دوستی آخری دم تک | شہسوار

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

میں سوچتا ہوں جب دوست ہو تو کسی اور چیز کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ اُن لوگوں نے دوستی ایسی نبھائی ہے جس کی مثال کسی اور رشتے میں ملنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوستی سے آگے کسی اور شے کی اہمیت نہیں۔ ویسے تو میں نے کئی لوگوں کواس رشتے کو نبھاتے دیکھا ہے لیکن ان میں سے دو دوستوں کا ذکر کرونگا۔ اُن دونوں کی جتنی تعریف کروں کم ہے جتنے الفاظ استمال کروں کم ہیں۔

میں نے پہلی بار اُن دونو کو اس وقت دیکھا جب میں بازار جارہا تھا تو راستے میں ملاقات ہوئی تو وہ دونو بھی سامان خریدنے کے لیے جارہے تھے تو مجھ سے ہاتھ ملایا توڑی بات ہوئی پھر ہم نے خدا حافظ کیا پھر جب بھی میں کسی جگہ میں ان دونوں کو دیکھتا تو یہ ایک ساتھ دیکھا۔ میں نے ایک بار پوچھا کہ آپ دونوں کزن ہو دونوں نے جواب دیا نہیں ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں ہر کوئی یہی پوچھتا ہے کہ آپ لوگ ایک دوسرے کے کیا لگتے ہو، انہوں ازراہ مذاق کہا کہ کیوں اتنا پوچھتے ہو۔

پھر میں نے کہا ائے روز ایک ساتھ ہو تو اسی لیے ہر کوئی پوچھتا ہے۔ اگرایک ساتھ نہیں دیکھے تو کوئی نہیں پوچھےگا تو ہنس کر بولے آپ لوگ جیلس ہوتے ہو ہم سے میں نے کہا ہاں ہم تو جیلس پکا ہوتے ہیں۔ ہم کسی کے دوست ہوتے ہیں تو ہماری دوستی ایک ہی مہینے میں ختم ہوجاتا ہے۔

مجھے جب سے یاد ہیں آپ لوگ ایک ساتھ ہو ہر وقت آپ لوگوں کی دوستی بھر پور ہے کبھی ختم ہی نہیں ہوتی.
پھر یہی جنگ شروع ہوا پاکستانی فوج کی بربریت لوگوں کو شہید کر کے مسخ شدہ لاشیں اور بلوچستان میں سرمچاروں کے بھی حملے شدت سے جاری تھے یہ 2011 تھا تو فوجی آپریشنز بھی روز جاری تھے گھروں کو نظر آتش کر رہے تھے۔ بلوچستان میں پاکستانی فوج نے ظلم جاری رکھا تھا بے گناہ بلوچوں ظلم کے خلاف بغاوت کررہے تھے۔

تو یہ بھی دونوں دوست سرمچاروں کے ساتھ اس ظلم کے خلاف ہتیار اٹھا کر اپنی زمہ داریاں اچھی طرح سے نبا رہے تھے کئی محازوں پر دشمن کو شکست سے دوچار اور ظالم دشمن کو پسپا کرنے پر مجبور کرتے ہیں،

وہ دونو بہادورں کے نام عاظم عرف چاکر اور ایک کا نام تھا وزیر عرف میرک مجھے بھی بہت پسند تھے کہ یہ بہت ایماندار اور مخلص تھے اپنے آپ سے اور اپنی ذمہ داریوں سے اور اپنی زمین سے تو ایک بار ایک محاز سے واپس آیا تو چاکر دشمن فوج کے ساتھ لڑائی کے دوران زخمی ہوا تھا پھر ڈاکٹر نے علاج کیا میرک بہت پریشان تھا کہ کیوں چاکر زخمی ہوا میں بچ گیا مجھے بھی زخمی ہونا تھا تو میں نے میرک کی حوصلہ افزائی کی کہ شکر ہے کہ چاکر ٹیک ہے ڈاکٹر بھی موجود ہیں انشااللہ جلد ٹیک ہوگا اگر آپ ایسا سوچتے ہو تو چاکر کو زیادہ درد محسوس ہوگا انشااللہ کچھ دنوں میں ٹیک ہوگا پھر آپ لوگ ایک ساتھ محاز پہ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دو گے۔ پھر مجھے کسی سنگت نے فون کیا کہ آپ آجاو کہ کام ہے پھر میں نے میرک کو خدا حافظ کیا تو پھر کچھ عرصے ان دونو سے ملاقات نہیں ہوسکا۔

میں نے وہاں دوستو سے بات کی کہ چاکر زخمی ہوا ہے اسکا علاج ہورہا ہے آپ لوگ اسکا حال پوچھو وہ بہت اچھا دوست ہے پھر ان کا دل خراب ہوگا اور وہ دوست ہونے کے باوجود بہت ہمت والا جوان ہے تو دوستوں نے کہا کہ ٹیک ہے ہم رابطہ کرینگے۔

کچھ دن کے بعد میں نے میرک سے حال کیا کہ اب چاکر کیسا ہے تو میرک نے جواب دیا کہ اب ٹیک ہے۔ دوستوں نے کہا کہ میرک اور چاکر سے حال کرو کہ آپ آجاؤ کچھ دن یہاں ہمارے پاس وہاں حلات بھی ٹھیک نہیں ہیں کچھ دن یہاں آ کے آرام کرو۔ تو میں سنگت کے کہنے پہ نیٹورک پے گیا میرک سے حال احوال کی کہ آپ چاکر کے ساتھ آجاؤ ہمارے پاس میرک نے جواب دیا کہ سنگت سے کہو کہ ہمیں بہت کام ہیں ہم اپنا کام سر انجام دینگے پھر انشااللہ آینگے آپ لوگوں کے پاس پھر خداحافظ ہوا پھر ہماری میرک سے بات نہیں ہوئی۔ یہ2015 تھا حالات ا نتہائی ابتر تھے۔اندازا 3مہینے تک ہم نیٹورک سے باہر ہوئے۔

پھر جب ہم نیٹورک پے آئے تو سب دوستوں سے بات ہوا پھر مجھے یاد آیا کہ میرک کا حال پوچھوں بہت یاد آرہا تھا۔
بہت کوشش کیا لیکن اس سے بات نہیں ہوسکا۔
پھر میں نے شہمیر سے بات کیا کہ آپ لوگوں کے علاقے میں کیا حالات ہیں۔
شہمیر نے جواب دیا کہ بہت فوج کا گشت ہے ہمارے دو دوست شہید ہوئے ہیں۔
تو بہت پریشان ہوا بس اسکے بتانے سے پہلے مجھے میرک اور چاکر کا خیال آیا۔
میں نے پو چھا کون کون ہیں۔
جواب.دیا چاکر اور میرک، اس بات کو سن کر میرے اُوپر اسمان گرگیا۔ مزید پوچھا کہ کیسے شہید ہوئے ہیں یہ۔
جواب، میرک اور چاکر بہت سرگرمی سے اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے کسی مخبر نے ان کا حال فوج تک پہنچھایا جنگ بھی بہت ہوا ہے کئی فوجی بھی اس جنگ میں مارے گئے ہیں لیکن جس جگہ جنگ ہوا ہے وہان ایک گاؤں ہے تو لوگوں کا کہنا ہے کہ چاکر کو گولی لگی ہے پھر میرک جزبہ سے دوشمن کے ساتھ جنگ لڑی ہے اسی وجہ سے میرک شہید ہوا ہے اور جہاں بھی گیا ہے چاکر کو اپنے کندوں پے اٹھایا۔ اس ڈوران ایک فوج کی دستے کو پسپا کیا ہے پھر دوسرا دستہ آ گیا کمک کے لئے۔

مجھے اُس دن سے حوصلہ آیا کہ ایسے بھی با ہمت مجاہد ہیں ہماری جنگ میں۔ دُشمن کو شکست ہوگا جب تک ہمارے پاس میرک اور چاکر جیسے سرمچاروں کا جذبہ اور ہمت موجود ہے۔

Share This Article
Leave a Comment