انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ طالبان نے حال ہی میں افغانستان میں ہزارہ اقلیت کے کئی افراد کا ’قتل عام‘ کیا اور ان پر وحشیانہ تشدد کیا۔۔
صوبہ غزنی میں جولائی کے اوائل میں ہونے والی ہلاکتوں کے متعلق عینی شاہدین نے دل دہلا دینے والے بیانات دیے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے اپنا ایک بدلا ہوا روپ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ طالبان کی خوفناک طرزِ حکمرانی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
ہزارہ برادری افغانستان کا تیسرا بڑا نسلی گروہ ہے جو مذہبی لحاظ سے شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور سنی اکثریت والے افغانستان میں طویل مدت سے امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا سامنا کرتے آئے ہیں۔
جمعرات کو شائع ہونے والی رپورٹ میں ایمنسٹی نے کہا کہ مشرقی صوبے غزنی کے ضلع مالستان میں 4 اور 6 جولائی کے درمیان نو ہزارہ افراد کو قتل کیا گیا۔
گروپ نے عینی شاہدین کے انٹرویو کیے اور قتل کے بعد فوٹو گرافی کے شواہد کا جائزہ لیا۔
گاؤں والوس نے بتایا کہ وہ حکومتی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں شدت آنے پر پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے تھے۔
جب ان میں سے کچھ کھانا لینے کے لیے منڈارخت گاؤں واپس آئے تو طالبان نے ان کے گھر لوٹ لیے ہیں اور ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مرد جو اپنے گھروں کی طرف جاتے ہوئے منڈارکھٹ سے گزرے تھے ان پر بھی حملہ کیا گیا۔
مبینہ طور پر کُل چھ افراد کو گولیاں ماری گئیں، کچھ کو سر میں بھی گولیاں ماری گئیں جبکہ تین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق ایک شخص کا اس کے اپنے رومال سے گلا گھونٹا گیا اور اس کے بازو کے پٹھوں کو کاٹ کر الگ کر دیا گیا۔ دوسرے کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ انھوں نے جنگجوؤں سے پوچھا کہ ان کی برادری کے افراد پر ایسا ظلم کیوں کیا؟
مبینہ طور پر ایک جنگجو نے جواب دیا ’لڑائی میں ہر کسی کو مرنا پڑتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے پاس بندوقیں ہیں یا نہیں۔ یہ جنگ کا وقت ہے۔‘