوشی ہوئی گی اسے بیان کرنے سے میں قاصر ہوں۔ جب ماں نے آپ کا وہ آخری ملاقات والا نظم سنا نے کے بعد میری طرف دیکھا تو اس کے چہرے پہ ایک پرسکون مسکراہٹ تھی اور ماں نے کہاں کہ یوسف مجھے فخر ہے کہ میں غلام محمد کی ماں ہوں۔میں اس بیٹے کی ماں ہوں جو لڑکپن اور جوانی میں ایک عظیم کام کی ذمہ داری اپنے نازک کندھوں پہ سنبھالا ہے۔ماں کا یہ حوصلہ دیکھ کر میں بے اختیار ان کے پاؤ ں چھونے لگا اور نہ جانے کتنی دیر میں ماں کے قدموں میں پڑا رہا۔ ماں میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ نہ جانے کتنی دیر میں اسی کیفیت میں پڑا رہا۔ جب یہ کیفیت ختم ہوا تو میں نے ماں سے کہا کہ ماں اسی طرح اگر آپ قومی فرض نبھانے کے لیے اپنے لختِ جگر کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنوگے تو میرا ایمان ہے کہ ایک دن آپ کا یہ عمل دیگر بلوچ ماؤں کے لیے بھی مثال بنے گا اور وہ اسی عمل کو اپنانے میں فخر محسوس کرینگے۔

آج جب بلوچ جہدِ آزادی ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جہاں قوم کو لاشوں کے تحفے میں ملنا روز کا معمول بن چکا ہے تو مادرانِ بلوچ بھی قربانیاں دینے میں سبقت لے جارہی ہیں۔یہ یقیناً اس بات کی دلیل ہے کہ اب قوم اپنی آزادی کے لیے شعوری طور پر میدانِ عمل میں ہے۔ بلوچ قوم کی ماؤں کے حوصلے دیکھ کے آج ہر ذی شعور یہی کہتا ہے کہ بلوچوں کی منزل اب زیادہ دور نہیں۔ان میں غلامی کا یہ احساس شدت کے ساتھ سرایت کرچکاہے کہ مادروطن کارشتہ، خونی رشتوں سے بالاتر اور مقدس ہے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا اللہ نہ کرے کہ میں کبھی اس مقدس عمل میں غلام محمد کی حوصلہ شکنی کروں۔ کیونکہ میں نے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی دیکھی ہے جسے شاید کوئی ماں ہی محسوس کرسکتی ہے۔ماں نے مسکراتے ہوئے مزید کہا کہ بیٹا یوسف جان جب سے غلام جان کے وہ اشعار میں نے سنے ہیں،میں خود میں ایک بڑی تبدیلی محسوس کررہی ہوں جس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو ان عظیم ماوں کی فہرست میں دیکھ رہی ہوں۔جن کے لال اپنے قوم اور اپنے وطن کی خاک کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا دیے لیکن ان کے پایہ استقلال میں کبھی لرزش نہیں آئی۔اب میری دلی تمنا ہے کہ آپ اور آپکا چھوٹا بھائی عبدالرزاق بھی غلام جان کاہم سفر بن جائے۔ وقت گزرتا گیا بھٹو دورِ حکومت بھی اپنے انجام کو پہنچا جہاں اس کی جگہ پاکستان میں ایک اور فوجی اقتدار،جنرل ضیاء کی حکمرانی میں قائم ہوا۔لیکن جاتے جاتے اُس دور حکومت نے اپنے پیچھے بلوچوں کی ہزاروں لاشیں، بلوچ سماج میں ہوا کی بیٹیوں کی بے حرمتی اور بلوچوں کو دربدر کی زندگی گزارنے کے لیے جلاوطنی کی راہ اپنانے پہ مجبور کردیا۔جہاں ہزاروں بلوچ خاندان افغانستان چلے گئے۔اس المناک دور کے قصے آپ ہر روزاورہر لمحہ اپنے سینئر دوستوں سے سنتے تھے۔ جس نے آپ کے نظریے اور فکر کو مزید مضبوط بنادیا۔جس کی وجہ سے آپ کی توجہ فقط قومی آزادی پہ ٹِک گئی تھی یہی فکری مضبوطی تھی جس کی وجہ سے آپ نے عیش وآرام کی زندگی کو اپنے لیے حرام قراردیااور آپ دن رات قوم اور وطن کے بارے میں سوچتے اور جدوجہد کرتے رہے۔

جب ہم عظیم انسانوں کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کہ ایک انسان کیسے اور کیونکراتنی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ جہاں اس کے لیے بچپن، جوانی جو عموماً تو کھیلنے کودنے اور رنگینیوں کا دور ہوتا ہے لیکن وہ ان سے بے خبر اجتماعی سوچ کے ساتھ جہاں پورے سماج کا نقشہ بدلنا ہوتا ہے جانبِ منزل محو سفر ہوتے ہیں۔ الغرض عمر کا کوئی حصہ ان عظیم ہستیوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ایک عام انسان بھی جسے انسانیت کے بارے میں کچھ ادراک ہو وہ انسان کی اس عظمت کا یقین کریگا لیکن میں تو خود یہ سب کچھ ہوتے دیکھ چکاہوں کہ عظیم انسانوں کی عظمت کی بلندی کی کوئی حد نہیں ہوتی اورآپ (شہید غلام محمد) بھی انہی ہستیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے بلندی کے ہمالیہ سر کرلیے جو سیاسی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے قوم کو غلامی سے نجات کے بارے میں سوچتے تھے۔ شہید غلام محمدبلوچ کی فکر اور کردار میں مزید پختگی اس وقت آیا جب آپ نے سیاسی زندگی کی شروعات بی ایس او (عوامی)کے پلیٹ فارم سے شہید کامریڈ فدا جان کی رہنمائی میں کیا۔چونکہ آپ کی سیاسی تربیت شہیدکامریڈ فداجان کے منعقدہ تربیتی پروگراموں کی مرہوں منت ہے جسکی بدولت آپ نے آنے والے دنوں میں شعوری طورپربی ایس او کوبلوچستان اور بلوچ عوام میں فعال ومستحکم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

بھٹو دورِ حکومت میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بار بار کوششیں ہوئی لیکن کارکنان کی جدوجہد کی بدولت حکومت کو ہر بار منہ کی کھانی پڑی۔بھٹو بی ایس او کو ختم کرنے میں نہ صرف مکمل ناکام رہا بلکہ اس دور کے جبر و بربریت نے اس تنظیم کے کارکنان کا نظریاتی پختگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس حوالے سے یہ معقولہ مشہور ہے کہ کشی شئے کو جتنا دباؤگے وہ لاوے کی صورت اختیار کرتا ہے جہاں اس کے لیے چٹانوں کو پگھلانا بھی معمولی سی بات بن جاتی ہے۔میں سمجھتا ہوں اس طلباء تنظیم کا وجود جو آج تک نظریاتی شکل میں موجود ہے وہ ظلم کی ان داستانوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ بھٹو آمریت اپنے انجام کو پہنچ گیا۔جہاں اسکی جگہ فوجی حکمران جنرل ضیاء نے بھی بلوچ طلباء تنظیم کو ختم کرنے کی سر توڑ کوششیں کیں۔لیکن بلوچ نوجوانوں کی اس تنظیم کے نظریاتی دوستوں نے ہر موقع پہ ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کارواں کو جانبِ منزل لے کے چلتے رہے۔ جہاں آپ اور دیگر دوستوں نے ملکربلوچ نوجوان طلبا وطالبات کے ساتھ ساتھ بلوچ ماؤں،بہنوں اوربزرگوں کوتنظیم کا قومی محکومی اور غلامی کیخلاف نظریاتی سیاسی فلسفہ پر وطن کے لیے جدوجہد پہ متحرک کرتے رہیں۔ ریاستی بربریت وآمریت جو کہ اپنے عروج پہ تھا جہاں ہر جانب ظلم و جبر کا بازار گرم تھا لیکن مجال کے آپ کے پایہ استقلال میں کبھی کوئی لرزش آئی ہو،بلکہ ظلم و زیادتی کا یہ طوفان آپ کو مزیدمضبوظ کرتا گیا جس نے آگے چل کر آپ کو ایک مکمل انقلابی روپ عطاء کیا۔ 1979ء میں جن دنوں ضیاء حکومت کادور تھا، میں قطر سے چھٹی پہ آیا ہواتھا۔ انہی دنوں میرا کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا جہاں شہید غلام محمد بھی ساتھ تھا۔کوئٹہ میں چند روز ہی قیام کیا تھا کہ شہید نے مجھ سے کہا کہ چلو آج ایک بڑی ہستی سے مل کے آتے ہیں۔میں نے پوچھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چل کے خود ہی دیکھ لینا۔ لیکن میں نے ضد کیا کہ نام تو بتانا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ شیر محمد مری کا نام سنا ہے؟ میں نے کہا ہاں بلوچ گوریلہ کمانڈر جنرل شیروف کے نام سے کون واقف نہیں لیکن دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ تو انہوں نے کہا کہ چلو آج ان سے ملتے ہیں۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اتنی بڑی ہستی سے میں ملنے جارہا ہوں۔

اسی لیے میں نے پوچھا کہ آپ مذاق تو نہیں کررہے تو شہید نے مسکراہتے ہوئے کہا چل کے دیکھ لو۔ میں خلیج میں اور جب اپنے وطن میں تھا اس وقت بھی اکثر جنرل شیروف کے بارے میں سنتاتھا اور ہر کسی کے زبان پہ اس کے لیے تعریفی کلمات ہی تھے۔ اور آج جب میں ان سے ملنے جارہاتھا تو مجھے خود پہ یقین نہیں ہورہاتھا۔بہرحال ہم رکشے میں بیٹھ کے ان کے گھر کی جانب ہولیے اور کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ ان کی رہائش گاہ پہ ان کے ذاتی محافظ کو اپنا مدعا بتایا کہ واجہ سے ملنا ہے۔ تووہ ہمیں بیٹھک میں بیٹھا کر کہا کہ واجہ کو اطلاع دونگا۔کچھ دیر بعد واجہ شیرمحمدمری آگئے۔بلوچی حال احوال کے بعد چائے وغیرہ پی کے گفتگو شروع ہوئی تو شیرمحمد مری آپ سے محاطب ہوکر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا غلام محمد آپ نے اپنے ساتھی کا تعارف نہیں کیا۔پہلے انہیں کبھی آپ کے ساتھ نہیں دیکھا ہے تو آپ غلام محمدنے مسکرتے ہوئے کہا کہ میرا بڑا بھائی محمد یوسف ہے آج آپ سے ملاقات کرنے ساتھ لایا ہوں۔اچھا اچھا آپ کا بڑا بھائی ہے۔یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھا۔ مجھے اچھی طرح یادہے اور ہمیشہ مرتے دم تک دل کے ہر گوشے میں قرآنی آیات کی طرح نقش رئینگے۔کہ آپ شیرمحمد مری(جنرل شیروف) غلام محمد سے کہنے لگے۔ غلام محمد چلیں باہر صحن میں چہل قدمی کرکے وہیں بات کرینگے۔

یہ کہتے ہی ہم تینوں وہاں سے اٹھ کے باہر نکلیں اور گھر کے سبزہ زار میں چہل قدمی کرنے لگے۔ آپ(شیروف) جیب سے سیگار نکال کرپینے لگے ایک دو لمبی کش لگا کر آپ غلام محمد سے محاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا،غلام محمد میں آپ کے اندر ایک قابل اعتبار انسان دیکھ کر کچھ باتیں بطور نصیحت کہنا چاہتا ہوں لہذا غور سے سن لو۔آپ غلام محمد کہنے لگے جی بتائیں۔ تو شیرمحمد مری کہنے لگا کہ غلام محمد سیاست کرنا ہے تو غوث بخش بزنجواورعطااللہ مینگل پہ کبھی بھروسہ مت کرنا، ہاں البتہ نواب خیربخش جن سے ہزار اختلاف کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ وہ بلوچوں میں اس وقت سب سے بہتر ہے۔ تو آپ(غلام محمد) پوچھنے لگا ایسا کیوں؟شیروف نے تفصیل یوں بیان کرتے ہوئے کہا بیٹا جب ہم حیدرآباد جیل میں قید تھے تو غوث بخش نے عطااللہ کے ساتھ ملکر قوم کا سودا ضیاء سے کر لیا۔مگر میں اور خیربخش ان کے اس گھٹیا عمل سے دور رہیں کیونکہ ہمارا ضمیرہمیں قومی مفادات کا سودا کرنے سے باز رکھ رہا تھااسی لیے ضیاء ہمیں خرید نہیں سکا۔تو آپ(غلام محمد) نے کہا جی میں تو ان دونون کو نیپ حکومت کے دوران پہچان چکا ہوں۔ جہاں غوث بخش بزنجو نے سوشلزم کا نعرہ لگانے کے باوجود پاکستان کے ساتھ مل کے پہلی فرصت میں ایران کا سرکاری دورہ کرکے شاہ ایران اور ساواک سے سونے کا کلہاڑی بطور تحفہ وصول کرکے ساواک سے وفاداری کا اظہار کردیا۔ (جب بعد میں بزنجو نے پی این پی (پاکستان نیشنل پارٹی بنایا تو اس وقت بھی ان کا انتخابی نشان ایران کے ساتھ وفاداری ثابت کرنے کے لیے کلہاڑی ہی تھا)۔ جب شیروف مری اور آپ(غلام محمد) آپس میں گفتگو کررہے تھے میں ساری باتیں غور سے سن کر میں سوچ میں پڑگیا شیر محمدمری عرف شیروف ایک علمی سیاسی اورگوریلہ لیڈر ہوتے ہوئے بی ایس او پہ یا بی ایس او کے ایک زونل صدر پہ اس قدر اعتماد کررہا ہے۔

اور دوسری جانب فخر بھی محسوس کررہاتھا کہ ایک عظیم انسان نے میرے بھائی کو بھروسے کے لائق سمجھا جو فقط ایک زونل عہدیدار اور سیکنڈری سکول کا طالب علم تھا۔ ضیاء مارشل لاء کے اس دور میں جہاں 70ء کی دہائی کی مسلح جدوجہدعام انسانوں کے لیے قصہ پارینہ بن چکا تھا۔ وہاں اس دور میں چند دور اندیش لوگوں کا یہ اعتماد تھاکہ قومی آزادی کی جدوجہد پھر شروع ہوگی اور مزید شدت کے ساتھ۔ان میں شہید غلام محمد بھی شامل تھا جنہیں مکمل یقین تھا کہ بلوچ اپنی آزادی کی تحریک نئے سرے سے اور زیادہ منظم انداز میں شروع کرینگے۔ 1980 ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول سورو مند سے جو کہ آپ کا آبائی علاقہ بھی ہے، اچھے نمبروں سے پاس کرلیا اور مجھے جو کہ اس وقت قطر میں تھا خط لکھ کر کہا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی جاناچاہتا ہوں۔میں نے فوراً جواب لکھ کر کہا کہ مجھے بہت خوشی ہورہی ہے کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی کا اتنخاب کرلیا ہے۔ اب آپ فقط اپنی پڑھائی پہ توجہ دیں آپ کو جس چیز کی بھی ضروت ہو بلا جھجک مجھ سے کہنا۔پھر آپ نے جو جواب لکھا۔ اسے پڑھ کر مجھے شدید حیرانی ہوئی جہاں آپ نے کہا کہ فقط ماہانہ500 روپے بھیجنا۔ میں نے لکھا کہ پانچ سو میں تو بمشکل ایک ہفتہ تک آپ کا گزارا ہو۔ تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ میں پڑھنے جارہا ہوں سیر و تفریح کے لیے نہیں اور اتنے ہی پیسوں کی مجھے ضرورت پڑے گی۔میرے ذہن میں اس وقت یہی خیال آیا کہ غلام محمد تو نے واقعی قوم کے لیے اپنے آپ کو وقف کررکھا ہے جہاں تم ذاتی نمود و نمائش اور خواہشات سے کوسوں دور ہو۔

جاری ہے

Share This Article
Leave a Comment