ذی استعداد ہستیاں اپنی صلاحیتیوں کے بل بوتے پہ حال میں ہمنواﺅں کے لیے سامانِ عشق فراہم کرتے ہیں تو مستقبل کے لیے عشق میں مزید تشنگی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ ان کا کردار اور عمل تفکر سے لیس ہوتا ہے ان میں کبھی تساہل کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی ۔ ایسے کردار دراصل خود میں تحریک ہوتے ہیں اور جو ان سے فیض حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہی تحریک کی تکمیل کی وجہ بنتے ہیں۔نمود سے مبرا اور تفاخر سے پاک ایسی ہستیاں تعبیر کو عمل سے طلوع کرنے پہ نہ صرف یقین رکھتے ہیں ، تعجیل کے برخلاف انتہائی سوچ و بچار کے بعد عملی کام کو انجام تک لے جانے والی یہ ہستیاں سماج میں حرارت پیدا کرنے کی وجہ بھی بنتے ہیں جن کی وجہ سے کاررواں منزل مقصود پہ پہنچنے سے قبل دم سادھ نہیں لیتی۔ کالی گھٹاﺅں کے خاتمے کے سفر میں میں نے بھی ایک ایسا ہی شخص دیکھا۔
کمال شخص تھا، پاﺅں سے معذور ہونے کے باوجود میلوں پیدل سفر کرنے کے بعد بھی نہ تکاوٹ کے آثار، پُرتکالیف زندگی میں نہ کبھی اسے مغموم چہرہ بنائے دیکھا، نہ غموں سے نڈھال، نہ حالتِ جلال میں۔۔۔ دیکھا تو فقط روح تشنہ دیکھا۔ ۔۔وہ تشنہ رہتا تھا ، تحریک کو تکمیل تک لے جانے کے لیے ، سماج میں آزادی کی راہ ہموار کرنے کے عمل کا وہ تشنہ تھا، وہ آئے روز اگرچہ سکھاتا تھا پر سیکھنے کا فلسفہ اس کے عمل سے ظاہر ہوتاتھا، وہ تشنہ تھا اور اس کی تشنگی کا سامان تحریک کی تکمیل سے وابستہ تھا۔ اسی لیے وہ سکھاتا تھا کہ” پڑھنا چاہیے“ کیوں کہ کتاب سے بڑھ کر کوئی ایسا رہنما نہیں جوتحریک کی باریک کا مشاہدہ کرنے میں معاون ثابت ہو، کوئی کتاب کا نعم البدل ہوہی نہیں سکتا ، یہ کتابیں ہی تو ہیں جنہیں پڑھ کر ہم منزل کا تعین کرتے ہیں، کتابیں ہی تو ہیں جو منزل پہ پہنچنے کے لیے زادِ راہ مہیا کرتی ہیں جس سے جسم کی حرارت سدابرقرار رہتی ہے، وہ کہتا تھا کہ کتابوں کی اہمیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہر انسانی انقلاب و تبدیلی سے قبل یہ صحیفے بن کے نازل ہوئے، تاکہ اصول زندگی طے کیے جائیں۔
وہ سکھاتا تھا کہ سماج جس کے ہم باسی ہیں اسے باریک بینی سے پرکھنا چاہیے، سماج کے پرکھنے سے ہی ہم سماج کو مقصد کا گرویدہ بناسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر ہم سماج کا مطالعہ کیے بغیر سماج سے جوڑنے کی کوشش کریں گے تو سماجی علوم پہ دسترس نہ ہونے کی وجہ سے ایسی غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں جو مقصد کا جنازہ نکالنے کے اسباب مہیا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کا ایک ایسا رکن جو اپنی زندگی کسی اجتماعی مقصد کے لیے وقف کرتا ہے اس کے لیے علم کی ”الف، ب“ سماج ہے۔ الف، ب کو ترک کیے بنا آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو حصول ممکن نہیں۔
اپنے سماج کو پرکھنے کے لیے جو پہلی شرط ہے ، وہ ہے” تاریخ کا مطالعہ“ جب ہم باریک بینی سے اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں سماج کو جانچنے کے عمل کے دوران مشکلا ت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ، ورنا تو سطحی پڑھاکوﺅں کا انبار ہم معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جن کے علم سے استفادہ تو دور کی بات بلکہ انتشار زیادہ جنم لیتے ہیں۔ لہذا ایسے کارکنان جنہوں نے اپنی زندگی مقصدِ عظیم کے نام کیے ہوں ان کے لیے تاریخ کا علم ایسا ہے جیسے : کسی ذی روح کے لیے ”ہوا“۔ لہذا اگر ہم اس کی اہمیت کو مدِ نظر رکھیں گے تو تحریک کو آکسیجن ملتی رہے گی جس سے اسے جانب منزل رواں ہونے میں کسی دقت کا سامنانہیں کرنا پڑے گا۔
وہ سکھاتا تھا کہ جس عمل سے وابستہ ہو اس کے بارے میں جانکاری حاصل کرو، نہیں تو بکھر جاﺅگے جس کے اثرات نہ صرف بکھرنے والے شخص پہ پڑیں گے بلکہ ممکنہ طور پر یہ اثرات کسی اجتماع کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔علمِ سیاسیات اور اس کے وہ تمام ابواب جو تحریک کی ضروریات ہیں یعنی انقلابی سیاست، آزادی کی سیاست اور اس کے تمام لوازامات اور وقت و حالات اور سماج کو مدِ نظر رکھ کر ان میں تبدیلیوں کا علم ، نہ صرف علم بلکہ اس علم کو عملی جامہ پہنانا یعنی پڑھو! پڑھانے کی نیت سے، اس سے جمود کی گھٹائیں کبھی تمہیں مقید نہیں کرسکتے۔ وہ سکھاتا تھا کہ علم کو عمل تک لے جانے کی جدوجہد کرو جو تحقیق سے ممکن ہے جس سے تخلیق کی راہ ہموار ہوتی ہے ، جوروشنیوں کے لیے نت نئی راہیں کھولتی ہیں ، یہی جدت ہے جس کے ہم متمنی ہیں، جو تقدیر بناتی ہے، جو عرش پہ جانے کا سامان مہیا کرتی ہے، پھر تمکنت انجام کو پہنچتا ہے اور راہ عاجزی ہموار ہوتی ہے جو اجتماع کو یکمشت کرنے کی آہنی کڑی بناتا ہے جس کے ٹوٹنے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ مقصد کے سفر میں یہی آہنی کڑی دیگر چھوٹی چھوٹی کڑیوں کو خود میں مدغم کرتی ہے اور یوں ریس سے مجمع بننے کا عمل انجام کو پہنچتا ہے ۔۔۔پھر طلوع ِ نوید۔۔۔جس میں نابیناﺅں کو بھی بینائی ملتی ہے ، جس میں بہروں کو بھی سماعت ملتی ہے، جس میں معذور بھی خودکو ہرکولیس کی شبیہ میں دیکھتے ہیں ۔یہی حرارت دراصل کسی اجتماع کو ہزاروں ورشوں تک زندہ رکھتی ہے ۔
وہ شخص اسی نظریے کا پیامبر تھا اور شاید ہی کوئی ایسا ڈگر ہوجہاں انہوں اس نے اس پیغام کو نہ پہنچایا ہو ، وہ چاہے بلوچ وطن کے شہروں کی رونکیں ہوں یا دشت و بیابان۔
وہ شخص جو خود میں تحریک تھا، جس طرح سماج کی بنیاد پانی پہ قائم کی جاتی ہے جس سے بنجر پن کو زرخیزی میں تبدیل کیا جاتا ہے اسی طرح تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اجتماع کو علوم سے مستفید کیا جائے اور علوم کو عمل کا پابند ۔ وہ شخص کچھ ایسا ہی تھا، جسے علم سے مسلح اور علم کو عمل کا پابند کرتے دیکھا۔ ۔۔ڈاکٹر منان ۔۔۔ ڈاکٹر منان کچھ ایسا ہی تھا۔جنہیں ہمہ وقت متحرک دیکھا۔ ہاں شاید اس سے بڑھ کر کہ وہ پانی بھی تھا جو ہم جیسے بنجرجسموں کو زرخیزی کی جانب لے جانے کا سامان لیے مارا مارا پھرتا تھا ۔۔۔ وہ خود میں زرخیز زمین بھی تھا اسی لیے تو اس کے ہر عمل میں سبزہ زار نظر آتا تھا۔
کمال ہی تو تھا وہ شخص جس نے نہ صرف مقصد کے لوازمات پہ مکمل عبور حاصل کیا بلکہ عملی مظاہرے میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھا۔ جب گاڑی الٹ گئی اور لوگوں کا مجمع لگا کہ رہنما کو سنبھالنا ہے ۔۔۔ عقل اس وقت دھنگ رہ گئی جب وہ سرکاری ملازمت پہ ہوتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ میری فکر میں مت کرو میں تو یہ کہنے آیا ہوں کہ قابض نے پھر سے ایوانوں میں جانے والوں کی منڈی لگائی ہے لیکن تم مت لوگ خود کو انمول ثابت کرنا کہ وہاں بکنے والے نہ صرف ایک ذات بلکہ اجتماع کا سودا کرتے ہیں۔ بس میں یہی چاہتا ہوں کہ اس کھیل ِ استحصال میں شامل مت ہونانہیں تو اس کے اثرات سے آنے والی نسلوں کی حرارت جاتی رہے گی اور اگر یوں ہوا تو سفید لہو کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہوں گے۔
بلوچ سماج میں سیاسی منظر کشی کی بنیاد عبدالعزیز کرد نے رکھی ، اس کے بعد نامی گرامی شخصیات اس منظر نامے کا حصہ بنیں۔ حالیہ دور میں فدا احمد اور غلام محمد بلوچ جمہوری اور ادارتی طرزِ سیاست میں دو بڑی ہستیاں مانی جاتی ہیں اگر شہید ڈاکٹر منان بلوچ کے کردار کا باریک بینی سے مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے تو یقیناً یہ نتیجہ اخذ کرنے میں قباحت نہیں ہوگی کہ بلوچ سیاست میں ڈاکٹر منان جان کا قد بھی اتنا ہی بلند ہے جتنا کہ اس کے پیش رو ﺅں شہید فدا احمد اور شہید غلام محمد بلوچ کا۔اگر چہ انہوں نے سیاسی عمل کی بنیادیں رکھی لیکن ان بنیادوں کو سیسہ فراہم کرنے میں ڈاکٹر منان بلوچ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ 2008ءکے کونسل سیشن میں شہید غلام محمد بلوچ کے مقابلے میں پیچھے رہا پر ایک کارکن کی حیثیت سے رہنما کا کردار ادا کرتا رہا ۔ وہ رہنما تھا ،حقیقی رہنما ۔ کہتے ہیں کہ ” اچھے انسان جلد رخصت ہوجاتے ہیں“ اور ڈاکٹر منان بھی مختصر عمر پاکر ہمیں الوداع کہہ گیا لیکن جو متاع انہوں نے چھوڑی ہے انہی میں کامیابی کا راز پنہاں ہے۔۔۔۔
عجیب مست و ملنگ تھا یہ پیش رو: محور قوم و وطن، اسی دائرے میں اس یقین کے ساتھ شب و روز گردشاں رہتا کہ روشنیاں پھر سے لوٹ آئیں گی، لہولہاں وطن میں ہریالی ہوگی، مغموم چہرے مسکان میں بدلینگے، تب افتادگانِ خاک دمالِ قلندری میں مگن ہونگے، تب ان کے چہروں پہ بولان کے مناظر ہونگے، تب دشتِ بے دولت کی طرح تڑپتے دلوں میں چھناکا سنائی دے گا۔۔۔منان ہاں منان البتہ ضروری نہیں کہ خاک سے بنا یہ منان زندہ رہے ۔
لیکن منان زندہ رہے گا کیوں کہ ایسی ہستیاں امرت کا جام نوش کرتے ہیں اسی لیے تو وہ سدا حیات پاتے ہیں۔منان آج بھی زندہ ہے ، منان سدا زندہ رہے گا، منان تو تحریک کو تکمیل کی جانب لے جانے کا نام ہے اسے موت کہاں۔
***