کورونا کی وبا اور بلوچستان کی صورتحال

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

اداریہ

آج کل خبروں میں سرفہرست کورونا نامی وائرس ہے جس نے انسانوں پہ نفسیاتی اثرات مرتب کرنے کے علاوہ پوری دنیا کے اقتصادی نظام کو شدید دھچکہ پہنچایاہے۔ انسانی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا وباء ہو جس نے اتنی تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو۔ دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان سے وقوع پذیر ہونے والا یہ بیماری آج ایک عالمگیر وباء بن چکا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق دنیا کے 208ممالک اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں جہاں اس وقت تک بارہ لاکھ سے زائد افراد اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے لگ بھگ 65000ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کوڈ- 19یا کورونا وائرس نے عالمی سطح پر معاشرتی اور معاشی صورتحال کو سخت مضطرب کررکھا ہے۔

اس وائرس کی وجہ سے آج غالباً پوری دنیا میں کرفیو کا سماں ہے، ایسے حالات میں ترقی پذیر ممالک کے باشندے جو پہلے سے معاشی زبوں حالی کا شکار تھے اب مزید بدترین صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح جب ہم بلوچستان کی صورتحال پر نظردوڑاتے ہیں تو یہاں بھی حالات گھمبیرصورتحال اختیار کررہی ہیں۔ ایک ایسا خطہ جس میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوں اور جس کا عوام پہلے سے ریاستی ظلم و جبر کا سامنا کررہی ہو ایسے میں یہ وباء ان کی زندگی کو مزید مفلوج بنانے کا کا م کررہی ہے۔ بلوچستان میں صحت کی سہولیات کا فقدان اور ریاستی جبر دیکھ کر اس بات کا امکان موجود ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ وباء انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرے گی۔اس حوالے سے بعض قوم پرست حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست ہی بلوچستان میں اس وباء کو پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔بعض حلقوں میں یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ پاکستان اس وباء کو بلوچوں کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔

اس حوالے سے اگر دیکھا جائے ان قوم پرست حلقوں کے تحفظات کو تقویت بھی ملتی ہے جہاں ایران سے آنے والے زائرین کو پاکستانی حکام نے تفتان بارڈر پر روکے رکھا اور وہاں اس وباء کو کنٹرول کرنے کے سہولیات ہی نہیں تھے اس کے بعد انتہائی سخت سیکورٹی کے باوجود سینکڑوں زائرین کا وہاں سے فرار اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ ریاست جان بوجھ کر اس وباء کو بلوچستان میں پھیلانے کے لیے سرگرم ہے۔بلوچستان ایران سرحد جو 954کلومیٹر طویل ہے اس پورے علاقے میں لوگ آزادانہ طورپر سرحد عبور کرتے ہیں۔ ایران جس تیزی سے اس وباء کی لپیٹ میں آچکا ہے اور جو روز بروز گھمبیر صورتحال کا سامنا کررہا ہے اس کے آنے والے دنوں میں اثرات بلوچستان کا ایران سے متصل سرحدی علاقوں کیچ،گوادر، ماشکیل، پنجگور اور چاغی وغیرہ میں صورتحال مزید ابتر ہوگی۔ اب تک کی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں دو سو کیسزکی نشاندہی ہوچکی ہے لیکن جس تیزی سے یہ وباء پھیل رہی ہے اور جس طرح بلوچستان ایران سرحد پہ آزادانہ نقل و حمل جاری ہے اور جس طرح ریاست بے حسی کا مظاہر ہ کررہا ہے وہاں اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ چند ہفتوں میں اس وباء سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جائے گی۔

ریاست جہاں اس وبا کو بلوچ اجتماعی نسل کشی کے لیے استعمال کر رہی ہے،ایسے میں بلوچ عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت احتیاطی تدابیر اپنانے ہونگے، تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے بچایا جا سکے۔

Share This Article
Leave a Comment