اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے پیر کے روز شمالی صوبے سرپول کیشورش زدہ ضلع بلخاب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات کو تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ اسلام پسند گروپ ان خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرائیں۔
یہ الزمات بلخاب میں مہدی مجاہد اور ان کے جنگجوؤں کے خلاف طالبان کے فوجی آپریشن کے بعد سامنے آئے ہیں۔
مہدی مجاہد پہلے طالبان کے وفادار تھے لیکن پھر وہ ان سے باغی ہو گئے تھے۔
مہدی مجاہد، افغانستان کے اقلیتی نسلی شیعہ ہزارہ کمیونیٹی کے با اثر رکن ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک وہ طالبان کے بامیان صوبے میں انٹیلی جنس سربراہ رہے ہیں۔ انہیں غیر واضح وجوہات پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جس کے بعد وہ سنی اسلام پسند حکمرانوں سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
افغاستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی رپوژتار رچرڈ بینٹ نے ان رپوٹوں کو تشویشناک قرار دیا ہے جن میں ماورائے عدالت قتل، عام شہریوں کو غائب کرنا، املاک کی تباہی اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بلخاب میں پھانسیوں اور عام شہریوں کو نقصان پہنچائے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
طالبان نے ان رپورٹوں کو پروپیگنڈہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
طالبان کے سب سے بڑے عہدیدارنے پیر کے روز ایک ٹویٹ میں کہا کہ بلخاب میں صورتحال معمول پر واپس آ گئی ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی ظلم زیادتی نہیں کی جا رہی اور نہ کسی کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لوگ ایک پرامن اور محفوظ ماحول میں رہ رہے ہیں۔ شہریوں کے ساتھ بدسلوکی کا پروپیگنڈہ درست نہیں ہے۔
طالبان کے عہدیداروں نے بھی کہا ہے کہ انہوں نے متعدد وفود کو بلخاب بھجوایا ہے کہ مہدی مجاہد کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکیں لیکن ناکامی کی صورت میں گزشتہ ہفتے ان کی فورسز کے خلاف کاروائی کا حکم دیا تھا۔