سوئیس سیکرٹس میں دنیا کی کئی اہم شخصیات کے منی لانڈرنگ اور کرپشن میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
ان خفیہ دستاویزات میں پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں ملکی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کا نام بھی شامل ہے۔
‘پاناما پیپرز‘ کی طرز پر ‘سوئیس سیکرٹس‘ میں دنیا بھر سے کئی نامور سیاست دانوں اور اہم شخصیات کے منی لانڈرنگ اور کرپشن میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ سابق پاکستانی آمر، جنرل ضیا الحق کے دور میں ملکی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ اور ضیا الحق کے قریبی ساتھی جنرل اختر عبدالرحمان خان کا نام بھی سامنے آیا ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے افغان جنگ کے دوران امریکا اور دیگر ممالک سے کئی ملین ڈالر وصول کر کے یہ رقوم افغانستان میں ‘مجاہدین‘ تک پہنچائیں۔
ایک شخص نے جس کی شناخت فی الحال مخفی رکھی گئی ہے، جرمن اخبار ‘زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ کو ہزارہا متنازعہ اکاؤنٹس کے بارے میں اطلاع دی۔ اس جرمن اخبار نے یہ معلومات ‘آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ (OCCRP) سمیت چھیالیس اداروں تک پہنچائیں، جن میں امریکی اخبار ‘نیو یارک ٹائمز‘، برطانوی ‘گارڈین‘ اور فرانس کے ‘لموند‘ جیسے بڑے صحافتی ادارے بھی شامل ہیں۔ یہ ڈیٹا سوئٹزرلینڈ کے دوسرے سب سے بڑے بینک ‘کریڈٹ سوئیس‘ کے بارے میں ہے۔ الزام لگایا گیا ہے کہ بینک کے صارفین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے افراد اور ایسی کاروباری شخصیات بھی شامل تھیں، جن پر پابندیاں عائد تھی۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سن 1940 سے لے کر سن 2010 تک اٹھارہ ہزار اکاؤنٹس میں مجموعی طور پر ایک بلین ڈالر سے زائد رقوم جمع تھی۔
‘کریڈٹ سوئیس‘ نامی بینک نے بیس فروری کی رات جاری کردہ اپنے ایک بیان میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ بینک کے مطابق ‘سوئیس سیکرٹس‘ میں بیان کردہ 90 فیصد اکاؤنٹ اب بند ہو چکے ہیں۔ بینک کی انتظامیہ نے اپنے کاروباری فیصلوں میں غیر قانونی یا ناجائز اقدامات کے الزام کو بھی رد کیا اور اپنے دفاع میں کہا کہ ان خفیہ دستاویزات میں بیان کی گئی زیادہ تر معلومات یا تو مکمل نہیں، یا درست نہیں یا پھر انہیں خاص طور پر اس طرح نامکمل رکھا گیا ہے کہ یوں اس بینک کے ساکھ پر منفی اثر پڑے۔
‘نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق سن 1985 میں جنرل اختر کے تین بیٹوں کے نام پر ایک اکاؤنٹ کھولا گیا۔ گو کہ ان پر کبھی رقوم کی ہیرا پھیری کا الزام نہیں لگا مگر چند برس بعد مذکورہ اکاؤنٹ میں 3.7 ملین ڈالر جمع ہو چکے تھے۔
‘آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ (OCCRP) کی رپورٹ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ لکھا گیا ہے کہ افغانستان میں روسی افواج کے خلاف لڑنے کے لیے سعودی اور امریکی فنڈنگ امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (CIA) کے سوئس اکاؤنٹ میں جمع کرائی جاتی تھی۔ یہ رقوم بعد ازاں پاکستانی آئی ایس آئی تک پہنچتی تھیں، جس کے سربراہ اس وقت جنرل اختر عبدالرحمان خان تھے۔
رپورٹ کے مطابق ‘کریڈٹ سوئیس‘ میں جنرل اختر کے اہل خانہ کا ایک اکاؤنٹ، جو ان کے تینوں بیٹوں کے نام پر تھا، یکم جولائی سن 1985 کو کھولا گیا۔ اسی برس امریکی صدر رونلڈ ریگن نے افغان مجاہدین کے لیے دی جانے والی فنڈنگ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ سن 2003 تک اس اکاؤنٹ میں پانچ ملین سوئس فرانک یا 3.7 ملین ڈالر جمع ہو چکے تھے۔ ایک اور اکاؤنٹ جنرل اختر کے نام پر سن 1986 میں کھولا گیا اور اس میں نومبر سن 2010 تک 9.2 ملین ڈالر جمع ہو چکے تھے۔
پاکستانی روزنامہ ‘ڈان‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنرل اختر کے ایک بیٹے نے ان الزامات کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ رپورٹ میں درج معلومات درست نہیں۔
‘سوئیس سیکرٹس‘ میں دنیا کی کئی نامور شخصیات کے نام شامل ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ انکشافات عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ پاکستان میں بھی اس پر وسیع تر سیاسی رد عمل دیکھنے میں آ سکتا ہے۔