غلام محمد بلوچ۔ ایک دور اندیش،متحرک و مدبر رہنما اور سحر انگیز مقرر و موبلائزر- رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

ایڈمن
ایڈمن
30 Min Read


سابق سیکریٹری جنرل بلوچ نیشنل موومنٹ

غلام محمد بلوچ قومی آزادی کی عظیم مقصد کے ساتھ پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ بندھاہوا

committed

ایک رہنما تھا کہتے ہیں کہ واجہ 1974 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے بطور ایک سیاسی کارکن بلوچ قومی تحریک آزادی میں سرگرم ہوگئے تھے وہ شہید فدا احمد بلوچ کے ہم خیال اور قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے وہ سندھ میں بی ایس او کے صوبائی صدر اور مرکزی کابینہ میں جونیئر وائس چیئرمین، سیکریٹری جنرل اور دو بار چیئرمین بھی رہے راقم کو پہلی بار شہید غلام محمد بلوچ کے ساتھ کام کرنے کا موقع 1987 میں ملا جب بی ایس او کی مرکزی کمیٹی نے اپنے ایک خالی نشست کیلئے راقم کو چْن لیا جو اس وقت بی ایس او خضدار زون کا جنرل سیکریٹری تھا۔
وحید بلوچ کی چیئرمین شپ میں بی ایس او کے مرکزی کابینہ میں غلام محمد بلوچ سیکریٹری جنرل اور راقم جونیئر وائس چیئرمین تھا جب غلام محمد بلوچ بی ایس او کے مرکزی چیئرمین بنے تو راقم اس کی کابینہ میں سینئر وائس چیئرمین تھا1990 میں پاکستانی پارلیمانی الیکشن کے موقع پر بلوچستان نیشنل موومنٹ اختلافات کا شکار ہوکر دو دھڑوں میں بٹ گیا ایک دھڑے کی قیادت ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور دوسرے دھڑے کی قیادت سردار اختر مینگل کر رہے تھے، بی این ایم کی اس دھڑہ بندی کا اثر بی ایس او پر بھی پڑا جس کے نتیجے میں بی ایس او بھی دھڑہ بندی کا شکار ہوگیا۔مرکزی کمیٹی کی اکثریت چیئرمین واجہ غلام محمد بلوچ کی سربراہی میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے گروپ کی حمایت کر رہے تھے اور ہم مرکزی کابینہ کی اکثریت سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ایوب بلوچ (زہری) کی سربراہی میں سرداراختر مینگل گروپ کے حامی تھے وہ ڈاکٹر عبدالحئی گروپ کی متوسط طبقے کے نعرے سے اور ہم سردار اختر مینگل گروپ کی تند و تیز قوم پرستانہ لہجہ اور نعرہ بازی سے متاثر تھے اس وقت بی این ایم اور بی ایس او کے کیڈر اور کارکنوں کی اکثریت بلوچ قومی آزادی کی مقصد سے پورے خلوص کے ساتھ جْڑے ہوئے تھے مگر ہم سب بلوچ قومی تحریک آزادی سے بی این ایم کے دونوں دھڑوں کے لیڈشپ کی انحراف کا ادراک نہ کرپائے۔
بلوچ قومی آزادی کی مقصد کے ساتھ غلام محمد بلوچ کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالحئی گروپ کے ساتھ جْڑ جانے کے باوجود وہ اس زمانے میں بھی افغانستان میں جلاوطن بلوچ آزادی پسند رہنماؤں نواب خیر بخش مری، میر عبدالنبی بنگلزئی اور جناب واحد قمبر بلوچ کیلئے بھی اپنی حمایت کا کْھل کر اظہار کرتاتھا۔

بی ایس او سے فارغ ہونے کے بعد واجہ غلام محمد بلوچ بلوچستان نیشنل موومنٹ (حئی گروپ) میں شامل ہوئے۔ 1995 میں جب راقم بھی تعلیم اور بی ایس او سے فارغ ہوا تو اس وقت بی این ایم (مینگل) بلوچستان کے بعض ایسے سرداروں، کاروباری شخصیات اور سیاسی گروپس کے ساتھ انضمام کی تیاری کر رہا تھا جو نہ صرف اپنے سماجی کرادار کی وجہ سے بلوچ معاشرے میں اچھے اور بااعتبار نہیں سمجھے جاتے تھے بلکہ وہ اپنے قوم و سماج دشمن کردار کی وجہ سے کافی متنازعہ بھی تھے وہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے ساتھ وابستگی کا کوئی اظہار بھی نہیں کر رہے تھے۔بی این ایم کے دونوں دھڑوں (مینگل و حئی) کے دعوؤں اور حق خود ارادیت کی مبہم نعرے کے برعکس وہ شخصیات اور گروہ پاکستانی دستوری اور جغرافیائی فریم ورک کے اندر سیاست کے حامی تھے اسلئے بی ایس او سے فارغ ہونے کے بعد راقم بھی بی این ایم (حئی) میں شامل ہوگیا جہاں ایک بار پھر واجہ غلام محمد بلوچ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا۔

بی این ایم (حئی) میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد واجہ غلام محمد پارٹی کے مختلف علاقائی عہدوں پر کام کے بعد مرکزی سینئر نائب صدر منتخب ہوئے 1990 کی دہائی کے آخری دنوں میں،جب بلوچ تحریک آزادی نئی انگڑائی لینے لگا تھا، غلام محمد بلوچ نے پارٹی قیادت پر قومی مقاصد کو پس پشت ڈالنے اور پارٹی پالیسی کو معاشی مطالبات تک محدود کرنے کا الزام کھلے عام لگانا شروع کیا تھاشروع میں واجہ قومی آزادی کی مقصد سے پارٹی کی اس انحراف کیلئے شاید ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو صرف ذمہدار سمجھتا تھا اور میر مولا بخش دشتی اور ڈاکٹر عبدالمالک وغیرہ پر اسے تھوڑا بہت اعتبار اب بھی تھا۔ راقم کی اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ بی این ایم (حئی) کی 2002 کی مرکزی کونسل سیشن کے موقع پر ڈاکٹر اسحاق بلوچ کے گھر پہ کھانے پر چند سینئر دوستوں کو مدعو کیاگیا جن میں راقم اور بی ایس او کے سابق چیئرمین ایوب جتک بھی شامل تھے وہاں واجہ غلام محمد نے آئندہ پارٹی صدارت کیلئے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی بجائے کسی اور لیڈر کو آگے لانے کی تجویز پیش کی۔ شرکاء میں سے کچھ نے ایوب جتک کا نام پیش کیا لیکن واجہ غلام محمد نے صدارت کیلئے ڈاکٹر مالک اورجنرل سیکریٹری کیلئے ایوب جتک کے نام تجویز کئے وہاں سے نکلنے کے بعد شرکاء میں سے کچھ لوگوں نے جب یہ تجویز ڈاکٹر عبدالمالک کے سامنے رکھا تو ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر اس تجویز کو قبول کرنے سے معذرت کی کہ پندرہ سال کی طویل سیاسی رفاقت کے بعد وہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب کے خلاف پارٹی صدارت کیلئے الیکشن لڑنے کو مناسب نہیں سمجھتا البتہ اگر ڈاکٹر حئی صاحب ازخود پارٹی صدارت سے دستبردار ہو تو پھر اس صورت میں وہ پارٹی صدر بننے کیلئے تیار ہے۔ ڈاکٹر مالک کے انکار کے بعد واجہ غلام محمد بلوچ پارٹی صدارت کیلئے خود ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے مقابلے میں الیکشن لڑے اور تمام سینئر قیادت کی مخالفت کے باوجود اس نے ایک سو کے قریب ووٹ بھی حاصل کئے۔ واجہ غلام محمد بلوچ کی اس باغیانہ فیصلہ نے ڈاکٹر عبدالحئی سمیت پارٹی کی سینئر قیادت کو خوفزدہ کیا تھا اور وہ اپنے انحراف پسند سیاست کے خلاف پارٹی کے اندر واجہ غلام محمد کی موجودگی کوایک بڑا چیلنج سمجھنے لگے تھے اسلئے وہ سب واجہ غلام محمد کے خلاف متحد ہوگئے تھے 2002 کے پاکستانی پارلیمانی الیکشن کے بعد جب پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا پہلا اجلاس سریاب میں ڈاکٹر عبدالحئی کے گھر پر ہوا تو میر محمد اکرم دشتی نے واجہ غلام محمد پر مخالف امیدوار کی حمایت کا الزام لگاکر شکایت کی۔

وہ اس جھوٹے الزام کی بنیاد پر غلام محمد کو پارٹی سے خارج کرنا چاہتے تھے جب راقم اور چند دوسرے اراکین نے ان سے اس الزام کے تائید میں ثبوت مانگے تو میر دشتی کوئی ثبوت پیش نہ کرسکاراقم سمیت مرکزی کمیٹی کی اکثریت نے واجہ غلام محمد بلوچ جیسے مخلص اور سینئر رہنما کو صفائی کا موقع دیئے بغیر یکطرفہ الزام کی بنیاد پر پارٹی سے نکالنے کی مخالفت کی اس طرح پارٹی قیادت کی طرف سے واجہ غلام محمد کو بی این ایم سے خارج کرنے کا یہ سازشی منصوبہ ناکام ہوا۔

منحرف لیڈرشپ کو نئی صدی و نئے ہزاریہ کے آغاز پر بلوچ قومی تحریک آزادی کی نئی اٹھنے والی لہر کا اندازہ ہوگیا تھا جس سے خوفزدہ ہوکر وہ نئی صف بندی کرکے اپنا مورچہ مضبوط کرنا چاہتے تھے اسلئے بی این ایم (حئی) نے غالباً مئی 2003 کے اپنے اجلاس میں سردار ثناء اللّہ زہری اور میر حاصل بزنجو کی نئی سیاسی گروپ بی این ڈی پی کے ساتھ انضمام کا فیصلہ کیا راقم اس وقت بی این ایم (حئی) کی مرکزی کمیٹی کا ممبر اور قلات ڈویژن کا سیکریٹری / کوآرڈینیٹر تھا مگر مذکورہ میٹنگ میں شرکت نہیں کیا تھا اسلئے انضمام کے منصوبے پر غوروخوض کیلئے ڈویژنل کمیٹی کی میٹنگ خضدار میں طلب کیا جس میں ڈویژنل کمیٹی کی ارکان کے علاوہ مرکز کی طرف سے ڈاکٹر عبدالحئی، ڈاکٹر عبدالمالک اور ڈاکٹر یاسین نے میٹنگ میں شرکت کرکے انضمام کے فیصلے کا دفاع کیا اس میٹنگ کے اختتام پر راقم ذہنی طور پر ان سے اپنا سیاسی رشتہ ختم کر چکاتھا اسلئے جب اکتوبر 2003 میں بی این ایم (حئی) اور بی این ڈی پی۔ کے باہمی انضمام سے نیشنل پارٹی کی قیام کا اعلان کیا گیا تو راقم نے ان تقریبات میں شرکت نہیں کی۔ نیشنل پارٹی کی قیام کے غالباً اگلے دن واجہ غلام محمد نے کوئٹہ میں چند سیاسی کارکنوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں نیشنل پارٹی کے قیام کو بی این ایم کے اغراض و مقاصد سے انحراف قرار دے کر مسترد اور بی این ایم کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔نیشنل پارٹی خضدار کی قیادت نے پارٹی کے پہلے ضلعی اجلاس میں جب راقم کو مدعو کیا تو راقم نے ان کو بھی صاف بتا دیا کہ وہ نیشنل پارٹی کا ممبر نہیں ہے۔
بی این ایم کو برقرار رکھنے کی اعلان کے کچھ عرصہ بعد واجہ غلام محمد بلوچ خضدار آئے اور رات کو راقم کے گھر میں قیام کیا جہاں نئی سیاسی و تنظیمی صورتحال پر راقم سے اس کی ایک طویل بحث و مباحثہ ہوا۔ راقم واجہ کے سیاسی موقف کو درست مانتا تھا مگر ماضی کے تلخ سیاسی تجربات کی روشنی میں کوئی فیصلہ جلد بازی میں نہیں کرنا چاہتا تھا مذکورہ سیاسی نشست کے چند ماہ بعد واجہ غلام محمد دوبارہ خضدار آیا اور اس بار کامریڈ مولا داد بھی ان کے ساتھ تھا دونوں سے سیر حاصل تبادلہ خیال کے نتیجہ میں راقم کو واجہ کی خلوص اور استقامت پر یقین آگیا اسلئے راقم نے بی این ایم کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور انھیں اپنی جانب سے حمایت کا یقین دلایا۔
واجہ اور کامریڈ مولا داد واپس چلے گئے راقم نے چند روز بعد ایک پریس کانفرنس میں بی این ایم کو برقرار رکھنے کے فیصلہ اور کوششوں میں واجہ غلام محمد کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

واجہ غلام محمد نے راقم کو مرکزی آرگنائزنگ باڈی میں نامزد کر کے کوئٹہ طلب کیا اور بتایا کہ جے ڈبلیو پی کے سربراہ اور بزرگ بلوچ رہنما نواب محمد اکبر خان بگٹی کے ساتھ تبادلہ خیال کیلئے ڈیرہ بگٹی جانا ہے پس واجہ کی سربراہی میں حاجی نصیر بلوچ، عصاء ظفر، فضل بگٹی اور راقم سبی پہنچے جہاں شاہ زمان رند اور پْنہل بلوچ نے ہماری میزبانی کی۔
فضل بگٹی کو سبی میں چھوڑ کر باقی تمام ساتھی اگلے روز صبح سبی سے صحبت پور اور سوئی کے راستے ڈیرہ بگٹی کیلئے روانہ ہوئے راستہ طویل اور تھکا دینے والا تھا۔24 مارچ 2004 کو عصر کے وقت ہم ڈیرہ بگٹی پہنچے ریسٹ ہاؤس میں تھوڑا آرام کیا جہاں نواب صاحب کا پوتا میر براہمدغ بگٹی، جسے نواب صاحب کا جانشین خیال کیاجاتا تھا،آکر ملا۔ کچھ دیر ان سے تبادلہ خیال ہوا پھر رات نواب صاحب نے ہم سب کو آٹھ بجے رات کے کھانے پر اپنے قلعہ میں بلوایا جہاں رات بارہ بجے تک ان سے بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا،بات چیت کافی مثبت رہی بلوچ سیاست کے حوالے سے ہمارے اور نواب صاحب کے خیالات و موقف میں بہت ہم آہنگی تھا البتہ حکمت عملی کے چند معاملات پر ہماری وفد اور نواب صاحب کے درمیان اختلاف رائے موجود تھا ہم پاکستانی پارلیمانی مشق میں حصہ لینے کو بلوچ قوم کیلئے بے سود سمجھتے تھے اور اس کے خلاف تھے جبکہ نواب صاحب کی رائے ہم سے مختلف تھا اس کے علاوہ نواب بگٹی صاحب سردار ثناء اللّہ زہری اور نیشنل پارٹی کی قیادت سے بھی تھوڑا بہت امید رکھتا تھا جبکہ ہم انھیں سرکاری کیمپ کا حصہ سمجھتے تھے اسے بی این پی اور سردار مینگل سے کچھ گلے شکوے تھے جس کا اظہار اس نے محتاط پیرائے میں کیا۔

نواب صاحب سے ملاقات کیااگلے روز ہم واپس کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے وقت نے بہت جلد ہمارے موقف کو درست ثابت کیا اس ملاقات کے محض ایک سال بعد 25 مارچ 2005 کو نواب صاحب نے ایک تاریخی پریس کانفرنس میں پاکستانی پارلیمانی سیاست میں بلوچ قوم دوست قوتوں کی شرکت کو ایک سراب اور وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے اس عمل کو ترک کرنے اور بلوچستان کی آزادی کے ایک نکاتی ایجنڈا پر سنگل بلوچ پارٹی بنانے کی تاریخی تجویز پیش کی اور اس تجویز پر غور و خوض کیلئے بلوچ سیاسی رہنماؤں، سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کو ڈیرہ بگٹی بلایا تو واجہ غلام محمد بی این ایم کا ایک وفد لے کر گیا تھا گوکہ مجوزہ کانفرنس تو منعقد نہیں ہوا مگر واجہ غلام محمد نے اس موقع پر میر براہمدغ بگٹی اور میر بالاچ مری کے ساتھ ملاقات کرکے بلوچستان کی صورتحال اورمستقبل کی لائحہ عمل پر ان سے تبادلہ خیال کیا تھا۔

بی این ایم کا کونسل سیشن اپریل 2004 کے آخری دن شہید نوروز خان اسٹیڈیم کوئٹہ کے نواب محمد اکبر خان بگٹی ہال میں شروع ہوا اور 02 مئی 2004 کو شہید فدا احمد بلوچ کی یوم شہادت کے موقع پر نئی قیادت کی تقریب حلف برداری منعقد ہوا تھا مذکورہ مرکزی کونسل نے پارٹی کی منشور اور حکمت عملی میں واضح بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پارٹی کا نام بھی بلوچستان نیشنل موومنٹ سے بدل کر بلوچ نیشنل موومنٹ رکھا۔ واجہ غلام محمد بی این ایم کے صدر اور راقم سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ بی این ایم کیلئے بلوچ سیاست میں اپنی جگہ بنانا، سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور عوام کی توجہ اور حمایت حاصل کرنا بڑا مشکل تھا ایک طرف بی این ایم کو ریاستی قہر وغضب کا سامنا تھا دوسری طرف نیشنل پارٹی، بی این پی اور جے ڈبلیو پی کی موجودگی میں بی این ایم کو اپنا آپ ان سے مختلف باور کرانا مشکل بن رہا تھا کیونکہ این پی اور بی این پی بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے ساحل اور وسائل کی دفاع،مبہم اصطلاحات کے استعمال و نعرہ بازی اور لفاظی کے ذریعے سیاسی فضاء میں ابہام کی گرد پھیلائے ہوئے تھے تیسری جانب نواب اکبر خان بگٹی کی جے ڈبلیو پی فکری و سیاسی قربت کے باوجود بی این ایم کے ساتھ اتحاد بنانے کے بجائے چار جماعتی بلوچ اتحاد کے پلیٹ فارم سے این پی اور بی این پی کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھاہوا تھاجوکہ بلوچ تحریک آزادی سے منحرف ان جماعتوں کیلئے تقویت کا باعث بن رہا تھا اس گھمبیر سیاسی صورتحال کے علاوہ ایک طرف بزرگ بلوچ رہنما سردار عطاء اللّہ خان مینگل کھل کر واجہ غلام محمد بلوچ کی مخالفت اور کردارکشی کرکے ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہا تھا تو دوسری جانب معروف بزرگ بلوچ دانشور اور قلمکار میر صورت خان مری بھی واجہ غلام محمد کی مخالفت اور ان پر طنز و طعنوں کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہاتھا مگر غلام محمد بھی ہار ماننے والے نہیں تھے وہ مشکل و ناموافق صورتحال کا مقابلہ کرنے کا ہْنر اچھی طرھ جانتا تھا۔

واجہ غلام محمد بڑا باصلاحیت، دور اندیش،مدبر اورمتحرک رہنما تھا وہ ایک سحر انگیز مقرر، کمال کے عوامی موبلائزر، قلمکار، شاعر اور دانشور تھا وہ اپنے تمام صلاحیتوں کو بلوچ قومی آزادی کیلئے بروئے کار لانے میں لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے ریاست پاکستان ان سے کافی ناراض اورپریشان تھا اور کسی بھی طرح سے اسے خاموش کرانا چاہتا تھااسلئے شروع شروع میں ریاست نے اس کے خلاف بم دھماکوں، غداری اور دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات درج کرکے اسے مقدمات میں الجھانا اور ڈرانا چاہامگر غلام محمد بلوچ نہ تو ڈرے اور نہ جْھکے بلکہ وہ بلوچ آزادی پسند قوتوں کو ایک مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے عظیم مِشن میں جْٹے رہے بلوچ نیشنل فرنٹ اس کی انہی بے لوث و انتھک
کوششوں کا ثمر تھااس نے قومی آزادی کی عظیم قومی مقصد کے آگے کسی زاتی غرض، تنظیمی تنگ نظری اور انا پرستی کو آڑے آنے نہیں دیا۔

جب "لشکرِ بلوچستان” لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے سردار اختر مینگل کو ریاست نے گرفتار کیا تو غلام محمد نے اپنے خلاف ان کی تمام تر الزام بازی و بہتان تراشی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سردار صاحب کی گرفتاری کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ اسی سلسلے میں ایک احتجاجی ریلی کی تیاری کے موقع پر سندھ رینجرز اور خفیہ اداروں نے اسے 03 دسمبر 2006 کو کراچی سے اغوا کرکے تقریباً نو مہینے تک پاکستانی فوج کے خفیہ ازیت گاہوں میں لاپتہ رکھا اس جبری گمشدگی کے دوران اسے شدید قسم کی جسمانی اور ذہنی ازیتیں دی گئیں تھیں مگر خفیہ ازیت گاہوں سے اپنی رہائی کے بعد نہ تو وہ ذہنی طور پر ٹوٹ کر بکھر گئے اور نہ ڈر کر خاموش بیٹھ گئے اس کے برعکس وہ نئی جوش و خروش اور فکری توانائی کے ساتھ سیاسی میدان میں سرگرم و متحرک ہوگئے۔ واجہ غلام محمد بلوچ کو صرف بد ترین ریاستی جبر و ہتھکنڈوں اور سیاسی مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت اور کردار کشی کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ طویل جبری گمشدگی سے رہائی پانے کے بعد اسے بی این ایم کے اندر بعض عناصر کی جانب سے پاؤں کھینچے جانے کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا پیر کھینچنے والے ان عناصر کا سرغنہ بظاہر بی ایس او متحدہ کے سابق چیئرمین امداد بلوچ تھا پاکستانی خفیہ اداروں کی ازیت گاہوں میں چار مہینے گمشدگی سے رہائی پانے کے بعد امداد بلوچ کچھ سہما ہوااور جدوجہد سے گریزاں تھا وہ قومی آزادی کی پْرخار جدوجہد سے الگ ہوکر خاموش بیٹھنا چاہتا تھا جس طرح وہ اب خاموش بیٹھا ہے مگر جدوجہد سے الگ ہونے کیلئے اسے کوئی بہانہ، کوئی عذر لنگ چاہیئے تھا آخر وہ ہے تو ایک بلوچ اسلئے بغیر کسی عذر کے یوں خاموش اور جہدِ آجوئی سے الگ ہونا اس کے لئے ” میار ” تھا پس اس نے واجہ غلام محمد کے پیر کھینچ کر وہ بہانہ تراشنا شروع کیا جسے بنیاد بناکر وہ جدوجہد آزادی سے کنارہ کش ہونا چاہتا تھا امداد بلوچ نے پہلے بی این ایم سے باہر رہ کر غلام محمد کی مخالفت شروع کی پھر 2008 میں بی این ایم کی مرکزی کونسل کے اجلاس سے کچھ عرصہ قبل بی این ایم میں شامل ہوگیااور کونسل کے اجلاس میں واجہ غلام محمد کے خلاف دھڑہ بندی کی۔ وہ کئی مخلص کارکنوں کو ورغلانے کے ساتھ ساتھ شہید ڈاکٹر منان جیسے مخلص اور دیرینہ دوست کو واجہ غلام محمد کے مدمقابل کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگیاتھا حتیٰ کہ چیئرمین خلیل بلوچ نے بھی کْھل کر واجہ غلام محمد کا ساتھ دینے سے گریز کیا تھا واجہ غلام محمد اپنے سیاسی تجربہ، تدبر،دور اندیشی اور مخلص ساتھیوں کے تعاون سے پارٹی کے اندر اس مصنوعی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

کونسل سیشن کے کچھ عرصہ بعد جب ڈاکٹر منان صاحب سے ملاقات ہوئی تو راقم نے اس سے کہا کہ بی این ایم کو دونوں، واجہ غلام محمد اور آپ، کی ضرورت ہے آپ نے غلام محمد کے مقابل الیکشن لڑ کر اچھا نہیں کیا آپ کو اس وقت بی این ایم کی پالیسی ساز ادارہ کا ممبر ہوناچاہیئے تھا مگر اس غلطی کے باعث آج ادارہ سے باہر ہو۔ ڈاکٹر منان صاحب نے راقم کی رائے سے اتفاق کا اظہار کیا۔ یہی ہے بڑے انسانوں کی ایک نمایاں خصوصیت جو اپنے غلطی کو درست ثابت کرنے کی بیجا کوشش کرنے کے بجائے غلطی کو غلطی مان کر اپنی اصلاح کرتے ہیں ان میں بیجا ضد، کینہ پروری اور جھوٹی اناپرستی کا مادہ نہیں ہوتا۔

امداد کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر خضدار سے ایک مخلص پارٹی کارکن غلام اللّہ نے اخبارات میں ایک کالم لکھاتھا جس کی پاداش میں مرکزی کمیٹی نے اس کی رکنیت ختم کی تھی واجہ کی شہادت سے کچھ عرصہ قبل جب راقم کی ملاقات واجہ غلام محمد سے ہوئی تو راقم نے ان سے غلام
اللّہ کی رکنیت بحال کرنے کی درخواست کی جس پر واجہ نے مرکزی کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں غلام اللّہ کی پارٹی رکنیت بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ یہی ان کا بڑا پن تھا کہ وہ اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی ساتھی کارکن کے خلاف اپنے دل میں کینہ و بغض پال نہیں رہا تھااسی دور اندیشی اور بردباری کے ذریعے غلام محمد پارٹی کے صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوااور ڈاکٹر امداد پارٹی سے کوئی دھڑا نکالنے میں ناکامی کے بعد خود اکیلے بی این ایم سے نکل گیا تھا واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد بی این ایم کے اندر محدود پیمانے پر جو دھڑہ بندی ہوئی اس کی ایک سبب 2008 کے کونسل سیشن میں واجہ غلام محمد بلوچ کے خلاف پیدا کردہ صورتحال کے اثرات تھے۔

مرکزی کونسل کی اجلاس کے بعد واجہ غلام محمد نئے جوش و جذبہ اور فکری توانائی کے ساتھ سیاسی میدان میں متحرک ہوگیا تھا اس نے کوئٹہ سے اغوا ہونے والے یو این ایچ سی آر کے نمائندہ جان سلوکی کے رہائی کی کوششوں میں نہ صرف ایک فعال کردار ادا کیا بلکہ اس مسئلہ پر متوجہ عالمی اور علاقائی میڈیا سے روابط کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ اور ریاستی دہشتگردی سے بڑے مدلل انداز میں آگاہ کرتا رہا اور بلوچ قومی آزادی کے موقف کو بھی بڑے موثر طریقے سے میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کرتا رہا۔

بلوچ قومی تحریک آزادی کے جمہوری محاذ پر واجہ غلام محمد کے فعال اور موثر کردار سے حواس باختہ ہوکر ریاست پاکستان نے بد ترین ریاستی دہشتگردی کے ذریعے واجہ غلام محمد کو راستے سے ہٹانے کا قدم اٹھا لیا۔ 03 اپریل 2009 کو واجہ غلام محمد اپنے رفقاء بی این ایم کے سابق نائب صدر و مرکزی کمیٹی کے رکن لالہ منیر بلوچ، بی آر پی کے مرکزی رہنما واجہ شیر محمد بلوچ کے ہمراہ تربت کے ایک عدالت میں پیشی کے بعد اپنے وکیل اور معروف بلوچ راج دوست سیاسی رہنما واجہ کچکول علی ایڈووکیٹ کے چیمبر میں اپنے خلاف مقدمہ سے متعلق امور پر معلومات کے لئے بیٹھے تھے کہ اسی دوران پاکستانی پیرا ملٹری فورس ایف سی کے اہلکار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں نے دن دھاڑے انھیں واجہ کچکول علی ایڈووکیٹ کے چیمبر سے زبردستی اٹھا کر اپنے سرکاری گاڑیوں میں لے گئے گرفتاری کے بعد انھیں لاپتہ رکھا گیا اور گرفتاری کے چھٹے دن 09 اپریل 2009 کو تربت کے نزدیک مْرغاپ کے علاقہ سے تینوں رہنماؤں کی لاشیں ملیں۔ تینوں کی لاشیں بد ترین تشدد کے باعث بری طرح مسخ تھیں۔

یو این ایچ سی آر کے ہائی کمشنر نے 14 اپریل 2009 کو اپنے ایک بیان میں جان سلوکی کے رہائی کی کوششوں میں شہید غلام محمد کے قابل تحسین کردار کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان سے ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ 17 اپریل 2009 کواقوام متحدہ کے ادارہ یو این ایچ سی آر کے ترجمان نے ایک مرتبہ پھر جان سلوکی کے رہائی میں واجہ غلام محمد سمیت بلوچ عوام اور قیادت کی بھرپور تعاون کا اعتراف کرتے ہوئے شہید غلام محمد، شیر محمد اور لالہ منیر احمد کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔ اسی طرح امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی جان سلوکی کے رہائی میں شہید واجہ غلام محمد کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے ان کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے اعلیٰ سطح پر واجہ غلام محمد بلوچ کی سفاکانہ قتل کا نوٹس لیاجانا در اصل واجہ کی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں،فعال کردار اور کامیاب سفارتکاری کا ثبوت ہے۔

گوکہ بلوچ مائیں بانجھ نہیں ہیں غلام محمد بلوچ کے ہزاروں فکری ساتھی اور پیروکار آج بھی بلوچ قومی آزادی کیلئے مصروف جدوجہد ہیں اور دہشتگرد ریاستِ پاکستان،اس کے کھٹ پتلی سویلین اور درندہ صفت عسکری اداروں کو لوہے کے چنے چبوا رہے ہیں مگر واجہ غلام محمد بلوچ کی کمی آج بھی بْری طرح محسوس ہورہی ہے


مورخہ 03 اپریل 2020

مضمون نگار سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس

@RahimBalochh

ہینڈل پر وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کا اظہا کرتے رہتے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment