جمہوریت کے چیلنجز کے مقابلے کیلئے ‘چیمپئینز’ کی ضرورت ہے،جو بائیڈن

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمہوریت پر ہونے والی عالمی کانفرنس کی میزبانی کے دوران جمہوریت کے لیے امریکہ کے اندرونی چیلنجز کو تسلیم کیا ہے۔ ورچوئل انداز میں ہونے والی اس کانفرنس میں عالمی رہنماؤں، سول سوسائٹی، اور نجی شعبے کو ایک جگہ پر جمع کیا گیا تاکہ ‘جمہوریت کے احیا اور جمہوری ملکوں کو درپیش سب سے بڑے خطرات کے مقابلے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل’ ترتیب دیا جائے۔

صدر جوبائیڈن نے دو روزہ جمہوریت کانفرنس کے آغاز پر اپنے خطاب میں کہا کہ جمہوریت، عالمی انسانی حقوق اوردنیا بھر میں درپیش مسلسل اور تشویش ناک چیلنجز کے مقابلے کے لیے ‘چیمپئینز’ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”میں یہ کانفرنس اس لیے منعقد کرنا چاہتا تھا کیوں کہ یہاں امریکہ میں ہم جانتے ہیں، جیسے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری جمہوریت کی تجدید اور اپنے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ایک مسلسل جدوجہد ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا اور پریشان کن چیلنج یہ ہے کہ دنیا بھر میں عوام کا جمہوری حکومتوں پر عدم اطمینان بڑھ رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومتیں ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ سال 224 ملین ڈالر کی رقم کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، تاکہ شفاف گورننس بشمول ذرائع ابلاغ کی آزادی، بین الاقوامی کرپشن کے خاتمے، جمہوری اصلاحات کی حمایت اور جمہوریت کو آگے بڑھانے والی ٹیکنالوجی پر خرچ کر سکیں۔

صدر بائیڈن جمعرات کو امریکہ کی سربراہی میں جمہوریت پر ہونے والے دو روزہ ورچوئل اجلاس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں 100 سے زائد ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

صدر بائیڈن نے اس موقع پر کہا کہ یہ اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں جمہوریت اور آفاقی انسانی حقوق کو چیلنج درپیش ہیں۔

صدر نے باور کرایا کہ ایک طرف عام لوگوں کا جمہوری حکومتوں سے اعتماد اٹھ رہا ہے جب کہ دوسری طرف دنیا بھر میں ’اشرافیہ‘ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو بڑھاوا دینے کے دباؤ بڑھا رہی ہے اور وہ جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ جابرانہ پالیسیاں اور اقدامات ہی آج کے مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ہیں۔ بقول ان کے، ”یہ لوگ سیاسی اور سماجی تقسیم پیدا کر رہے ہیں ”۔

تاہم، صدر نے کہا کہ ان کے نزدیک ‘عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے’، جمہوریت کا یہی نعرہ اپنے اندر مسائل کے خلاف بہترین مزاحمت رکھتا ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ جمہوریت کی تجدید نو اور جمہوری اداروں کا مضبوط بنایا جانا ایک مستقل کوشش کا متقاضی ہے۔ امریکہ میں بھی جمہوریت، ان کے بقول، ”ایک جاری جد و جہد ہے، تاکہ اپنے اعلیٰ ترین تصورات کے مطابق رہا جا سکے اور ہمارے اندر موجود تقسیم کو کم کیا جا سکے”۔

صدر نے کہا کہ امریکہ کے پاس ’اعلان آزادی‘ جیسی دستاویزات موجود ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ہم ملک بنانے والے آبا و اجداد کے تصورات کو ذہن نشین کر سکتے ہیں۔ ہم اس سچ کو تسلیم کرتے ہیں کہ مرد و خواتین کو برابر حیثیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ زندگی، آزادی اور خوشی کی تلاش سب کا برابر کا حق ہے۔

صدر بائیڈن نے کہا جمہوریت کسی حادثے سے پیدا نہیں ہوتی، ہمیں ہر نسل کے لیے اس کی تجدید کرنا پڑتی ہے اور اس وقت یہ بہت ضروری اور اہم کام ہے۔

امریکہ کے صدر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں شریک رہنماؤں کے نزدیک بھی ضروری نہیں کہ جمہوریت کی تعریف ایک ہی ہو۔ بقول ان کے، ”ہم سب کا ہر چیز پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہم مل کر جو فیصلے کرتے ہیں، وہ مستقبل کی ہماری مشترکہ نسلوں کے لیے اہم ہوتے ہیں ”۔

انہوں نے کہا کہ وہ اقدار جو ہمیں متحد رکھتی ہیں، ان کے لیے ہمیں کھڑا ہونا ہو گا۔ ”ہمیں انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھڑا ہونا ہو گا۔ تقریر کی آزادی، جلسے جلوسوں کی آزادی، آزاد میڈیا، مذہبی آزادی اور ہر فرد کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہو گا۔“

اس موقع پر صدر بائیڈن نے امریکی امداد کے پروگرام ‘یو ایس ایڈ’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم صحافیوں کے لیے نیا ’ڈیفیمیشن ڈیفینس فنڈ‘ قائم کر رہے ہیں، تاکہ تحقیقاتی صحافیوں کو ایسے قانونی مقدموں کے خلاف تحفظ فراہم کر سکیں جو ان کو دنیا بھر میں ان کا کام کرنے سے روکتے ہیں۔

صدر کے بقول، ”ہم بدعنوانی کے خلاف بھی نیا پروگرام شروع کرنے والے ہیں جس میں سول سوسائٹی میں بدعنوانی کے خلاف سرگرمیوں، میڈیا، شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد، مزدوروں اور مخبری کرنے والوں کو تحفظ فراہم کر سکیں اور منی لانڈرنگ اور چوری کی گئی رقوم کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ختم کر سکیں ”۔

Share This Article
Leave a Comment