ایمانویل میکخواں اپنی حریف ماری لاپین کو واضح شکست دے کر مزید پانچ برس کے لیے فرانس کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔
تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس الیکشن میں ان کی مخالف انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے اپنی تاریخ میں اب تک کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
میکخواں نے 58.55 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ لاپین کو 41.45 فیصد ووٹ پڑے، تاہم اکثر تجزیہ نگاروں کی نظر میں یہ فرق ان کی توقع سے زیادہ ہے۔
اعتدال پسند رہنما ایمانویل میکخواں نے فرانس کے مشہور آئیفل ٹاور تلے خاصے پُرجوش حمایتیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب کیونکہ الیکشن ختم ہو چکا ہے اس لیے وہ ’سب کے صدر ہوں گے۔‘
اپنی واضح شکست کے باوجود لا پین کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اُن کا ووٹ شیئر ہی ان کی جیت کی علامت ہے۔ لاپین نے اپنے حمایتیوں کو بتایا کہ اُن کی مقبولیت بلند ترین سطح پر ہے۔
تاہم اس موقع پر ایمانویل میکخواں نے انتہائی اہم بیان دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ آج جن افراد نے مجھے ووٹ دیا، ان میں سے اکثر میرے خیالات سے متفق نہیں تھے، لیکن وہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو بھی اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ میں ان کا شکریہ ادا کروں گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس غصے اور اختلافات کا جواب ڈھونڈنا ہو گا جس کے باعث ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو ووٹ دیا۔ یہ میری بھی ذمہ داری ہو گی، اور ان کی بھی جو میرے ساتھ ہیں۔‘
اس الیکشن کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ سنہ 1969 کے بعد سے سب سے کم یعنی 72 فیصد کے لگ بھگ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لگ بھگ ہر تین میں ایک ووٹر نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا اور اس طرح ووٹ نہ کرنے والے شہریوں کی کل تعداد 30 لاکھ بنتی ہے۔
ایمانویل میکخواں کا دوبارہ اقتدار میں آنا تاریخی اہمیت کا حامل بھی ہے، یہ گذشتہ 20 سالوں میں پہلی مرتبہ ہے کہ فرانس میں کسی صدر کو دوبارہ منتخب کیا گیا ہو۔
یوں تو ایمانویل میکخواں نے بھی اقتدار میں ہوتے ہوئے کئی اسلام مخالف شدت پسند بیانات دیے ہیں، تاہم ان کی حریف لاپین کو اس حوالے سے انتہائی سخت گیر سمجھا جاتا ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما ماری لاپین فرانس کو یورو سے باہر نکالنا چاہتی ہیں اور وہ تارکین وطن اور مسلمانوں کے بارے میں سخت گیر نظریات رکھتی ہیں۔
انھوں نے اپنی پارٹی کو عوام میں زیادہ قابلِ قبول بنانے کے لیے جماعت کے بعض سخت نظریات سے ہٹنے کی کوشش کی ہے۔
اِن کا نعرہ ہے ‘سب سے پہلے فرانس’ جس کے لیے بقول اِن کے وہ فرانس کو اسلامی بنیاد پرستی، عالمگیریت اور یورپی یونین سے نجات دلائیں گی۔
لا پین امیگریشن قوانین میں سختی لانے کی حامی سمجھی جاتی ہیں اور سنہ 2015 کے پیرس حملوں سے کئی برس قبل ہی انھوں نے امیگریشن اور شدت پسند اسلام کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بات کی تھی۔
پیرس حملوں کے فوراً بعد انھوں نے خاصا سخت بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایسے غیرملکیوں کو ہمیں اپنی سرزمین سے نکال دینا چاہیے جو نفرت پھیلاتے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے مسلمانوں کی دہری شہریت کا خاتمہ کر دینا چاہیے جو شدت پسند نظریات رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو عام طور پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔
خیال رہے کے فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے متنازع خاکوں سے متعلق تنازعات وقتاً فوقتاً زور پکڑتے رہے ہیں۔ یہی نہیں فرانس میں مقیم مسلمانوں کو پیرس حملوں کے بعد سے خاص طور پر نفرت انگیز رویے اور جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اسلام میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کو گستاخانہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ فرانس میں ریاستی سیکولرزم اس کے شہریوں کی قومی شناخت کا حصہ ہے اور ریاست آزادی رائے کا تحفظ چاہتی ہیں۔
ایمانویل میکخواں کے دورِ صدارت میں سنہ 2020 میں ہی فرانس میں پیغمبر اسلام کے متنازع خاکوں پر جو واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد فرانس نے مبینہ اسلامی شدت پسندی کے خلاف جو موقف اپنایا اس کی عالمی سطح پر بہت سے لوگوں نے حمایت کی لیکن عالم اسلام میں اکثریت نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔
یاد رہے اکتوبر 2020 میں جب کلاس کے طلبہ کو پیغمبر اسلام کے متنازع خاکے دکھانے والے استاد سیموئل پیٹی کو قتل کر دیا گیا، اس کے بعد ایمانویل میکخواں نے اظہارِ رائے کی آزادی کی بنیاد پیغمبر اسلام کے متنازع خاکوں کی تشہیر کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہب اسلام پوری دنیا میں ’بحران کا مذہب‘ بن گیا ہے۔
صدر میکخواں نے کہا تھا کہ معلم سیمیول پیٹی ’اس لیے قتل کیے گئے کیونکہ اسلام پسند افراد کو ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا ہے’ لیکن فرانس ‘اپنے کارٹون (پیغمبرِ اسلام کے خاکے) نہیں چھوڑے گا۔’
انھوں نے مسلم انتہا پسند تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے سنہ 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔ میکخواں نے ملک کی سیکولر اقدار کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔
پھر نومبر 2020 میں ایمانویل میکخواں نے فرانس کے مسلم رہنماؤں سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ ’جمہوری اقدار‘ کے چارٹر پر رضامندی اختیار کریں جو کہ فرانس میں انتہا پسند اسلام کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔
اسی تناظر میں دیے گئے صدر میکخواں کے بیانات کے بعد بہت سے مسلمان ممالک خاص کر مشرقِ وسطیٰ میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم نے زور پکڑا تھا۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا اب فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور جرائم میں کمی واقع ہو گی، یا یہ سلسلہ پہلے کی طرح تقویت حاصل کرے گا کیونکہ بہرحال انتہائی دائیں بازو کی جماعت اپنی تاریخ میں اب تک کے سب سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔