عالمی ادارہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کے روز بتایا کہ بدھ کی شام سے اب تک ایرانی فورسز نے 8 مظاہرین کو قتل کرڈالا ہے۔ بدھ کے روز مہسا امینی کی موت کو 40 روز مکمل ہوئے تھے اور ایران بھر میں احتجاج میں شدت آگئی تھی۔ ایرانی سکیورٹی نے ان مظاہروں کو کچلنے کیلئے ایک مرتبہ پھر مظاہرین کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایرانی فورسز کی کی کارروائیوں کی مذمت کی اور آتشیح اسلحہ کے غیر قانونی استعمال کو قابل مذمت قرار دیا۔
حجاب نہ کرنے پر پولیس نے مہسا امینی کو گرفتار کیا اور تین روز بعد 16 ستمبر کو حراست میں ہی مہسا کی پراسرار موت ہوگئی۔ مہسا کی موت کے 40 روز مکمل ہونے کے خونی دن مکمل ہونے بعد جمعرات کو دوبارہ مظاہروں میں غم و غصہ زیادہ نظر آیا۔
شمال مغربی آذربائیجان صوبے کے شہر مہاباد میں بدھ کو ہلاک ہونے والے ایک مظاہرین کی آخری رسومات کے دوران سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے جب کہ مشتعل افراد نے شہر کے ایک پولیس سٹیشن کا گھیراؤ کر لیا۔
کچھ مظاہرین نے نوجوان اسماعیل مولودی کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے نعرے لگائے کہ ”ہمیں اپنے نوجوانوں کو رونا نہیں چاہییبکلہ ان کا بدلہ لینا چاہیے”
ناروے میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہینکاؤ کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کا مقابلہ براہ راست گولیوں سے کیا جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے۔
مہسا کے چہلم کے بعد بھی مظاہرے پوری آب و تاب سے جاری ہیں اور اس دوران ملک کے شمال میں لاہیجان شہر میں ایک اور قسم کا نعرہ سننے کو ملا ہے۔
مظاہرین نے لبنانی حزب اللہ ملیشیا کے رہنما حسن نصراللہ کے خلاف نعرے لگانے شروع کردئیے۔ نوجوانوں نے ”بے شرم حسن نصراللہ، ہم تمہیں مار ڈالیں گے ” کے نعرے لگا دئیے۔
جمعرات کو ایران کے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے گئے، ڈاکٹروں کی بڑی تعداد اصفہان میں نیکا شاکرمی کے قتل کے چالیسویں دن میڈیکل سسٹم آرگنائزیشن کے سامنے جمع ہوگئے۔ یکورٹی فورسز نے کچھ احتجاجی ڈاکٹروں کو گرفتار بھی کرلیا۔
وائرل ہونے والی ویڈیوز میں طلبہ کو احتجاجی ریلیاں نکالتے ہوئے دکھایا گیا۔ تہران کی پارس یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر کے طلبہ یونیورسٹی کے چوک میں جمع ہوگئے اور نعرے لگائے۔ ”قیدی طلبہ کو رہا کیا جائے” اور ”اگر کوئی مارا گیا تو ایک ہزار لوگ پیچھے رہ جائیں گے” اور ”تم بیٹھ گئے تو اگلی مہسا تم میں سے ہوگی” کے نعروں کی گونج سنائی دیتی رہی۔
مہسا امینی کی موت کے بعد سے مظاہروں کی شدت میں قابل ذکر کمی نہیں آئی۔ اس سے قبل تین سال قبل ایران میں بے مثال مظاہرے ہوئے تھے۔ تین برس سے ایرانی نوجوان مردوں، خواتین اور طلبہ نے سیاسی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ حکام کے لئے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ ایرانی نوجوانوں اور حکام کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ نوجوان نسل جسے جنریشن زیڈ بھی کہا جاتا ہے ایک جانب ہیں اور حکام دوسری جانب ہیں۔ مبصرین کے مطابق اسی خلیج کا مشاہدہ گزشتہ چھ ہفتوں میں بھی کرلیا گیا ہے۔